پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب اور زرداری کی پرویز الٰہی کو آفر


آصف زرداری نے رات چودھری پرویز الہی کو ناقابل مزاحمت قسم کی پے درپے آفریں ماریں۔ چودھری انکاری رہا اور پھر ڈھیلا بھی پڑ گیا۔ آفریں کیا تھیں کہ دیکھ چودھری میں چل کے آیا تھا مولانا بھی آئے تھے۔ ہم نے تمھاری مانی تھی تمھیں وزیر اعلی نامزد کیا تھا۔ شہباز کو تمھارے پاس بھیجا تھا تم آخری موقع پر سلپ ہوئے۔

تمہارے سلپ ہونے کے بعد ہم نے اپنا کام پھر بھی کر لیا اور کیا بھی ایسے کہ اس پر کوئی قانون نہیں لگتا، اب پھر آئیں ہیں۔ وزیر اعلی بننا؟ تو ہماری طرف سے بن جا۔ اچھا نہیں تو جا مشترکہ بن جا ہمارا بھی کپتان کا بھی یہ بھی نہیں تو چل کپتان کا بن جا بس کچھ باتیں طے کر لے یا کرا لے۔

اب سیاسی باتیں کیا ہوتی ہیں؟ فنڈ کتنا ملے گا؟ کھپ نہیں ڈالو گے، تیرا چیف چیف میرا چیف والا رولا مکاؤ آ مل کر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ہو گا سب کا چیف

اب آپ دو منٹ کو پہلے جٹ پھر گجرات اور پھر چودھری پرویز الہی ہو جائیں اور خود میں اکڑ انا ضد بھی پانچ ہزار۔ والی محسوس کریں۔ ان آفر کے سامنے ٹک کے کھڑے ہو سکیں گے؟

یہ آصف زرداری ہیں، یہ سیاست ہے جو ناممکنات سے راستہ بناتی۔

یہاں رکیں اک اور پکی سنیں، پی پی کے چار سیانے لوگوں نے جن میں اک سندھی لیڈر ہے اپنی پارٹی اور پی ڈی ایم کو مشورہ دیا کہ یائیں یائیں نہ کریں کام مکائیں یا ایکسٹینشن دے دیں ابھی یا نئے بندے کا اعلان کر دیں۔ بزرگوں نے اک دوجے کی طرف دیکھا اور پوری متانت دیانت اور ہوشیاری کے ساتھ کہا کہ نہ ایسے نہیں، یہ جب وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔

یہ بھی سیاسی سمجھ ہے جو گرتی معیشت گھڑمس اور بحران میں مزید مصالحہ مکس کرنے سے انکاری ہے۔

میاں محمد نواز شریف جنہیں سٹیرنگ پنڈی سے لے کر خؤد نہیں تو عباسی کو پکڑانا ہے یا بلاول کو یا کسی کو بھی۔ انہیں معیشت بہتر ہوتی سوٹ کرتی یا دھڑام ہوتی؟ ہر دھڑام کے ساتھ اک گیت کا مکھڑا چلتی ہے تو چلا لو خود ہی؟ ہمیں تو جلدی نہیں

اگلی بات ٹویٹر پر چڑھی پر کوئی سمجھا نہیں۔ پاکستانی سفارتخانوں کے بجٹ پر کٹ لگا ہے پینتیس فیصد، یہ کٹ خرچوں پر لگا ہے، خرچے بولے تو وہ جو جیب میں ڈالے جاتے وہ جو سورسز کو دیے جاتے وہ جس سے جوڑ توڑ کیا جاتا کہ یار دیکھیں ہم پر ہاتھ ہولا رکھیں اپنی پارلیمنٹ یا دفتر میں۔

اب سفارتخانوں کے ملازم قلم چھوڑ ہڑتال کی خفیہ تڑیاں لگا رہے۔ اگر کر دی تو؟ ڈالر نے سو پچاس کی چھلانگ مارنی کہ اوئے ان کے تو سفیروں کے پاس بھی پیسے نہیں چائے پلانے کے؟

زور کس پر آ رہا سر جی پر، یہ بھی وہی کارروائی ہے کہ اچھا چلتی ہے تو چلا لو۔

دوست ملک کہہ چکے کہ نہ تو کسی عارضی نظام کی ہم نے مدد کرنی، نہ ہم نے کپتان کی مدد کرنی۔ پیسے چاہئیں ملیں گے لیکن حکومت میں تسلسل لاؤ، یہ ہماری مجبوری ہے کہ سنیں دوست ملک غلط نہیں کہہ رہے۔ کپتان کے ساتھ بھی چل جائیں گے اگر وہ خود لمبا چل سکے اور گھڑیاں نہ بیچے۔

اب کپتان کہانی۔ پنجاب میں پرویز الہی کو لا کر کپتان کو کیا ملے گا؟ گھنٹہ؟ پرویز الہی اپنی مدت پوری کرے گا کپتان کو الیکشن درکار، ایسے ہے کہ نہیں؟ پرویز الہی کے آنے سے الیکشن ہو گا؟

کپتان کی مظلومیت بک رہی یا فتح۔ کس کو اب یاد ہے دو چار دن پہلے کی عظیم الشان فتح؟ اب لوٹے سنبھال مہم اور رونے جاری۔ کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف یہ ڈائلاگ سن کر آنٹی لوگ دل پکڑ کر بہہ جاتی ہیں کہ ہائے میرا کپتان۔

کپتان کو مظلومیت سوٹ کرتی ہے الیکشن تک۔ یہ اس کی سیاست ہے، اس کا حق کے پاور گیم میں اپنی سیٹنگ کرنے کو جو چاہے کرے۔

اس ساری لمبی تحریر میں آپ کو خدانخواستہ کہیں اخلاقی قدریں کوئی عوام کوئی اسلام کوئی ریاست مدینہ کوئی چین کا نظام کوئی ایشیا کا ٹائیگر یا موٹر وے یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام تہتر کا آئین یا پختون تباہ دے تو دکھائی نہیں دیا۔ الحمدللہ نہیں ملے گا۔

تو یہ سیاست اس کی حالت ہے۔ اس کے لیے اک دوجے سے نہ لڑو، مزے سے میچ دیکھو۔ یہ پاور گیم ہے بھائیا، دھندا ہے اور بہت گندا ہے۔ اس پر پر جان تعلق اور مال مت برباد کرو نارمل رہو۔ جس کی مرضی سپورٹ کرو لیکن کرو وہی جو کرنا بنتا۔

پیار یار یاریاں اور آپس میں سچیاں محبتاں

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments