مدرسے میں گیتا دیکھی


ماہ جون میں کراچی کا سفر درپیش ہوا اگرچہ جب دوستوں کو پتہ چلا تو ایک مدرسہ میں بین المذاہب ہم آہنگی پر ہونے والے ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ اہل اسلام آباد جانتے ہیں کہ یہاں این جی اوز کے اتنے پروگرام ہوتے ہیں کہ دعوت کے باوجود ہر جگہ شرکت کرنا عملاً ممکن نہیں ہوتا اور عام طور پر ان کے موضوعات بھی بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کا موضوع بڑا دلچسپ تھا کہ تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی مقدس کتابوں میں تصور امن پر بات کریں گے۔

یہ اس حوالے سے منفرد تصور ہے کہ عام طور پر ہندوازم، سکھ ازم اور دیگر مذاہب کے نظریات بھی مسلمان ہی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کافی مقامات پر افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پروگرام کے ذرا منفرد تصور کو دیکھ کر پروگرام میں شرکت کا فیصلہ کیا، جامعۃ المصطفی کے خوبصورت آڈیٹوریم میں داخل ہوئے تو ہندو، مسیحی اور تمام مسالک کے علما پہلی صف میں نظر آئے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ وطن عزیز کے معاشی مرکز میں کوئی دینی ادارہ تو ہے جہاں اتنی وسعت پائی جاتی ہے کہ تمام مذاہب و مسالک کے مذہبی رہنماؤں کو عزت سے سنا جا سکتا ہے۔

یہ اس لیے بھی خوبصورت لگا کہ اکثر فور سٹار ہوٹلوں میں تمام مذاہب کے ماننے والے بڑے شوق سے مکالمے کرتے ہیں مگر اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور بعض اوقات انتہا پسندوں کی طرف سے شدید ردعمل آتا ہے عام طور پر ادارے اسی کے خوف سے اس طرح کی سرگرمیوں میں شرکت تو کر لیتے ہیں مگر اپنے ہاں انجام نہیں دیتے۔

شعور فاونڈیشن معاشرے میں شعور بانٹ رہی ہے اور یہ انہی کا تفہیم پروجیکٹ ہے جس کی روشنی جامعۃ المصطفی کے آڈیٹوریم میں پھوٹ رہی ہے۔ ویسے بھی شعور و تفہیم کا گہرا تعلق ہے شعور ہی تفہیم کی بنیاد بنتا ہے اور تفہیم ہی سے شعور کی منازل طے کی جاتی ہیں۔ یہاں مسیحی، ہندو اور تمام مسالک کے علما نے اپنی اپنی مقدس کتابوں میں تصور امن پر بات کی۔ ڈاکٹر محسن نقوی صاحب نے کمال کی گفتگو کی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جہاں وہ اسلام کے بڑے سکالر ہیں وہیں ان کی امریکہ سے بائببلک سائنسز میں پی ایچ ڈی ہے یوں وہ بائبل کے بھی بڑا عالم ہیں۔ میں نے بھی چند کلمات مذاہب کے تصور امن اور اہل مذہب کے برعکس عمل پر کہے جس میں بنیادی طور پر مذہب کی تعلیمات اور اہل مذہب کے درمیان آنے والے اختلاف کو واضح کیا۔

جیسے ہی پروگرام ختم ہوا ایک ہندو پنڈت لال صاحب ہمارے پاس آئے اور انتہائی جذباتی انداز میں کہنے لگے کہ بین المذاہب پروگراموں میں جاتے زندگی گزر گئی ہے مگر کہیں بھی ہماری کتاب کو مذہب کی مقدس کتابوں کی فہرست میں یوں مرکزی پینافلیکس میں جگہ نہیں دی جاتی بلکہ سرے سے ذکر ہی نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ سرکاری پروگراموں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں مدرسے میں گیتا دیکھ کر حیران بھی ہوں اور خوش بھی ہوں کہ کسی جگہ سے تو اس کا آغاز ہوا کہ گیتا بھی ایک بڑے مذہب کے ماننے والوں کی مقدس کتاب ہے اور اسے سیاست کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے جذباتی اظہار تشکر سے مجھے یہ لگا کہ بعض اوقات ہمارے عمل جنہیں ہم خود بھی اہمیت نہیں دے رہے ہوتے وہ بہرحال بڑے اہم اور دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پرموٹ کرنا چاہیے اس سے دلوں میں موجود نفرتوں کا خاتمہ ہو گا اور باہمی پیار و محبت میں اضافہ ہو گا۔ ویسے مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ سندھ میں بڑی تعداد میں ہندو رہتے ہیں اور انہیں وہاں بھی موثر نمائندگی نہیں دی جاتی بس خانہ پری کی جاتی ہے۔

ہمارے سرکاری اداروں کا شعور تو ایسا ہی ہے۔ ایک پروگرام میں شریک تھا وہاں ایک ہندو پنڈت ہاتھ میں پلیٹ لیے کسی ایسے کھانے کی تلاش میں تھے جس میں میٹ نہ ہو مگر افسوس ناک بات یہ تھی کہ صرف روٹی اور سلاد ایسی چیزیں تھیں جن میں میٹ نہیں تھا ورنہ ہر چیز میں میٹ تھا اور انہوں نے سادہ روٹی سلاد سے ہی کھائی۔ یعنی ہمارے ہاں اتنا شعور نہیں ہے کہ ہم جن مہمانوں کو بلا رہے ہیں ان کے کھانے کا تو خیال رکھیں کہ انہوں نے کیا کھانا ہے اور وہ کیا نہیں کھاتے۔

ویسے ہمیں کیسا لگے گا اگر کوئی غیر مسلم ہماری دعوت کرے اور ہر چیز میں سور کا گوشت ڈالا ہوا ہو؟ یقیناً ہمارے لیے سارا کھانا بے کار ہو جائے گا اور ہم جو صلواتیں میزبانوں کو سنائیں گے وہ ہمیں معلوم ہے۔ میں نے یہی واقعہ ایک بار اپنے دوست تصور کاظمی صاحب سے شیئر کیا تو وہ کہہ رہے تھے کہ یوتھ پارلیمنٹ میں بھی ہندو شرکا کے کھانے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور وہ بیچارے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

تفہم کا یہ کاروان یہی شعور بانٹنے کے لیے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں سفر شعور جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں بھی اس شعور و تفہیم کے کارواں سے سیکھنا چاہیے کہ ہم کیسے وطن میں رہنے والے تمام مذاہب و مسالک کے لوگوں کے درمیان محبتیں بانٹ سکتے ہیں؟ کیسے سب کو جوڑ سکتے ہیں؟ پھر کوئی ہندو رہنما صرف اس بات پر خوش نہ ہو رہا ہو کہ ہم نے مدرسے میں پینا فلیکس پر گیتا کی تصویر لگا لی۔ ہاں ہمارا ماضی بڑا شاندار ہے مراکش کے شہر فاس میں قائم ہونے والی جامعہ القراوین دنیا کی پہلی یونیورسٹی بھی تھی اور یہودیت، مسیحیت کی تعلیم کا اتنا بڑا ادارہ بھی تھی کہ اس وقت کے بڑے بڑے مسیحی اور یہودی علما القراوین کے فاضل تھے۔ آخر میں اس خوبصورت بزم کا تصور اور پر عملی جامہ پہنانے پر نوجوان فاضل مولانا احمد فاطمی، تفہیم پراجیکٹ سے برادر سمیع خان اور خواہ ماہ رخ کا شکریہ جو معاشرے میں یہ روشنیاں بانٹ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments