گرمیوں کی چھٹیاں اور جنت کی تلاش


اس وقت بلوچستان کے گرم اضلاع میں طویل المدتی چھٹیاں جاری ہیں اور سرد اضلاع میں قلیل المدتی گرمیوں کی چھٹیاں اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔ دیگر شعبوں کی بہ نسبت شعبہ تعلیم سے وابستہ سرکاری ملازمین چھٹیوں کی آمد کے لیے نہ صرف بے تاب ہوتے ہیں بلکہ چھٹیاں گزارنے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بھی سوچتے رہتے ہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کرام، طلبہ اور طالبات پڑھائی کے گھٹن زدہ ماحول سے جی چرا کر چند دنوں کے لیے آزاد رہنا پسند کرتے ہیں تا کہ وہ اس مقید ماحول، سماجی گھٹن اور ذہنی تذبذب سے نجات حاصل کر کے ہجرت کرنے والے پرندوں کی طرح دوبارہ تازہ دم اپنے اداروں کو لوٹ سکے۔

تاہم گرمیوں کی چھٹیوں کو یادگار بنانے کے لیے صاحب ثروت لوگ ملک کی جنت نظیر وادیوں، تاریخی مراکز، سیاحتی مقامات اور شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، جب کہ کم آمدنی والے سرکاری ملازمین ہنہ اوڑک، زیارت اور بولان کی سیر و تفریح پر قناعت کرلیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راقم الحروف کا شمار نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں، تاہم ادبی ذوق اور بلند پرواز تخیل کی بدولت مذکورہ بالا دونوں طبقوں کو ایک روپیہ خرچ کیے بغیر مات دے چکا ہوں۔

گرمیوں کی تعطیلات کے شروع ہونے سے پہلے راقم الحروف کو رحیم گل کا لکھا ہوا ایک ناول ”جنت کی تلاش“ پڑھنے کو ملا اور مکمل ناول پڑھنے کے بعد خود کو اس طرح ہشاش بشاش اور ہلکا پھلکا محسوس کیا جیسا کہ میں خود شمالی علاقہ جات، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سیاحتی مقامات کے دل فریب نظاروں سے لطف اندوز اور فطرت کی رعنائیوں سے ہم کلام ہو کر واپس گھر لوٹ آیا ہوں۔ دراصل یہ رحیم گل کا کمال ہے کہ وہ قاری کو انگلی سے پکڑ کر قریہ قریہ اور نگر نگر کی سیر کرائے بغیر چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ہے۔

اس ناول کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے مصنف نے اپنی قیمتی زندگی کے چھ سال وقف کرنے کے بعد اسے اپنی زندگی کا حاصل ٹھہرایا ہے۔ ”جنت کی تلاش“ سفرنامے کے طرز پر لکھا گیا ایک دل چسپ تاریخی اور رومانوی ناول ہے۔ ناول کا پس منظر مقامیت سے ماخوذ ہے اور اس کا موضوع دور جدید کا متذبذب اور نفسانفسی کا شکار مشینی انسان ہے جو اس پر آشوب بے چینی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سکون، چین اور راحت یا بالفاظ دیگر جنت کی تلاش میں نکلتا ہے۔

اس ناول میں مصنف نے محاکات نگاری کا فن عروج پر پہنچایا ہے۔ مصنف نے ناول میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حسین سیاحتی مقامات، فلک شگاف پہاڑی سلسلوں، برف میں لپٹی چوٹیوں، فراز سے نشیب کی طرف سرکتی دریاؤں، دریائے سرن کی مسحورکن فضاوٴں، کنہار کی جولانیوں، بولان کی شان و شوکت، مانسہرہ کی اپنائیت، کے ٹو کی خاموشیوں، نانگا پربت کی صحرا دوستی، سوات کی ست رنگیوں، ایبٹ آباد، گلگت اور سکردو کی ناگن راہوں، جھیل سیف الملوک کی رعنائیوں، ناران اور کاغان کے سر سبز چلمنوں، دیوسائی کی تنہائیوں، ہنہ اوڑک کے ادبی ماحول اور زیارت کے حسین صنوبری جنگلات کا اس ادبی انداز سے ذکر کیا ہے کہ قاری کو ان مقامات پر خود جانے کے بجائے صرف ناول پڑھنے سے زیادہ لطف اندوزی حاصل ہوتی ہے۔

ناول ایک طویل سفری احوال پر مشتمل ہے۔ یہ رومانوی سفر مانسہرہ کے ڈاک بنگلے سے شروع ہوتا ہے۔ ناول کے مرکزی کرداروں، وسیم صاحب (ہیرو) ، امتل ( ہیروئن) اور عاطف ( امتل کا بھائی) کا تعلق امیر کبیر گھرانوں سے ہے جو والدین کی طرف سے وراثت میں ملنے والی کثیر رقم سے سیاحت کے لیے عازمین سفر ہوتے ہیں۔ سفر کے دوران میں مختلف غیر ملکی، اٹالین اور یورپی سیاحوں کی زبان سے نہ صرف وطن عزیز کی خوب صورتی پر مہر ثبت کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ مغرب کی حد سے زیادہ مادیت پرستی اور اہل مشرق کی روحانیت پرستی کا تقابلی جائزہ بھی پیش کرتا ہے۔

ناول میں اس طویل سفر کے دوران میں علاقائی لوگوں کا مزاج، اوگی کا تھانیدار، بلوچستان کا سہراب خان، سوات کا وزیر خان اور اس کی سیدھی سادی بیوی، سکردو کا ڈاکٹر اور اس کا سیاہ فام محبوبہ سلطانہ، ناران کی مائی حوا، اہل علاقہ کی بودوباش و مہمان نوازی، قبائلی رسومات، پشتون روایات و خودداری، خالص دیہاتی اور تصنع سے پاک طرز زندگی پر بھی تہذیبی انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مرکزی اور ثانوی کرداروں کے مابین مختلف موضوعات مثلاً سائنس، مذہب، ادب، شاعری، فلسفہ، معیشت، سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت، موت، زندگی، خیر و شر، خوشی و غم، احساس و طبقاتی تقسیم، سماجی اقدار اور تہذیبی بوقلمونی پر فلسفیانہ مکالمہ نگاری سے ناول رفتہ رفتہ اختتام کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ ناول میں مصنف رحیم گل، ناول کے مرکزی کردار وسیم صاحب میں مجسم ہو کر اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ اس سارے سفر میں وسیم صاحب نے امتل جیسی البیلی، نازک اندام، غیر معمولی ذہین، بے قرار آنکھوں والی ہرنی، ملائم گلاب کی پنکھڑی، سیاہ زلفوں والی ناگن، سماجی اقدار سے باغی اور سمیع کی بے وفائی سے گہری چوٹ کھانے والی خوب صورت لڑکی کے دل کو جیتنے کے لیے آخری حد تک امید اور کوشش ناتمام جاری رکھتا ہے۔

بالآخر وسیم صاحب اور امتل کو ایک دوسرے سے پیار ہوتا ہے۔ نلتر کے ریسٹ ہاؤس کے غریب چوکیدار کی بیوی کی دایہ گری کرنے اور نئے انسان کی پیدائش کے بعد امتل کے اندر کی عورت اور جذبہ امومیت جاگ جاتی ہے۔ زندگی کے بارے میں امتل کا نقطہ نظر یکسر تبدیل ہوتا ہے اور ماں بننے کی خواہش کرتی ہے۔ دونوں جنت کی تلاش میں کامیاب ہو کر غار سے ہجوم کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ناول ”جنت کی تلاش“ میں نہ صرف ناول کی سی حقیقت نگاری، فلسفیانہ چاشنی اور سفرنامے کی سی منظر نگاری بدرجہ اتم موجود ہیں بلکہ فنی اور تکنیکی لحاظ سے بھی ناول کی دنیا میں اعلی مقام رکھتا ہے۔

جو سرکاری ملازمین محدود آمدنی کی وجہ سے سیر و سیاحت کی نعمت سے محروم ہو گئے ہیں، ان کے لیے راقم الحروف کا پیغام ہے کہ وہ رحیم گل کا ناول ”جنت کی تلاش“ پڑھ لیں۔ پاکستان کے سیاحتی مقامات کی خیالی سیر بھی ہوگی، رومانویت بھی جوان ہوگی اور ادبی ذوق بھی سر چڑھ کر بولے گا۔ ہم سرکاری ملازمین خصوصاً اساتذہ کرام اگرچہ معاشی لحاظ سے کسی حد تک کمزور ہیں مگر پڑھنے اور پڑھانے میں کوئی طبقہ ہمارا ہم سر نہیں ہو سکتا ۔ سو ناول پڑھیں اور کم خرچ بالا نشین ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments