آدھا انسان


مجھے انتساب پڑھے بغیر ؛کتاب شروع نہ کرنے کی عجیب سی عادت ہے۔ لیکن انتساب تک پہنچنے سے پہلے ہی رشی خان کی کتاب کا پرکشش سر ورق اور سر ورق کی تحریر نظر کو جکڑ لیتی ہے۔

” کوئی بھی عورت اپنی ذات میں صرف عورت ہے اور مرد محض مرد
جب دونوں ایک یا ایک میں ہو جاتے ہیں تو انسان مکمل ہوتا ہے ”

واہ! دل سے نکلا، انسانیت کے بارے میں کسی لیکھک کا فارمولا دلچسپ لگا۔

اور پھر ایک انتباہ جیسے کہ کسی راستے پہ چلتے چلتے لکھا آتا ہے کہ ’خبردار آگے خطرناک موڑ ہے اپنی گاڑی کی رفتار کم کر لیں‘

یا کسی فلم۔ کا ڈسکلیمر کہ ’یہ فلم کمزور دل افراد نہ دیکھیں‘

اسی طرح کا ایک بورڈ کتاب کے پہلے صفحے پر چسپاں ہے کہ ”یہ افسانے اور کہانیاں نابالغ اور تنگ نظر قارئین کے لئے نہیں ہیں، کمزور ایمان خواتین و حضرات کو بھی ان سے دور ہی رہنا چاہیے. جو لوگ خواتین کو برابری کے حقوق دینا گناہ سمجھتے ہیں وہ بھی اس کتاب کو پڑھنے سے گریز کریں ”

لو جی لیکھک تو اپنی سی ہر سعی کر گزرتے ہیں کہ ان کی تحریر زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچے لیکن جناب رشی صاحب نے تو صاف صاف منع کر دیا کہ یہ کتاب سب کے لئے نہیں ہے۔

اتنی جرات کہ یہ بھی کہ گزرے کہ جو لوگ خواتین کے برابری کے حقوق دینا گناہ سمجھتے ہیں وہ بھی کتاب پڑھنے سے پرہیز کریں، رشی نے باقاعدہ لفظ ”پرہیز“ استعمال کیا ہے مطلب بالکل دور رہنا ہے ہاتھ بھی نہیں لگانا۔

پھر آتے ہیں انتساب کی طرف تو وہ بھی بالکل غیر روایتی!

نہ والد نہ والدہ نہ بچے نہ بیوی کتاب ان کے نام ہے جو کہ عام طور پر لوگوں کے نشانے پہ رہتے ہیں۔
”ان تمام عورتوں اور مردوں کے نام جنہوں نے کسی بھی زمانے میں، زندگی کے کسی بھی دور میں کسی بھی شکل میں خواتین کے لیے مساوی حقوق کے حصول کی کوشش کی ہے”

اب اندازہ۔ لگانا بالکل مشکل نہیں کہ کتاب کا موضوع کیا ہو گا!

سانجھ پبلیکیشنز کی تو پہلے ہی ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی دو کتابیں فیمینسٹ حلقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں یہ ایک اور ہلچل مچانے والی کتاب پیش خدمت ہے۔

رشی خان کی کتاب ”آدھا انسان ’میں 17 افسانے ہیں اور ان کے کردار روایتی افسانوی کرداروں سے ہٹ کر ہیں۔

روتی، پیٹتی، بین کرتی، دکھوں کی ماری۔ شکوے شکایات کرتی۔ اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوششیں کرتی، حالات کی چکی کے دو پاٹوں میں پستی خاک ہوتی ہوئی عورت نظر نہیں آتی۔ نہ ہی خوابوں کی دنیا میں رہنے والی رومانس کے جھولے جھولتی عورت نظر آتی ہے۔

رشی کے افسانوں کی عورت، سچ کہوں تو ہم۔ ایکٹیوسٹ، فیمینسٹ عورتوں کے خوابوں کی تعبیر جیسی ہے۔
حالات کا رخ موڑنے والی۔
سینہ سپر ہونے والی
اپنے ساتھ ہونے والے استحصالی سلوک کا انکار کر کہ اس کا منہ توڑ جواب دینے والی۔
رشی خان کا اپنا اسلوب ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ان کا یہ سیدھا سادہ سا انداز دل کو چھو لیتا ہے۔
وہ قاری کو منظر نگاری میں بھی نہیں الجھاتا اور نہ کوئی گاڑھی عملی ادبی زبان استعمال کرتا ہے۔
انداز بیانیہ ہے۔ کم الفاظ میں، بنا کسی لاگ لپیٹ کہ، اپنا مافی الضمیر بیان کر دیتا ہے۔

پہلا افسانہ ”سہاگ رات کی سفید چادر کی حقیقت“ کی حلیمہ کو شادی کے پہلے ہی دن سسرال میں جس صورتحال کا سامنا ہو ان حالات میں لڑکیوں کا تو جنازہ ہی اٹھتا ہے۔ اس طرح کا الزام لڑکیوں اور والدین کو زندہ درگور کرتے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

لیکن حلیمہ نے شوہر کی جانب سے کنواری نہ۔ ہونے کہ الزام کو پولیس اور ڈاکٹرز کو بلا کہ غلط ثابت کیا اور میڈیکل رپورٹ بھی میڈیا کو دکھائی جس میں شوہر ولید کی مردانہ کمزوری کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ کہانی کا انجام طلاق کا مطالبہ تھا وہ بھی حلیمہ کی طرف سے۔

”ابو صالح اور جوزفین“ میں جنسی زیادتی کے سماجی المیے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک میں فرق دکھایا گیا ہے۔

ابو صالح پاکستانی نوجوان ہے جو کہ پیرس کی ایک کمپنی میں کام کرتا ہے وہ جوزفین کو دیکھتا ہے جو کہ اکیلی رات کو سفر کرتی ہے سامان کا ٹرک گودام میں پہنچاتی ہے اور راستے میں اس کو کسی کا ڈر نہیں وہ محفوظ ہے۔ ابو صالح ایک بہت ہی دیندار لڑکا ہے لیکن جوزفین کو اکیلی دیکھ بری نیت رکھتا ہے۔ تاہم جوزفین اپنے اعتماد اور بہادری سے سامان چھوڑ کہ چلی جاتی ہے اور دوسری جانب ابو صالح کی بہن، پاکستان میں چودھری کے غنڈوں کے ہاتھوں اغوا ہو کہ جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہے۔

” عورت کو غلطی کے حقوق“ کہانی تو جیسے پدرسری معاشرے کے روایتی مردوں کہ منہ پہ زوردار طمانچہ ہے، جو اپنی بیویوں کو دھوکہ دے کہ دیدہ دانستہ، دوسری عورتوں سے جسمانی تعلق کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نورین نے کمال حکمت سے عابد کو اپنی غلطی کا احساس دلایا اور اس سے طلاق لے لی۔

’مردوں کا پردہ بکارت‘ میں روشنی خاندان کے مردوں کو آئینہ دکھاتی ہے کہ ”جب تم۔ لوگوں کا اپنا پردہ بکارت پھٹ چکا ہوتا ہے تو تم اپنی آنے والی بیوی سے کیوں مطالبہ کرتے ہو کہ وہ پردہ بکارت سمیت آئے، اس پر ذرا برابر خراش بھی نہ پڑی ہو اور اگر کھیل کود وغیرہ میں یا ایسی ہی کسی سرگرمی سے وہ اپنی جگہ قائم نہ رہ سکا تو تم اس کے کردار پر ہی انگلی اٹھا دیتے ہو، اسے اپنانے سے بھی انکار کر دیتے ہو!“

”کہاں گئی مردانگی“ ان۔ مردوں کے بارے میں ہے جو کہ مذہب کے پردے کے پیچھے چھپ کہ عورت کا استحصال۔ کرتے ہیں۔ چار شادیوں کو اپنا حق سمجھنے اور منوانے والے ایک بیوی کے حقوق بھی ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

”ایک بے بس بیوی کا بستر“

میں کئی مسائل اجاگر کیے گئے ہیں۔ رشیدہ کس جبر اور تشدد بھری زندگی کو کامیاب زندگی میں تبدیل کرتی ہے۔ اس افسانے میں عورت کی جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی خواہشات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

”بیوی کی بیوفائی مگر کیوں؟“

میں ریشم شوہر کی بیوفائی اور دھوکہ دینے دوسری آفس کی۔ لڑکی سے جسمانی تعلق رکھنے کا بدلہ خود بھی کسی اور سے وقتی جسمانی تعلق قائم کر کہ لیتی ہے۔

رشی خان کے موضوع اور کہانیاں ہمارے معاشرے کے لئے نئی نہیں ہیں
نیا ان کا انجام ہے۔
عورت کے اندر کے شوریدہ سر غصے اور بغاوت کو رشی خان نے کہانیوں میں ڈھال لیا ہے
ہر افسانہ رونے پہ ختم ہو ضروری تو نہیں
طاقت کا تصور اور کامیابی کا سہرا سدا مرد کے سر پہ سجے ضروری تو نہیں!
زندگی کو اپنی مرضی کا موڑ دینا آج کی عورت کے ہاتھ میں ہے
حالات بدل بھی سکتے ہیں!
دکھ خوشی میں ڈھل بھی سکتے ہیں!
تو ایک قدم۔ زمین پہ جما تو سہی!
رشی خان یہ ہی کہنا چاہ رہے ہیں

اور سانجھ پبلیکیشنز کا شکریہ ادا نہ کرنا بھی مناسب نہیں جو ایسی انقلابی کتب کی اشاعت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments