اندھیر – سچی کہانی پر مبنی افسانہ


چائے لے آؤ بھئی، شام ختم ہو رہی ہے، ثاقب کی آواز آئی، زور سے بولنے کے نتیجے میں کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔

میں نے گلاس میں پانی بھرا اور کچن سے نکل کر لاؤنج میں پہنچ گئی، اور ناراضی سے کہا، کیا ضرورت تھی زور سے آواز دینے کی، میں گھر کے کچن میں ہی تھی، باہر تو نہ تھی۔

ثاقب پانی پی کر کچھ دیر ہانپتے رہے، سانس بحال کرنے کے بعد گویا ہوئے۔

ایسے ہی تم کو ستانے کے لئے آواز دی لیکن بھول گیا کہ یہ حلق، یہ آواز اور یہ پھیپھڑے بھی اب میرے جیسے بزرگ ہو گئے ہیں۔

میں نے سائیڈ ریک پر رکھی ادویات کھنگالتے ہوئے کہا،

چلئے سودے کی فہرست بنائیں، چائے کی پتی، دالیں بھی ختم ہیں اور آپ کی کھانسی کی دوا بھی ختم ہو چکی ہے۔

میں نے ثاقب کو کاغذ اور قلم پکڑائے اور خود دوبارہ کچن میں جا گھسی۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں اپنے کپڑے کے خالی تھیلے اٹھائے اپارٹمنٹس کی بلڈنگ سے نکل کر قریبی سپر مارکیٹ میں جا پہنچے۔
ادویات والے حصے میں ثاقب کی کھانسی کی دوا نہ مل سکی۔
سیلز بوائے نے شائستگی سے کہا، آنٹی یہ دوا آج کل آ نہیں رہی ہے کہیں تو دوسری دے دوں۔

میں نے منع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ سپر مارکیٹ والے اکثر پرانے ذخیرے کو بیچنے کے لئے ایسا کہتے ہیں۔

سپر مارکیٹ سے نکلنے کے بعد میں نے ثاقب سے کہا، ہماری عمارت کے پچھلی طرف جو میڈیکل اسٹور ہے وہاں سے آپ کی دوا لے کر آتی ہوں، آپ یہ سامان لے کر اوپر پہنچیں۔ میں نے اپنا بھی تھیلا ان کو پکڑا دیا۔

ثاقب نے بہ آسانی تھیلا پکڑتے ہوئے کہا، میں ساتھ چلتا ہوں۔
لیکن میں نے کہا، حلق خشک ہو جائے گا پھر کھانسی اٹھے گی، آپ جائیں میں لے آتی ہوں۔
ثاقب آگے بڑھتے ہوئے بولے، اس طرف سے جاؤ، گاڑیاں کم ہوتی ہیں، دیکھ بھال کے سڑک پار کرنا۔
میں یہ کہتے ہوئے ہنس کر آگے بڑھی کہ باسٹھ برس کی عمر میں بھی سڑک پار کرنا سکھا رہے ہیں۔

میڈیکل اسٹور کے دروازے تک پہنچی تو دیکھا ایک لڑکا چند چھوٹے ڈبے اٹھائے باہر نکل رہا تھا، جب کہ کاؤنٹر پر بیٹھا لڑکا کانوں پر ہیڈ فونز لگائے موبائل میں مگن تھا، میں نے کاؤنٹر والے لڑکے کو نسخے کی پرچی دیتے ہوئے کہا،

بیٹا یہ دونوں دوائیں دے دو، جیسے ہی لڑکا ادویات کے ریکس کی طرف بڑھا، ایک دم بجلی چلی گئی۔

اندھیرے میں اس کی جھنجھلاہٹ بھری آواز سنائی دی، ارے یہ ٹارچ کہاں گئی، یہیں تو چارجنگ پر لگی ہوئی تھی، میں نے پرس سے موبائل نکالا، اور اس کی روشنی اس کو دکھانے لگی، دوسرا لڑکا یہ کہتے ہوئے دکان کے اندر داخل ہوا، کہ اسٹور میں لے گیا تھا، ابھی لاتا ہوں۔

سیلز بوائے موبائل کی ناکافی روشنی میں دوا ڈھونڈنے لگا، دکان میں موجود اسٹور سے دوسرا لڑکا ہاتھ میں مدہم روشنی والی ٹارچ لئے ہوئے باہر آیا، اور اندھیرے میں مجھ سے ٹکرایا، پھر کہا، اوہ سوری آنٹی، میں نے کہا کوئی بات نہیں جلدی سے دوائیں نکال لو، لیکن وہ دکان کے دروازے کی طرف بڑھا اور مجھے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی، میں دروازے کی طرف بڑھی لیکن اس نے واپس آتے ہوئے ایک دم میرا بازو پکڑ لیا، میں چیخی چھوڑو مجھے، لیکن دوسرے لڑکے نے کاؤنٹر پھلانگا، اور میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، مجھے ایک دم چکر آ گیا۔

خوف، غصے اور صدمے سے میں زمین پر ہی گری رہی، تھوڑی دیر کے بعد بجلی آ گئی، کاؤنٹر والے لڑکے نے مجھے میرا دوپٹہ اٹھا کر دیا اور یہ کہتے ہوئے مجھے اٹھانے کی کوشش کی، اٹھو آنٹی اب کیا رات یہیں گزارو گی، دوسرا لڑکا ہنسنے لگا، میں بہ مشکل اٹھی اور دوپٹہ لپیٹ لیا، لڑکے نے دوائیں میری طرف بڑھائیں، میں نے غصے سے لفافہ اس کی طرف واپس پھینک دیا اور تیزی سے دکان سے نکل آئی، باہر مکمل اندھیرا ہو چکا تھا، میرے گھٹنے میں شدید تکلیف ہو رہی تھی، لیکن میں تقریباً بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے سڑک پار کر کے اپنی عمارت میں داخل ہو گئی، عمارت کے احاطے میں رش تھا، بچے کھیل رہے تھے، لوگ باگ آ جا رہے تھے۔

میں بھی لفٹ میں سوار ہو گئی۔

اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچ کر میں ایک دم رک گئی، ثاقب کو بتاؤں یا نہ بتاؤں۔ خوف اور خفت سے میں کپکپا گئی۔

میری سمجھ سے باہر تھا کہ ایسا کیوں ہوا اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔

میں دروازے پر ہی رکی رہی، نہ جانے کتنی دیر گزر گئی، اچانک دروازہ کھلا، ثاقب باہر نکلے، مجھے دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے، تابڑ توڑ سوالات پوچھنے شروع کر دیے، تم باہر کیوں کھڑی ہو، گھنٹی کیوں نہیں بجائی، اتنی دیر کہاں لگا دی۔

میں خود پر قابو پاتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئی اور کہا، دوائیں نہیں ملیں پھر میں نیچے بچوں سے باتیں کرنے لگی۔

ثاقب نے دروازہ بند کر دیا، اور کہا۔
بہت ہی لاپرواہی کرتی ہو، میں پریشان ہو کر تمھاری تلاش میں نکلنے لگا تھا۔
میں چپ چاپ غسل خانے میں گھس گئی۔

بے خیالی میں خود پر پانی بہاتی رہی۔ مجھے ان دونوں لڑکوں پر شدید غصہ آ رہا تھا، خبیثوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں ان کی ماں کی عمر کی عورت ہوں۔

نہ جانے کتنی دیر گزر گئی۔
ثاقب نے دروازے پر دستک دینی شروع کر دی۔
میں چونکی پھر کپڑے پہن کر باہر آ گئی۔

جیسے تیسے کھانا تیار کیا، میز پر رکھا، بہ مشکل چند لقمے کھائے، جب کہ ثاقب ٹی وی پر ٹاک شو دیکھتے ہوئے اور تبصرے کرتے ہوئے کھانا کھاتے رہے۔

میں بنا برتن اٹھائے بستر پر آ گئی، میرے گھنٹے کا درد ناقابل برداشت ہو چکا تھا، مرہم لگاتے ہوئے مجھے رونا آ گیا۔

چپ چاپ لیٹ گئی اور نہ جانے کب سو گئی۔

صبح ثاقب نے مجھے اٹھاتے ہوئے چھوا تو کہنے لگے ارے تم کو بخار ہو رہا ہے، لیٹی رہو میں چائے بناتا ہوں۔

مجھ پر نقاہت و غنودگی طاری تھی۔
ثاقب نے فون کر کے بیٹی کو بلا لیا۔
بیٹی اور نواسوں کی آمد بھی میرا صدمہ و بخار کم نہ کر سکی۔
میں سارا دن لیٹی رہی۔ شام کو بیٹا اور بہو بھی آ گئے۔
گھر میں رونق و ہلچل تھی لیکن میرا دل رو رہا تھا۔
اپنی بے عزتی پر رنجیدہ تھا۔

رات کو جب سب بچے سو گئے تو میں بہ مشکل اٹھی اور لاونج میں گئی۔ جہاں میری بیٹی اور بہو بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں، مجھے دیکھ کر بیٹی نے ٹی وی بند کر دیا اور کہا آئیں امی بیٹھیں کچھ چاہیے۔

میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے بیٹھ گئی۔
بہو نے میری کلائی تھام کر بخار چیک کیا اور بولی، شکر ہے بخار تو اترا، کچھ کھا لیجیے۔
میں نے منع کر دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد میں نے کہا، مجھے تم دونوں کو کچھ بتانا ہے۔
دونوں ہمہ تن گوش ہو گئیں۔
میں نے سسکتے ہوئے سب کچھ بتایا۔

دونوں دم بخود سنتی رہیں، بیٹی نے ان لڑکوں کو بد دعائیں دینا شروع ہو گئی۔
میں نے کہا، بد دعائیں نہیں ہم ریپ کا مقدمہ کریں گے میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے۔
دونوں ایک ساتھ چیخیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے امی، کتنی بدنامی ہو گی۔
میں نے حیرت سے پوچھا، کس کی بدنامی ہو گی؟
ہو بھی تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔

بہو بولی۔ بچوں کو کیا بتائیں گے امی۔ بات چھپے گی نہیں پھیل جائے گی، خاندان والے کیا کیا کہیں گے اور اس عمر میں ریپ، لوگ ہنسیں گے۔
بیٹی بھی بولی۔

امی آپ بچپن میں مجھے سمجھاتی تھیں کہ کوئی راستے میں ہاتھ لگائے تو چپ رہو، بد نامی ہوتی ہے اور اب خود شور مچانے پر تیار ہیں۔

میں چیخ اٹھی، صرف ہاتھ نہیں لگایا، میری بے عزتی کی گئی ہے۔
بہو رسان سے بولی
، دیکھئے امی جو ہونا تھا ہو گیا، کسی کو معلوم نہیں ہو
کسی کو بتائیں گے تو ہماری اپنی بے عزتی ہے۔
میں نے تڑپ کر کہا، ہماری بے عزتی نہیں ہے۔

بیٹی نے میرا تھام کر کہا، ہماری ہی تو بے عزتی ہے، ہماری ہی بدنامی ہے۔ ہماری ہی کم تری ہے۔
یہی تو ہم کو سکھایا گیا، یہی تو ہم کو بتایا گیا۔
ہمیشہ یہی تو باور کرایا گیا کہ ایسا ہونا عورت کی بے عزتی ہے اب کیا سب کچھ بدل گیا؟
میں نے کہا اب حالات بدل چکے ہیں اور
لیکن بہو نے میری بات قطع کرتے ہوئے کہا، کچھ نہیں بدلا ہے امی، کس کس کو بے گناہی کا ثبوت دیں گے۔
اسی وقت بجلی چلی گئی۔
ہم تینوں خاموش بیٹھی پھیلے ہوئے اندھیرے کو دیکھتی رہیں۔

مطربہ شیخ
افسانہ سچے واقعے سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ خاتون آج کل ایک۔ )
سائیکاٹرسٹ کے پاس وزٹ کر رہی ہیں، کاش ہم ملک میں قانون کی بالادستی کے لئے کچھ کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments