پانچ جولائی 1977 کا سانحہ


4 اور 5 جولائی 1977 کی درمیانی رات جمہوریت کے نوزائیدہ پودے کو پاؤں تلے روند کر وطن عزیز کو پستی کے سفر پر روانہ کر دیا گیا۔ بھٹو حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان معاہدے کی تکمیل کے بعد پارلیمان کا انتخاب جمہوریت کی طرف ایک خوشگوار سفر کا باعث بن سکتا تھا۔ مگر آمریت پسندوں نے جمہوری حکومت کو رات کے اندھیرے میں شب خون مار کر ختم کر دیا۔ اس طرح کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہمیشہ رات کے اندھیرے میں ہی سرانجام پاتے ہیں۔ دن کے اجالے میں تو پاکستانی ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کو مینڈیٹ دے کر پارلیمنٹ میں بٹھاتے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق اور اس کے ماتحت افسران نے مارشل لا لگانے کی پلاننگ بہت پہلے سے کر رکھی تھی۔ ابھی ڈھاکہ کے پلٹن میدان کی شکست کا زخم پوری طرح بھرا بھی نہیں تھا۔ کہ ایک اور ایڈوینچر جمہوریت کو کھا گیا۔ نوے ہزار سے زائد جنگی قیدیوں کی باوقار واپسی اور مسلح افواج کا مورال بحال کرنے والے قومی راہنماء ذوالفقار علی بھٹو کی رات کے اندھیرے میں اقتدار سے علیحدگی اور بعد ازاں عدالتی قتل پر ان کے بعض کٹر مخالف بھی افسوس اور تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔

مگر آمریت پسند اینٹی بھٹو فیکٹر ابھی تک جنرل ضیاء کے غیرآئینی اقدامات کو جائز سمجھتا ہے۔ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد ضیاءالحق کی زیر قیادت مارشل لا حکومت نے ظلم اور بربریت کی ایک ایسی داستان رقم کی۔ جس کی نہ اسلام اجازت دیتا تھا اور نہ ہی انسانیت۔ وہ دور پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لیے ظلم کی ایسی سیاہ رات کے مترادف تھا۔ جس کی روشن صبح کا تصور بھی محال ہو چکا تھا۔ کوڑے اور پھانسیاں ان کا مقدر بن چکی تھیں۔

ضیاءالحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے 5 جولائی کی مناسبت سے قومی اخبارات میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں موصوف نے اپنے والد کے اقدامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ان کے والد نے یہ قدم اٹھایا۔ بقول ان کے اس اقدام کو آئینی تحفظ حاصل تھا۔ میرا ان سے یہ سوال ہے کہ اگر جنرل ضیاء کا مارشل لا لگانے کا قدم آئین اور قانون کے مطابق درست تھا۔ تو انہوں نے اس کام کے لیے رات کی تاریکی کا انتخاب کیوں کیا۔ وہ یہ کام دن کی روشنی میں بھی کر سکتے تھے۔

درحقیقت بھٹو حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان سیز فائر ہو چکا تھا۔ ملک میں امن امان کی صورت حال قابو میں آ چکی تھی۔ دونوں فریق کامیابی کے ساتھ ایک متفقہ معاہدے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اگر یہ معاہدہ ہوجاتا۔ تو نہ صرف جمہوریت بلکہ آئین اور قانون کی سربلندی کا مظہر ہوتا۔ بدقسمتی سے مگر جمہوریت مخالف ٹولے کی اقتدار کی ہوس نے نہ صرف وطن عزیز پر مارشل لا کے سیاہ بادل مسلط کر دیے۔ بلکہ جمہوریت کے پودے کو بھی پنپنے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکا۔

کروڑوں ووٹرز کے مینڈیٹ سے قائم جمہوری حکومت کے خاتمے کے حق میں کوئی بھی دلیل قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ آپ کتنے ہی خوش نما الفاظ اور مناسب جواز مارشل لا رجیم کی حمایت میں کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی جنرل کو آئین یہ ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایک منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے معزول کر کے اپنے آپ کو حکمران کے طور پر پیش کرے۔ خواہ ملک کے حالات کتنے ہی ہی خراب کیوں نہ ہوں۔ صرف عوام ہی اپنی قیادت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ہر آمر کو اپنے ادوار میں کیے گئے خلاف آئین اقدامات کی سپریم کورٹ سے توثیق کی ضرورت پیش آتی رہی۔

یہ بات بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ کہ جنرل ضیاء اور اس کے ساتھیوں نے حکومت اور اپوزیشن کی صفوں میں اپنے خاص کارندے داخل کر رکھے تھے۔ جن کا کام معاہدے کو ناکام بنانا تھا۔

کاش اعجاز الحق جناب بھٹو کی پھانسی جسے تاریخ عدالتی قتل قرار دیتی ہے، پر ندامت کا اظہار کرتے۔ اور قوم سے معافی کے طلبگار ہوتے۔ اس طرح شاید ان کے مرحوم والد کی روح کو بھی سکون مل جاتا۔ لیکن وہ تاریخ کے اس بڑے سانحے پر اظہار ندامت کرنے کے بجائے اپنے والد کے غیرقانونی، غیرآئینی اور غیر اخلاقی اقدامات کو درست کہہ رہے ہیں۔ کیا وہ مقتول لیڈر کا کوئی ایسا قصور گنوا سکتے ہیں۔ جو ان کی پھانسی کے حق میں سند رکھتا ہو۔

کیا استغاثہ یہ بات ثابت کر سکا۔ کہ بھٹو شہید نے نواب محمد احمد خان کو قتل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ جب نواب صاحب کا قتل ہوا۔ اس وقت راؤ رشید پنجاب کے آئی جی تھے۔ ان کا بیان ریکارڈ نہ کرنے کے پیچھے کیا عوامل تھے۔ صرف چھوٹے اہلکاروں کو ڈرا دھمکا کر مقدمے کا ٹرائل کیوں کیا گیا۔ اے ایس ایف کے ڈائریکٹر محمد عباس بھی اس کیس کے گواہ تھے۔ مگر بعد میں وہ اپنے بیان سے مکر گئے۔ انہوں نے بھٹو شہید کے خلاف دیے گئے اپنے سابقہ بیان کو دباؤ کی وجہ قرار دیا تھا۔

نواب محمد احمد خان قتل کیس کی غیر شفافیت کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہ مدعی مقدمہ احمد رضا قصوری تھے۔ مگر اس اہم ترین کیس کو جنرل فیض علی چشتی نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔ گواہوں کو ترغیبات دینا اور ڈرانا دھمکانا جنرل چشتی کی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچ رہا تھا۔ وہ اس کیس کی نگرانی اپنے باس جنرل ضیاء کے حکم پر سرانجام دے رہے تھے۔

دراصل ضیاءالحق اس خوف میں مبتلا تھے۔ کہ بھٹو شہید دوبارہ برسراقتدار آ کر ان پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ دائر کر دیں گے۔ اس لیے انہوں نے جناب بھٹو کو سزائے موت دینے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے۔ جنرل ضیاء اپنے آپ کو تو اسلام کا سپائی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں سزا اور جزا سے ڈر کیوں لگتا تھا۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی میدان میں مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیے تھا۔ مگر بھٹو شہید کے خوف کی وجہ سے وہ غلطی پر غلطی کرتے چلے گئے۔

جنرل ضیاء کے آرمی چیف تعینات ہونے کے پیچھے ان کی شاطرانہ چالیں تھیں۔ اسی وجہ سے انہوں بھٹو شہید کو اپنے جال میں پھانس لیا۔ وہ کافی عرصے سے جناب بھٹو کے اردگرد رہ کر ان کی توجہ حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ وہ بھٹو صاحب کے سامنے بڑے مودب انداز میں بیٹھا کرتے۔ جیسے کوئی کسی روحانی شخصیت کے سامنے بیٹھتا ہے۔ ایک دفعہ جنرل ضیاء نے ایک تقریب میں ان کی آمد پر جلتا ہوا سگریٹ اپنی پتلون کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ جب وہ ملتان کے کور کمانڈر تھے۔

اس وقت انہوں نے بھٹو کو اپنی کور کا کرنل انچیف مقرر کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ بھٹو صاحب کے تقریب میں پہنچنے پر فوجی افسران کی بیگمات اور بچوں کو لائنوں میں کھڑا کر دیا گیا۔ جنہوں نے ان کے حق میں نعرہ بازی کی اور پھول نچھاور کیے۔ جنرل ضیاء نماز روزے کے بھی بڑے پابند تھے۔ بھٹو صاحب سمجھتے تھے۔ کہ وہ مذہبی شخصیت کے مالک ہونے کی حیثیت سے سیاسی امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ایسی ہی بعض خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں اپنے فیصلے پر جناب بھٹو بھی بڑے دکھی ہوئے۔

فوج کے ٹو اور تھری سٹار افسرز روایتی طور پر رعب اور دبدبے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ کسی اعلی ’شخصیت کے سامنے ہمیشہ باوقار انداز اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ مسلح افواج کے عظیم ادارے کے وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر جنرل ضیاء ایسے نہیں تھے۔ انہوں نے بعض مواقع پر وزیراعظم بھٹو کی مدح سرائی کے لیے ایسی حرکات کیں جو ایک جنرل کے شایان شان نہیں تھیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی قومی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔ وہ ایک ذہین اور فطین قومی لیڈر تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کچھے پاکستان کی تعمیر نو میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلح افواج میں بھی انقلابی تبدیلیاں متعارف کراہیں۔ انہی کے دور میں ملک کو نیوکلیر ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی پلاننگ کی گئی۔

جب انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ تو متعدد عالمی راہنماؤں نے جنرل ضیاء کو ان کی سزا پر عملدرآمد روکنے کی درخواست کی تھی۔ بھٹو صاحب کی لازوال قومی خدمات کے صلے میں کسی ثالثی کے ذریعے ان کی سزا معاف ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر آمر وقت کی سنگدلی اور بزدلی آڑے آئی۔ اور اس نے رحم کی تمام اپیلیں رد کر دیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments