تارکین وطن کے بچوں کی شادیاں


ہمارے جاننے والوں نے ایک انتہائی نکمے لڑکے کے لیے یورپ کے ایک بڑے ملک کی شہریت رکھنے والی پڑھی لکھی بہو لی ہے۔ بہو دولہے کی خالہ زاد ہے اور منصوبہ یہ تھا کہ لڑکا بھی بیوی کے ساتھ جا کر شہریت لے لے گا۔ مگر ویزہ نہ لگ سکا اور لڑکی اب یہاں دھکے کھا رہی ہے اور بچے پیدا کر رہی ہے۔

تارکین وطن کے المیے، ان کے تضادات، ان کی خانگی زندگی اور بچوں کے لیے ان کی ترجیحات نہایت دلچسپ موضوع ہے۔

اگر ہم سوچیں کہ وہ لوگ کس طرح کے ٹراما سے گزرتے ہیں، جو رزق کی تلاش میں ملک چھوڑ کر دیار غیر جا بستے ہیں، ۔ جہاں نہ ہم مذہبوں کی کثرت ہے اور نہ ہم وطنوں کی۔ مقامی آبادی ان تارکین وطن کو کم تر بھی سمجھتی ہے۔ اس سب کے ساتھ ایک بہت بڑا عنصر ثقافت کا ہے۔ یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور وسطی ایشیائی ممالک میں جا کر بس جانے والوں کو اپنی مشرقی اقدار، رکھ رکھاؤ، روایات اور مذہبی تقدس بہت یاد آتا ہے۔ اور اس رومانس میں نشانہ بنتی ہیں لڑکیاں۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک تارک وطن جب اپنا وطن، گھر بار، خاندان، زبان اور وہ مخصوص علاقہ ترک کر کے جاتا ہے جہاں اس نے زندگی کے ابتدائی برس گزارے ہوتے ہیں تو وہ کلچرل شاک اور کلچرل سٹریس جیسی کیفیات سے گزرتا ہے۔ ( بہت کم ترقی پسند اذہان ایسے ہوتے ہیں جو جسمانی ہجرت کے ساتھ ذہنی ہجرت بھی کر پاتے ہیں ) اس کو مغرب میں جتنی بھی سہولیات ملیں، جتنا بھی پیسہ ملے اس کے ذہن سے اپنے کلچر، اپنی اقدار اور اپنی روایات کی برتری کا بھوت بالکل نہیں اترتا۔ اپر کلاس تو اپنے وطن میں ہی مختلف کلچر اور اقدار رکھتی ہے مگر میں عام پاکستانیوں کی بات کروں تو مغرب کی تمام تر ”رنگینیوں“ سے استفادہ حاصل کر لینے کے باوجود دو خواہشات تقریباً بڑی حد تک ان میں مشترک ہیں۔

1۔ ان کی بیوی ان ٹچ ہونی چاہیے جو صرف پاکستان سے امپورٹ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ کیوں کہ پاکستان سے آئی ہوئی لڑکی مشرقی روایات کی امین ہو گی۔ اور اس طرح وہ بچوں کو بھی مذہبی و مشرقی اقدار کے عین مطابق تربیت کر سکے گی۔ (ایسے لوگوں کے لیے میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ وہ نہ ہو جو بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کے کردار قیوم کے ساتھ ہوا تھا۔ )

2۔ دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں مغرب کا کلچر نہ اپنائیں۔ اس کے لیے کچھ والدین تو شہریت حاصل ہو جانے کے بعد جوان ہوتی بچیوں کو پاکستان منتقل کر دیتے ہیں جب کہ کچھ جلد سے جلد ان کے رشتے پاکستان میں موجود نکمے رشتہ دار لڑکوں سے طے کر دیتے ہیں۔

جو تارکین وطن بچوں کو بھی وہیں پہ تعلیم و تربیت دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد کے بچے دوہری شخصیات پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ والدین اور رشتہ داروں کے سامنے فرماں بردار مشرقی بچہ/بچی بن کر رہتے ہیں جب کہ سکول، کالج یا مقامی معاشرے میں جاہل اور قدامت پسند کہلانا ان کو ناگوار گزرتا ہے۔ اس سب میں بھی زیادہ متاثر صنف لڑکیوں کی ہوتی ہے۔

کچھ تو ایسے خاندان بھی ہیں جن کی ”مشرقی غیرت“ برطانیہ میں بھی بڑی توانا ہوتی ہے۔ انہی میں سے کچھ کے بارے میں ہم ٹی وی پہ سنتے ہیں کہ پسند کی شادی کے مسئلہ پہ لڑکی کو پاکستان بلا کر قتل کر دیا گیا۔

پاکستان کے کسی گاؤں میں ایک چار دیواری میں بند لڑکی کو جہاں بھی بیاہ دیں اسے شاید زیادہ فرق نہ پڑتا ہو مگر مغرب کی چکا چوند میں پروان چڑھنے والی لڑکی جب زبردستی کی بھینٹ چڑھتی ہے تو اس کا المیہ کہیں شدید ہوتا ہے۔

پاکستان کے اندر پہلی افغان جنگ کے لاکھوں متاثرین رہ رہے ہیں۔ ان میں بہت سوں نے پکے گھر اور کوٹھیاں بنا لی ہیں مگر میں نے ان کی لڑکیوں کو کم ہی تعلیمی اداروں میں یا بازاروں میں کچھ خریدتے دیکھا ہے۔ ہسپتالوں میں البتہ کبھی کبھار کوئی نظر آ جاتی ہے۔ ان کے گھروں میں کیا ہوتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ ان مہاجرین کو پاکستانی معاشرے میں رچنے کے لیے شاید سو برس مزید لگ جائیں۔ میں بہت سارے پاکستانی تارکین کو انہی افغان تارکین وطن کے مماثل سمجھتا ہوں۔ بس یہ فرق ہے کہ پاکستانی اپنی بچیوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔

تارکین وطن کی وہ نسل جو عین جوانی میں ترک وطن کر کے دیار غیر میں جا بستی ہے وہ ان بچوں سے یکسر مختلف سوچتی ہے جو پیدا ہی دیار غیر میں ہوتے ہیں اور اسی کلچر کو اپنا کلچر سمجھتے ہیں۔ ویسے تو جنریشن گیپ ہر جگہ ہوتا ہے مگر تارکین وطن کے گھروں میں جنریشن گیپ کا مسئلہ شدید تر ہے۔ لڑکا تو اہل کتاب سے بھی شادی کر لے تو کوئی حرج نہیں مگر لڑکی کا کیا کریں۔

ہم مذہب، ہم وطن، مساوی سٹیٹس رکھنے والا شریف لڑکا کیسے تلاش کریں؟ یہ سوال بہت سے تارکین وطن والدین کے لیے سوہان روح بنا رہتا ہے۔ اکثر واقعات میں بے جوڑ رشتے جن میں ازواج کا ذہنی تفاوت بہت شدید ہوتا ہے، طلاقوں پہ منتج ہوتے ہیں۔

مجھے تارکین وطن سے ہمدردی ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ پیسہ اور روزگار تو مغرب سے حاصل کریں مگر مغربیت کو آپ گالی دیں۔

یہ ہو نہیں سکتا کہ ثمر تو مغربی کلچر کا کھائیں مگر گیت مشرقی کلچر کے گائیں۔

اپنے آبائی کلچر اور تمدن کا رومانس آپ کی حد تک تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس رومانس کو بچوں پہ لاگو کرنا خالص حماقت ہے۔

میرا کلچر، ہماری اقدار، ہماری روایات اور ہم، بے ہودہ نعروں کے سوا کچھ نہیں۔ کسی انسان کی زندگی کو ان نعروں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔

پلس اور مائنس ہر کلچر کے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے بچے آزادی کے خواہاں ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ انہیں پاکستان بلا کے قتل کرنا یا پاکستانی گدھوں (زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں ) کے ساتھ نتھی کرنا ظلم ہے۔ جس مذہب اور جس اخروی نجات کے بہانے بنا کر آپ یہ کرتے ہیں وہ ظلم کے ساتھ کبھی نہیں ملتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments