خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے


وقت رواں میں ایک واقعے کا بڑا چرچا ہے جس کی ابتدا ایک رومانوی گفتگو کی ایک ٹیپ سامنے آنے پہ ہوئی۔ یہ گفتگو تب کے چئیر مین نیب اور ایک خاتون کے درمیان ہے جو ایک سائلہ کے طور پر ان کے دفتر گئی تھیں۔ بعد میں معاملہ کچھ ایسی شکل اختیار کر گیا کہ صورت کچھ یوں ہوئی

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

اس معاملے میں میرے سمیت خلقت شہر کی اکثریت کی ہمدردیاں خاتون کے ساتھ ہیں لیکن بعض لوگ دال میں کچھ کالا اور بعض بہت کالا بھی پاتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست ہیں جن کا نام راجہ محمد خان ہے۔ شعر و نغمہ کے رسیا ہیں اور شعراء اور ان کے کلام کے بارے میں ہمیشہ وکھری رائے رکھتے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً میرے ایک مضموں ً غالب کا مسلک ان کے ناقدین کی نظر میں ً پر ان کی رائے کو میں نے یوں قلمبند کیا تھا۔

”آپ نے ابھی تک غالب کے ناقدین کی آرا ملاحظہ کیں، اب ذرا ان کے ایک مداح کی بات بھی سن لیجیے۔ یہ ہمارے دوست راجہ محمد خان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر شاعری کی بنیاد پر عقائد کا فیصلہ کرنے لگو تو بڑے بڑے شاعر بشمول اقبال دو چار گام پر تواتر سے فتوے کی زد میں آتے ہیں۔ لہذا میرے نزدیک تو غالب کا غدر کے بعد ایک گورے کے سامنے پیشی پہ یہ کہنا کہ آدھا مسلمان ہوں کیوں کہ شراب پیتا ہوں سور نہیں کھاتا، ان کے مذہب کے باب میں حرف آخر ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مجھے حیرت ہے کہ مذہب کے بارے میں اتنے واضح بیان کے باوجود اہل ذوق کیونکر انہیں نہ صرف پورا مسلمان بلکہ سنی یا شیعہ بھی ثابت کرنے پہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے کمر بستہ ہیں۔ اگر خدا لگتی کہی جائے تو ان اہل ذوق کا اسلام بھی عمومی طور پہ آدھے مسلمان والا ہی ہوتا ہے لہذا غالب کے اپنے بیان ہی کو بجا اور سچ سمجھنے میں غالب سے زیادہ ان سب کا بھلا ہے“ ۔

راجہ محمد خان ریٹائرڈ سی ایس پی افسر ہیں۔ چونکہ حلیہ فقیرانہ ہوتا ہے اور لگتا نہیں کہ ان کا تعارف درست کرایا گیا ہے۔ بہر حال جب بولیں تو پھر آپ کو ماننا پڑتا ہے کہ بندہ صاحب علم ہے۔ دوسری طرف ایسے کئی صاحبان ہوتے ہیں جو ٹرن آؤٹ سے تو بڑے افسر لگتے ہیں لیکن ان کے بولنے پہ حضرت علی کا یہ قال یاد آ جاتا ہے ً بولو، کہ پہچان لیے جاؤ ً

آپ نے زیر تبصرہ موضوع کے حوالے سے ایک دن ارشاد فرمایا، تم نے فیض کا یہ شعر تو ضرور سنا ہو گا۔
محتسب کی خیر اونچا ہے اسi کے فیض سے
رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام

اب خود ہی بتاؤ ایسی صفات رکھنے والے شخص میں نین مٹکا کرنے کی علت بھلا کیونکر نہ پائی جاتی ہو گی۔ دوسرے اگر آپ دونوں کی گفتگو کو بغور سنو تو وہ آج کے ٹی وی ڈراموں کے موضوعات کی نسبت کہیں زیادہ مہذب ہے۔ ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ معاملہ یک طرفہ بھی نہیں لگ رہا۔ خاتون کی طرف سے نیک پروین بننے کی بجائے محبوبانہ اداؤں کے ساتھ رضامندی کی جھلک بھی موجود ملتی ہے۔ چنانچہ آپ کسی قوال پارٹی کے ساتھ مل کے آسمان سر پر اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔

میں نے عرض کی، حضرت شعر و سخن کی دنیا میں محتسب کا سٹیٹس اور ہے جبکہ سرکار میں اور، آپ نہ معلوم دونوں کو گڈ مڈ کیوں کر رہے ہیں۔ پھر ایسا بھی تو نہیں کہ تمام شعراء نے محتسب کو ناپسندیدہ شخص کے طور پر ہی باندھا ہو، بس چھیڑ خوانی ضرور کی ہے جیسے سائل دہلوی نے کہا،

محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گنتا رہا
کس نے پی، کس نے نہ پی، کن کن کے آگے جام ہے

اب دیکھیے شراب سے پرہیز ایک خوبی تو ہے۔ بولے اب آپ مذہب کو بیچ میں لے آئے۔ جب دلیل نہ ہو تو اس کا سہارا لینا آپ کی مجبوری ہے۔ ویسے یہاں مذہب کے نام لیواؤں کے کیا کہنے۔ انہوں نے ہی اس ملک کے قیام کی پرزور مخالفت کی اور پھر ملک میں موجود ہر مخالف پہ مذہب کی آڑ لے کر جتنی چاہی زمین تنگ کی یہاں تک کہ اسے زمین کی نیچے بھی بھیجنا پڑا تو ایسا بھی کر ڈالا۔

جان چھڑانا مشکل ہوتا پا کر میں پھر اصل موضوع کی طرف گھوما۔ کہا چھوڑیے بس اتنا بتائیے کہ بڑے سرکاری عہدیدار نے جو کچھ کیا، کیا آپ جائز سمجھتے ہیں۔ بولے یہاں بڑے یا چھوٹے سرکاری عہدیدار ہوں یا کوئی اثر و رسوخ رکھنے والے غیر سر کاری لوگ، خواتین کا ان سے کسی وجہ سے سابقہ پڑ جائے تو ان سب کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے اور پتہ ہے جواز کیا دیتے ہیں۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

میں نے کہا اچھا حکومت نے جس طرح اس معاملے کو ڈیل کیا اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ بولے، بھولے بادشاہو، حکومت کب اور کہاں انڈا دے اور کب بچہ یہ بس اسی کی صوابدید ہے۔ یہ تو پھر کوئی ایشو تھا جس کا اس نے نوٹس لیا

( مقصد آپ خوب جانتے ہیں ) یہاں تو حکومتیں ایسے ایسے معاملات کا نوٹس اپنی خواہش کے مطابق لیتی رہی ہیں کہ بس راوی کے سقہ ہونے کی وجہ سے واقعہ ماننا پڑتا ہے۔ جسٹس ایم۔ آر کیانی نے افکار پریشاں میں بیان کیا ہے کہ جب وہ مرکز میں سیکریٹری قانون تھے تو ایک دفعہ ان کے پاس قانونی رائے کے لیے ایک نوٹ آیا۔ معاملہ ایک شعر کا تھا جو کسی دل جلے نے موزوں کیا تھا،

دیکھتا ہے کیا میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کا پاکستان دیکھ

کہتے ہیں میں نے لکھا، اس شخص نے تو کوئی قابل گرفت بات نہیں کی بس اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے کہ اے شخص تمہیں شاید میری شکل تو حیران کر رہی ہے لیکن قائد کے پاکستان کی طرف تیری توجہ کیوں نہیں کہ وہاں تو حیران کرنے کو بہت کچھ ہے۔

بات چھوٹی سی کبھی پھیل کے افسانہ بنے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments