کیا سوشل میڈیا پر صاحب اثر کی کوئی حد ہے؟


مشہور کہاوت ’پر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی‘ سوشل میڈیا پر صادق آتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا کے استعمال کی بے قاعدگیوں کو موضوع تحریر بنایا جا رہا ہے۔ لیکن جس طرح سوشل میڈیا کو ذریعہ معاش بنانے والے افراد دیگر لوگوں کی مختلف صورتحال کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال کر کے اپنی فالونگ بڑھاتے ہیں اس کو روکنے کے لئے ابھی تک با ضابطہ لائحہ عمل نہیں بنایا جا سکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کچھ کر بھی لیا جائے تو جس طرح سے ہم دوسرے لوگوں کی غیر معمولی صورتحال سے لطف اٹھاتے ہوئے ایسی وڈیوز کی ترویج کرتے ہیں اس سے ایسا کچھ بھی کرنا انتہائی مشکل ہے۔

راہ کنارے چلتے ہوئے لوگ تصویر بناتے ہوئے اپنے اردگرد سے بے خبر دوسروں لوگوں کو بھی اپنے تصاویر اور وڈیوز میں شامل کر لیتے ہیں۔ اکثر اوقات ان تصاویر کے پس منظر میں کچھ بھی غیر متوقع نظر آ جائے تو وہ انٹرنیٹ کی زینت بن جاتا ہے اور لوگ اس بات کو خاطر میں لائے بغیر کے کل کو ایسی غیر متوقع صورتحال میں کوئی ان کی تصاویر بنا کر میمز انٹرنیٹ پر وائرل کر سکتا ہے اس کا حظ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس کا براہ راست تجربہ مجھے کرونا کے دوران آئن لائن کلاسز میں ہوا۔

طالب علموں کی ایک بڑی تعداد نے اساتذہ کی میمز بنا کر انہیں سوشل میڈیا پر شیر کیا۔ کئی مرتبہ ان میں نازیبا الفاظ بھی شامل ہوتے تھے، چونکہ اساتذہ کو ان تک رسائی طالب علموں کی طرح نہیں تھی اس لئے اس کا علم بہت دیر بعد ہوا۔ تاہم اس سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر ایسا کسی استاد نے طالب علم کے ساتھ کیا ہوتا تو اس کا انجام کیا ہوتا؟

یہ مسئلہ پاکستانی معاشرے کا نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بے قاعدگیاں عالمی سطح پر ہور ہی ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی نے افریقہ میں چائنہ کے ایک وڈیو بلاگر پر کی گئی تحقیق شیر کی جس میں مذکورہ شخص افریقی بچوں کو ایک ڈالر سے بھی کم رقم دے کر ان سے نسلی امتیاز پر مبنی چائینز جملے دہرا کر اپنے بلاگ پر نشر کر کے پیسے کما رہا تھا۔ اسی طرح گارڈین اخبار (یو۔ کے ) نے 41 جولائی کو ایک خبر میں ٹک ٹاک پر ایک آسٹریلیا کے باشندہ کا مقامی ضیف خاتون کو احتراماً پھول پیش کر کے اس کے علم کے بغیر وڈیو بنا کر اپنے اکاؤنٹ سے شیر کرنے کا واقع نشر کیا۔

مذکورہ خاتون کو یہ بات گراں گزری کیونکہ وہ اس بھلائی کے پس پردہ مذموم مقصد سے بے خبر تھی۔ جیسا کہ پاکستان میں فیس بک پر بہت سے لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے بھی تصویر لگا دیتے ہیں۔ ایسے عمل کو آج کل ’پاورٹی پورن‘ (Poverty Porn) کہا جاتا ہے جس میں دوسروں کی ناگفتہ بے حالت کو اپنے مفاد کے لئے تصویر میں قید کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اشفاق احمد کا افسانہ ’آڑھت منڈی‘ غربت کی اس تجارت اور غریب کی تحقیر کی عکاسی کرتا ہے۔

بہت سے لوگ کمنٹ کر کے اپنی رائے کا اظہار کر کے ایسے واقعات سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن لائک کے ذریعے حاصل ہونے والی پذیرائی خطرناک حد تک دوسروں کی زندگی کے احترام سے محروم ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسی وڈیو باعث لطف بن جاتی ہیں۔ ایک محدود وقت تک تنقید کے بعد توجہ کسی نئی وڈیو کی جانب مبذول ہو جاتی ہے اور بالآخر وہ افراد جن کی ذاتی زندگیاں اس سے متاثر ہوئی ان سے پہنچنے والے منفی اثرات کو دیر تک برداشت کرتے رہتے ہیں۔

اس تحریر سے میرا مقصد برطانوی جرنلسٹ سیرین کیل کی طرح یہ سوال اٹھانے نہیں کہ ’ہم سوشل میڈیا کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے اسے ختم کیوں نہیں کر دیتے؟‘ بلکہ یہ تجویز دینا ہے کہ ہمیں رسمی اور غیر رسمی طور پر سوشل میڈیا کے استعمال کے طور اور انداز کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس طرح کی بے قاعدگیوں سے سوشل میڈیا کے مثبت پہلو منفی اثرات کے تلے دب جائیں گے۔ اس سے عام لوگوں تک معلومات، علم اور ادب کی رسائی کے فوائد بھی مشکوک بن جائیں گے۔ اس کے لئے سوشل میڈیا کے ذریعے سے بھی عام لوگوں کو دوسروں کی انفرادی زندگی کے احترام کی آگاہی دی جا سکتی ہے خصوصاً اس بات کی کہ سوشل میڈیا کے ذاتی استعمال دوسروں کی ذاتی زندگی میں مخل نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments