چی گویرا میرا ہیرو ہے!


فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا ”وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا“ ، بالکل ایسے ہی ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک ہیجان برپا ہو گیا۔ بات کہاں کی تھی اور کہاں تک جا پہنچی، اور دوسروں کی سوچ، تحریر، کردار اور وابستگیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ بلا شعبہ ہر انسان کا شعوری لیول اور سوچ کی ایک منفرد سطح اور مقام ہوتا ہے۔ بات تو ایک ماضی کے فوجی اور حال کے صحافی کی سابق وزیر اعظم کی تقریب میں دھوں دار تقریر کرنے اور سابق وزیراعظم کے سامنے سوال اٹھانے کی تھی کہ انہوں نے اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار میں ملکی دفاعی اداروں کو ان کی حدود تک محدود کیوں نہ کیا۔

گویا کہ اس صحافی نے یہ اخذ کر لیا تھا کہ ان کی حکومت اپنے بل بوتے اور ایک آزاد ووٹ کے ذریعے آئی تھی اور وہ اپنے فیصلوں میں اس قدر آزاد، باعمل، با اختیار اور طاقتور تھے کہ منہ زور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے پر مجبور کر سکتی؟ اس پر بھی مستزاد یہ کہ ایک سماجی کارکن نے سوشل میڈیا پر طنزیہ ریمارکس پاس کر دیے کہ صحافی موصوف اب اپنے آپ میں چی گویرا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ریمارکس سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے، جس سے بہت سوں کا خون کھولنے لگا۔

ایک طرف نوآبادیاتی اور نیو لبرل ایجنڈا کے اندر رہتے ہوئے محدود جمہوریت کے حامیوں نے قلم تھام لیے تو دوسری طرف سامراجی غلامی کے مخالف سرگرم انقلابیوں نے سوشل میڈیا پر مورچے سنبھال لیے اور سب تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے اپنے اپنے دماغ کا غبار نکالنے پر جت گئے۔ پاکستان جیسے نوآبادیاتی تسلط اور سامراجی غلامی میں جکڑے ہو ملک میں اس قسم کے تصورات اور پراپیگنڈہ غیر متوقع نہیں اور ہمیں اس سے گھبرانے کی بجائے اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کرنے اور اسے عام سیاسی و سماجی کارکنوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

چی گویرا ایک تہلکہ خیز مارکسی انقلابی، مصنف، کوالیفائیڈ ڈاکٹر، نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوتوں کی قیادت کرنے والے عالمی شہرت یافتہ گوریلا رہنما، سفارت کار، اور فوجی تھیوریسٹ تھے۔ انہیں دنیا بھر میں سوشلسٹ مزاحمت، سامراج سے نجات اور نوآبادیاتی تسلط کے خلاف انقلابی جدوجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چی گویرا کا پورا نام ارنسٹو رافیل گویرا ڈی لا سرنا تھا، البتہ ان کا قانونی نام ارنسٹو رافیل گویرا تھا، جو ان کے برتھ سرٹیفکیٹ پر درج تھا۔

وہ 14 جون 1928 ء کو لاطینی امریکہ کے ملک ارجنٹائن کے ایک معمولی قصبے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ارنسٹو گویرا لنچ آئرش ایک باغیانہ فطرت اور سماجی تقریبات کرنے کے شوقین تھے، جبکہ ان کی ماں سیلیا ڈی لا سرنا وائی لوسا ایک انقلابی کارکن تھیں، جن کا اپنے بیٹے چی کی سیاسی و نظریاتی تربیت میں بنیادی کردار تھا۔ چی گریرا بچپن سے ہی شدید دمہ کے مریض ہونے کے باوجود ایک بہترین ایتھلیٹ تھے اور انہوں نے تیراکی، فٹ بال، گولف، شوٹنگ اور سائیکلنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے خاندان میں پرورش پانے والے، چی کو لڑکپن میں ہی سیاسی نقطہ نظر کے وسیع میدان سے متعارف کرایا گیا تھا، جس سے ان کے دل میں غریبوں سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔ اپنی نوجوانی میں وہ کتابوں کا بہت زیادہ شوقین تھا اور اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے اپنے ہی گھر میں ہی 3000 سے زائد کتابوں پر مشتمل علم کا وسیع ذخیرہ مل گیا، جس سے اس نے اپنے علم میں بہترین اضافہ کیا۔

چی بنیادی طور پر میڈیکل کا طالب علم تھا، لیکن اپنے تعلیمی کیریر کے دوران ہی اس کے اندر سیاحت کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اس نے 1950 ء سے 1953 ء تک جنوبی امریکا کو تین بار اپنی حیران کن اور سبق آموز سیاحت کا مرکز بنایا۔ اپنا پہلا سیاحتی سفر اس نے 1950 ء میں سائیکل پر براعظم کے جنوب سے شمال کی جانب کیا اور تنہا 4 ہزار 500 سو کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ پھر اس نے 1951 ء میں اپنی سائیکل پر ایک موٹر لگا کر اسے موٹر سائیکل میں تبدیل کر کے دوسرا سفر کیا، جو تقریباً 8 ہزار کلومیٹر تھا۔

تیسرا سفر اس نے 1953 ء میں کیا اور اس طرح چی گویرا نے اپنی سیاحت کے اس سفر میں مجموعی طور پر متعدد ممالک بالخصوص یوراگوئے، چلی، پیراگوئے، بولیویا، برازیل، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا، وینزویلا، نکارا گوا، گوئٹے مالا، میکسیکو اور کیوبا کی مسافت کرنے اور وہاں کو عوام کے رہنے سہنے، سماجی رشتوں، رسم و رواج، طبقاتی تفریق اور نوآبادیاتی جبر و استحصال میں عوام کی بے بسی کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اپنے آخری سفر میں چی نے کئی ہفتے پیرو میں گزارے اور وہ لوگوں کی تکلیف دہ زندگی اور سامراجی جبر و استبداد کی مختلف شکلوں کو دیکھ کر تھکنا ہی بھول چکا تھا۔

وہ باقاعدگی سے اپنے سفر کی ڈائری لکھتا رہا اور اس نے اپنے سفر نامے اور مشاہدات کو رقم کرنا اپنا محبوب مشغلہ بن لیا۔ اس سفر کے دوران چی کے مشاہدے میں جہاں بے پناہ اضافہ ہوا، وہیں جب وہ دور دراز دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے گزرا، تو وہاں کے رہنے والے باشندوں کی حالت زار، غربت، بھوک، ننگ، بیکاری، بے روزگاری اور بیماریوں نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ چی بنیادی طور پر غریبوں کے لئے بہت حساس دل رکھتا تھا، اور اس سیاحتی مشاہدے سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام جنوبی امریکہ اس وقت سامراجی غلامی اور اس کے مقامی کارندوں کے زیر تسلط ہے۔ اس نے سامراجی غلامی کی خلاف جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں آزادی کی تحریکیں منظم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ پھر اس نے یونیورسٹی آف بیونس آئرس سے اپنی میڈیکل کی ڈگری مکمل کی اور پھر اپنے ملک کو ایسا خیر آباد کہا کہ اس کی لاش بھی واپس نہ آئی۔

بیشتر نوجوانوں کی طرح چی کو بھی دنیا دیکھنے کا ایسا جنون تھا کہ اسے کہیں رکنا یا ٹھہرنا نصیب ہی نہیں ہوتا تھا۔ پڑاؤ اس کے مقدر میں ہی نہیں تھا، جیسا کہ اس نے ایک مرتبہ خود کہا تھا کہ مجھے اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میں ایک ناقابل یقین مقدر کی گرفت میں ہوں، اور مسلسل مسافرت میرا نصیب بن چکی ہے۔ اس کا رستہ کون سا تھا اس کی سمت کون سی ہو گی، اس کا ادراک اس کو خود بھی نہیں تھا۔ اس نے سفر اختیار کیا تو پلٹنا بھول گیا اور برسوں اپنے آبائی ملک ارجنٹائن واپس نہ جا سکا۔

ایک مرتبہ چی نے لکھا کہ جب میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو آج ایک انقلابی کے طور پر اس میں ہے۔ ہر ایک کی طرح اس کا بھی ایک ہی مقصد ایک ہی جنون تھا ؛ کامیابی۔ وہ خواب دیکھا کرتا تھا کہ وہ ایک مشہور محقق بنے گا۔ وہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ انتھک محنت کر کے کچھ مختلف کر کے دکھائے گا، کچھ ایسا کہ جو نوع انسانی کی عظیم خدمت قرار پائے۔ لیکن اس وقت اس کا یہ آدرش محض ایک ذاتی کامیابی کا آدرش ہی تھا۔ ہر ایک کی طرح وہ بھی اپنے ماحول کی ہی پیداوار اور اس کا اظہار تھا۔

چی گویرا بین الاقوامی ذہن کا مالک ایسا انسان تھا جو دنیا بھر کی محکوم اقوام کو سامراجی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ گوئٹے مالا میں قیام کے دوران مالی مشکلات میں گھر گیا تو اس نے بطور ڈاکٹر نوکری کرنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ وہ مقامی قوانین کے مطابق مقامی کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ ممبر بن جائے اور ہمیشہ کے لیے وہیں رہ جائے۔ چی اپنی آنکھوں سے نوآبادیاتی سائے میں پنپنے والی اصلاح پسندی کی بھیانک اور مہلک کمزوری کو دیکھ چکا تھا اور اس کا یہ یقین پختہ ہو چکا تھا کہ اس زمانے کے حالات اور سامراجی بربریت میں سوشلزم کو مسلح جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

che with his mother

وہ ستمبر 1954 ء میں میکسیکو پہنچا، جہاں اس کے کیوبا کے ان تارکین الوطن سے رابطے ہوئے جن سے وہ پہلے گوئٹے مالا میں مل چکا تھا۔ جون 1955 ء میں وہ پہلے راؤل کاسترو سے ملا، پھر اس کی ملاقات فیڈرل کا سٹرو سے ہوئی، جسے کیوبا میں قید سے رہائی مل چکی تھی، کیونکہ اسے مونکاڈا بیرکوں پر ناکام حملوں کے بعد قید کر لیا گیا تھا۔ چی نے فوری طور پر کیوبا کی 26 جولائی موومنٹ کو جوائن کر لیا جو صدر بیتیشیا کی آمریت کا تختہ الٹنے اور سماجی انقلاب برپا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

پہلے پہل چی کو بطور ڈاکٹر میڈیکل ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا، کیونکہ اس مسکین کی طبیعت شروع سے ہی دمہ کے ہاتھوں خراب چلی آ رہی تھی، چنانچہ یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کو ایک جنگجو کی ڈیوٹی دینا نامناسب ہو گا۔ تاہم اس کے باوجود بھی چی مسلح تربیت بھی ساتھ ساتھ حاصل کرتا رہا اور اس نے جنگجو کے طور پر بھی اپنی صلاحیت منوا لی۔ کاسترو بھی اس کی قابلیت اور ڈسپلن سے بہت متاثر تھا، یہی وجہ تھی کہ کچھ ہی عرصے میں اس نے اسے اپنا دست راست بنا لیا۔

چی گویرا جو ارجنٹائن کا شہری تھا، اسے انقلابی خدمات کے سلے میں انقلاب کے بعد کیوبا کی شہریت دے دی گئی۔ پہلے اسے انقلابی عدالت کا سربراہ بنایا گیا، پھر نیشنل بینک آف کیوبا کا صدر بنا دیا گیا۔ اس زمانے کے کیوبا کے کرنسی نوٹوں پر چی کے دستخط موجود ہیں۔ بعد ازاں 1961 ء میں چی کو وزارت صنعت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ ان ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے بنیادی تبدیلیوں کی وکالت شروع کر دی، جس کی بدولت اسے کیوبا میں شمالی امریکی جاگیرداروں کی جائیدادوں کو قومیانے کے عمل میں بھی گویرا کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔

چی نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جس کے بارے میں زیادہ تفصیلات تو نہیں ہیں، کیونکہ یہاں سامراجی اتحادی ڈکٹیٹر ایوب کا دور تھا، مگر یہ ضرور واضح ہے کہ چی گریرا کے اس دورے کے اغراض و مقاصد کیا تھے۔ یہ فروری 1959 ء کی بات ہے جب کیوبا میں فیدل کاسترو کی قیادت میں انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ امریکہ نے کیوبا کی انقلابی حکومت کو تسلیم تو کر لیا تھا مگر اس کے باوجود کاسترو کی سربراہی میں کیوبا کی انقلابی حکومت عالمی تنہائی کا شکار تھی۔

ایسے میں فیصلہ ہوا کہ فیدل کاسترو کے دست راست اور سامراج کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے رہنما چی گویرا ایک وفد کے ساتھ اس انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کریں۔ چی گویرا کا یہ دورہ تین ماہ طویل تھا اور انھوں نے ان تین ماہ میں 17 ممالک کا دورہ کیا جن میں برما، سری لنکا، انڈونیشیا، انڈیا، یوگوسلاویہ، مصر، مراکش، شام، یونان اور پاکستان شامل تھے۔

پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کے دورے کے بعد آٹھ ستمبر 1959 ء کو چی گویرا کیوبا کے دارالحکومت ہوانا واپس پہنچ گیا۔ فیدل کاسترو نے چی کی خدمات سے متاثر ہو کر اسے کئی اور ذمہ داریاں سونپ دیں مگر چی گویرا ایک عملی انقلابی تھا اور دفتری ماحول میں ان کا دم گھٹتا تھا۔ چنانچہ بہت جلد وہ ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر واپس بر اعظم کے دیگر ممالک کے جنگلوں میں چلا گیا جہاں اس نے اپنی انقلابی جدوجہد جاری رکھی۔

بعد ازاں اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتا ہے اور پھر 1965 ء میں فیڈرل کاسترو نے اعلان کر دیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔ کیوبا چھوڑتے ہوئے فیڈرل کاسترو کے نام اپنے خط میں چی نے لکھا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا تھا۔ سو میں آپ سے، کیوبا کے انقلابی ساتھیوں سے، اور کیوبا کے عوام سے، جو اب میرے اپنے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔

دنیا کے دوسرے ملک میری حقیر کوشش اور میری جدوجہد کو پکار رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح، اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔ چی نے اپنے بچوں کے نام بھی خط لکھا جس میں اس نے لکھا کہ تمھارا باپ ایک ایسا آدمی ہے جس نے جو سوچا اس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا اور رہے گا۔ اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ ہے انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات اور ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

چی نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ اس نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی، لیکن اس کی کوششیں رائیگاں گئیں اور 1966 ء میں وہ خفیہ طور پر واپس کیوبا لوٹ گیا۔ کیوبا سے اس نے بولیویا جانے کی ٹھان لی تا کہ وہ رینی بارنتوس اور تو نو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکے۔ ستمبر کے آخر سے ہی گوریلوں کے قدموں کے نشانات کا سراغ لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ بولیویا کی سپیشل فورسز کو ایک مخبر کی اطلاع پر چی کی جائے موجودگی کی خبر ملی تو امریکی سی۔ آئی۔ اے کی زیر نگرانی بولیویائی فوجی دستے نے 8 اکتوبر کو اس علاقے کا محاصرہ کر لیا اور پھر ایک معمولی جھڑپ کے بعد چی گویرا کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔

چی کے پکڑے جانے کی خبر ملتے ہی صدر برنتوس نے اس کو قتل کردینے کا حکم جاری کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کی۔ اس نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کی تہذیب کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور ان کا حکم امریکہ کی مکمل آشیرباد سے ہی جاری کیا گیا تھا۔ وہ سب لوگ کسی طور پر بھی چی گویرا پر مقدمہ چلا کر اس کا بیان سننے کا رسک لینے کو تیار نہیں تھے کہ جس میں وہ اپنا دفاع کرتا، اپنی سرکشی کو برحق اور جائز قرار دیتا، اور اس نا انصافی اور نا برابری کو ننگا کرتا جس نے اسے سرکش بننے پر مائل کر دیا تھا۔

اس قسم کی آواز کو سننے کی بجائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شہید کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چی گویرا کو گرفتاری کے بعد قریبی گاؤں کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں لے جایا گیا اور وہاں رات بھر رکھا گیا۔ اگلے دن دوپہر کے بعد چی کو سکول کی عمارت سے باہر لایا گیا۔ یہ 9 اکتوبر 1967 ء کا دن تھا جب چی کو ایک بج کر دس منٹ پر بولیویا فوج کے ایک سارجنٹ ماریوٹیران نے گولی کا نشانہ بنایا۔ اس کی موت کو یقینی بنانے اور اس کے مر جانے کا یقین کرنے کے لئے اس کی ٹانگوں میں بے شمار گولیاں ماری گئیں تاکہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر مر جائے۔

بعض حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ چی نے گرفتاری کے وقت ان سے کہا کہ مجھے مت مارنا، میں تمہارے لئے مردہ سے زیادہ زندہ وارے کھاتا ہوں۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایک کم ہمت اور بزدل انسان تھا۔ یہ درحقیقت انقلاب کے دشمنوں کی اسی بدنیت مہم کا ہی ایک حصہ ہے، جس کے ذریعے چی جیسے عظیم آدرش وادی کے تاثر پر بدنامی کی کالک ملنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ اس کے اثرات کو زائل اور اس کے تشخص کو گھائل کر دیا جائے۔

وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے ہمیشہ جی داری اور جرات مندی سے زندگی بسر کی اور جو کبھی بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کیا کرتا تھا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اس نے مرنے سے قبل اپنے قاتلوں سے کہا کہ میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے کے لئے آئے ہوئے ہو۔ مارو مجھے بزدلو! تم ایک انسان ہی کو تو مار رہے ہو، لیکن قومی آزادیوں کی اس تحریک کو کبھی ختم نہیں کر پاؤ گے۔ یہی الفاظ ہیں جو ایک سچے چی گویرا کے الفاظ ہو سکتے ہیں۔ فیڈرل کاسترو نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں اس لیے اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ ظالم حکمرانوں اور فوجی افسروں نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔

چی گویرا کی جدوجہد اور اس کی موت دونوں کا اس قدر شہرہ ہوا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ 1968 ء میں طلبا کی عالمی تحریک کے دوران چی گویرا کی آٹھ برس پرانی ایک تصویر لاکھوں ٹی شرٹس اور پوسٹروں پر چھپ گئی۔ بعد میں یہی تصویر مختلف تنظیموں کے پرچموں، انقلابی اور عوامی مہمات میں استعمال ہوئی اور یہ لاطینی امریکا کے مختلف ممالک سے لے کر دنیا بھر میں ٹی شرٹس اور کافی کے مگ پر آج بھی نظر آتی ہیں۔ چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا میں ایک مقبرہ تعمیر کر کے پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی۔

چی گویرا ایک قابل احترام تاریخی شخصیت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا، جس کی سوانح حیات، یادداشتوں، مضامین، دستاویزی فلموں، گانوں اور فلموں کی ایک بڑی تعداد میں اجتماعی تخیل میں محفوظ ہے۔ اس کی شہادت، اپنے وقت و حالات میں کار فرما انقلابی جدوجہد کی بدولت بائیں بازو کی مختلف تحریکوں، بالخصوص قومی آزادی کی تحریکوں میں ایک نمایاں آئیکن کے طور پر مشعل راہ رہے گی۔ ان کی میراث پر اختلاف کے باوجود، ٹائم میگزین نے انہیں 20 ویں صدی کے 100 سب سے زیادہ با اثر لوگوں میں سے ایک قرار دیا، جبکہ ان کی ایک البرٹو کو رڈا کی تصویر، جس کا عنوان گوریلیرو ہیروکو تھا، جسے 5 مارچ 1960 کو ہوانا، کیوبا میں لا کو بری دھماکے کے متاثرین کے لیے ایک یادگاری سروس مارچ میں لی گئی تھی، میری لینڈ انسٹی ٹیوٹ کالج آف آرٹ نے اس تصویر کو دنیا کی سب سے زیادہ مشہور تصویر کا اعزاز دیا۔ چی گویرا متعدد فلموں کا موضوع بھی رہا ہے، جن میں دی موٹر سائیکل ڈائریز بھی شامل ہے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments