قاضی شریح سے آج تک کوفہ کا انصاف


رہتے تھے دشت عشق میں کوفہ مزاج لوگ
اور دشت کا بھی کرب و بلا سا مزاج تھا

اکثر سوچتی ہوں کہ ایسا بھی کیا مشکل تھا، اگر سارے کوفی مل کے نبی زادے کی حمایت میں گھروں سے نکل آتے مرد و زن۔ کمسن و شیرخوار۔ جوان و بزرگوار۔ غریب و مال دار یکجا ہو کے ڈٹ جاتے کہ پہلے ہم پھر امام! زیادہ سے زیادہ حاکم قتل عام کا ہی حکم دیتا۔ جان دیتے اور تاریخ میں امر ہوتے، زمانہ درود و سلام بھیجتا، نام کے ساتھ رضی اللہ لگتا، شہادت کا رتبہ ملتا یعنی دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے۔ یہ کیا کہ ذرا سی جان کی خاطر، جو آج نہیں تو کل اللہ کو ہی دینی ہے، دعوؤں سے مکر گئے، دین کی سر بلندی سے بے پرواہ ہوئے اور نصرت حسین ابن علی سے دست برادر ہو گئے؟

نہیں۔ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے، ہم ان جیسے نہیں ہیں، ہم ہوتے تو جان و مال، اہل و عیال سب اس عظیم مقصد کے لئے ایسی بے خوف مسکراہٹ سے پیش کرتے جیسے اسماعیل علیہ السلام ذبح ہونے کو لیٹ گئے تھے۔ ہم ان بزدلوں جیسے ہیں ہی نہیں۔

اور کیا خبر ہماری جرات سرفروشانہ حالات کا نقشہ ہی بدل دیتی؟ سوچیئے تو یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟ یعنی اسلام کا بول بالا ہوتا، نظام سے خرابی دور ہوتی، حسین ابن علی سا حکمران ہوتا، سب کا بھلا، سب کی خیر ہوتی اور تو اور مورخ ہماری قربانی کی داستان لکھتے ہوئے کن سنہری حروف میں ہمارے قصیدے لکھتا۔ واہ۔ واہ۔ خیال کر کے ہی سرور آ جاتا ہے۔ مگر میرے سوچنے سے کیا ہوتا ہے؟ وقت گزر چکا، تاریخ رقم ہو چکی اور کوفی پیٹھ دکھانے والوں، وقت مشکل چھوڑ جانے والوں اور ریاستی جبر کے سامنے چپ سادھ لینے والوں کا استعارہ بن گئے۔

تاریخ پوچھے گی کہ جب مہمان ویرانے میں تھے
کوفے کے سب مرد کس گھر کے نہاں خانے میں تھے

پھر خیال آتا ہے کہ قتل حسین کو جائز قرار دینے کے لئے تو باقاعدہ فتویٰ لیا گیا تھا۔ پہلی بار تو یہ سن کے اچنبھے سے سکتہ سا ہو گیا، دل و دماغ نے قبول ہی نہ کیا کہ کوئی ایسا فقیہ بھی ہو سکتا ہے جو آنحضرت صلعم کے دور حیات میں اور اپنی نوجوانی میں مسلمان ہو گو سرکار دو عالم سے شرف ملاقات نہ پا سکے تاہم تمام خلفاء راشدین اور برگزیدہ صحابہ کرام کی قربت و صحبت حاصل رہی ہو۔ ناصرف یہ بلکہ اس کی علمیت، عبور شریعت اور کمال ذہانت اہل اسلام میں اتنی منزلت حاصل کر لے کہ خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ اسے کوفہ کا قاضی تعینات کر دیں۔

یہ شخص عالم۔ مفسر قرآن تو تھا ہی لیکن بحیثیت ایک قاضی یعنی جج کے دنیائے اسلام میں معتبر ترین نام بن گیا تھا ”قاضی شریح ابن حارث الکندی“ جس کا نام عدل کی ضمانت تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ، حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ادوار میں بھی اس عہدے پر فائز رہا، حضرت امام حسن کے مختصر دور خلافت اور پھر بیس سال دور امیر معاویہ میں بھی قاضی شریح کوفہ کا قاضی القضاہ یعنی چیف جسٹس تھا۔

یہ وہی قاضی ہے جس کی منصفانہ دلیری کے قصے آج بھی سنائے جاتے ہیں، خلافت علی کا دور ہے، خلیفہ خود مقدمہ لے کر آیا ہے کہ میری زرہ چوری ہو گئی ہے اور اس یہودی شخص کے پاس ہے۔

قاضی علی سے اپنے حق میں گواہ پیش کرنے کا کہتا ہے، علی دو گواہ پیش کرتے ہیں۔ قاضی نہایت بے باکی سے دونوں کی گواہی یہ کہہ کے رد کر دیتا ہے کہ ان میں ایک آپ کا بیٹا اور دوسرا آپ کا غلام ہے۔ یہ گواہی نہیں ماننی جا سکتی لہذا ثبوت اور گواہ نہ ہونے کے سبب فیصلہ آپ کے خلاف اور یہودی کے حق میں ہے۔

یہ تھا چیف جسٹس قاضی شریح!

اور یہی وہ عالم دین، ماہر فقہہ و شریعت اور انصاف کا رکھوالا ہے جس نے ابن زیاد کو قتل حسین کی راہ ہموار کر کے دی اور حسین کو خارجی قرار دیا تاکہ اس ظلم پر ابن زیاد اور یزید کی فیس سیونگ ہو سکے۔

سوچتی ہوں کہ وہ شخص جس کی ذہانت۔ عدل اور بے خوف منصفی کے چرچے تھے، جس نے 48 اڑتالیس سال بظاہر بے داغ اپنا فرض انجام دیا۔ اسے لگ بھگ ستر پچھتر سال کی عمر میں کیا سوجھی کہ حق و باطل، ظلم و عدل، جبر و جمہور کے معرکے میں ظالم و جابر کا طرفدار ہوا اور منصف کے قلم کی سیاہی منہ پے مل لی؟

جس کی حق پرستی کا شہرہ تھا وہ اب ”شریح کاذب“ کے نام سے مشہور ہے۔ جو حساب روز محشر ہو گا سو ہو گا لیکن جیتے جی بھی گوشۂ نشین ہونا پڑا اور آنے والے زمانوں میں بھی رسوائی مقدر ہوئی۔ ہزاروں سال کی تاریخ انسانی سے ایک بات تو بالتحقیق ثابت ہے کہ وقت سے بڑا منصف کوئی نہیں! سیاہ کو سفید کرنے کے لئے لاکھ توجیہات تراش لی جائیں، سیاسی جوڑ توڑ، قانون کی نئی تشریحات اور ایوان عدل کو سازش کا گڑھ بنا کے وقتی کامیابی ضرور حاصل کی جا سکتی ہے مگر ظلم کو بے نقاب ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔

وقت کی کتاب میں عوام اور ان سے مخلص قائدین کے لہو سے لکھے جانے والے پنے ہزار کوشش پر بھی تلف نہیں ہوتے بلکہ جتنا زور آزمایا جائے، اس سے زیادہ شدت سے سچائی عیاں ہوتی ہے۔

سوچتی ہوں کہ جب صدیوں پرانے ظلم کی روداد اساطیر اور صحیفوں میں محفوظ رہ گئیں۔ تو ہمارے زمانے کی بھی تو کہیں نہ کہیں لکھی جا رہی ہوں گی؟ اس دور میں بھی کچھ خود سر آج بھی سر جھکائے تندہی سے حقائق و حالات رقم کر رہے ہوں گے؟

تو کیا لگتا ہے، تاریخ ہمیں کن لفظوں میں یاد رکھے گی؟ بحیثیت کوفی؟
جو علی کے قتل پر خاموش رہے۔ جیسے ہم نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل پر؟
خلافت حسن ابن علی کے چھ ماہ میں خاتمے اور انہیں صلح پے مجبور دیکھ کر بھی آنا کانی کرتے رہے۔
جیسے ہم پاکستان کی پہلی آمریت پر گھروں میں دبکے رہے؟

ہم بھی ایوب اور فاطمہ جناح کے انتخابی نتائج میں دھاندلی پے ایسے ہی راضی ہو گئے جیسے اصحاب حسن راضی تھے؟

جاتے جاتے ایوب خان نے آمریت کا تسلسل بحال رکھتے ہوئے ایک اور عسکری آمر ہم پے مسلط کیا جس کی بدکرداری و بد عنوانی نے ہمیں جنرل رانی کا غلام بنایا اور ملک دو لخت کیا مگر کیا ہم اپنے ہی ہم وطنوں پر ڈھائے جانے والے ریاستی قہر کو چپ چاپ تکتے نہیں رہے؟

جیسے یزید کی جانشینی پر ہوا تھا۔

لاکھوں جمہوریت پسند بنگال میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور ملک ٹکڑے کرنے والے غدار بھی وہی قرار پائے مگر ہم اپنی کوفی سرشت سے باز نہ آئے۔

ہم بھی بند حجروں میں لعنت ملامت کرتے ہوئے کسی قیادت کے متلاشی تھے یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو اس کڑی آزمائش میں میر کارواں بن کے سامنے آئی عین کوفی طرز پے جیسے اہل کوفہ نے حسین ابن علی کو یقین دلایا تھا کہ ہمیں اس غاصب ٹولے سے نجات دلائیں۔ آپ آواز اٹھائیں ہم آپ کی سالاری میں ملوکیت کا خاتمہ کر دیں گے۔ ہم نے بھی بھٹو کو سر آنکھوں پے بٹھایا، اس کے منشور اور نظریے کو راۂ نجات کہا۔

مگر پھر کیا ہوا؟ جیسے کوفیوں نے امام کو ذبح ہوتے دیکھا، ہم نے بھٹو کو پھانسی پے جھولتے دیکھا۔

چیف جسٹس آف کوفہ قاضی شریح نے اپنے منصب اور حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قتل حسین کا فتوی دیا، ہمارے مولوی مشتاق نے بھی شریح بن حارث کی خاک پاء کو آنکھوں سے لگا کے سر میں ڈالنے میں عار نہ کی۔

ہماری کوفی مزاجی نے ہمیں بارہا جنگ، آمریت، امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب تر کی چکی میں پسوایا۔ بزور تلوار بزعم خود مقدس، عوام سے افضل و برتر مراعات یافتہ پیشہ ور جنگجو قبیلے نے ہم پے، ہماری گاڑھی محنت کی کمائی اور ریاستی وسائل پر مکمل قبضہ کر لیا لیکن ہماری قومی حمیت جاگی نہ ہم!

تو اس سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ہم مسلک کوفی کے پیروکار اور سنت شریح کاذب پے کاربند ایک جتھا ہیں۔ جو سب جانتا پہچانتا ہے مگر بولتا نہیں ہے۔ کسی کمزور کو طاقتور سے پٹتے دیکھتا ہے مگر ہاتھ نہیں روکتا۔ ظلم کا واویلا ضرور کرتا ہے لیکن دل میں ظالم کو آقا بھی مان چکا ہے۔ ماؤں۔ بہنوں۔ یتیموں۔ بیواؤں کو میتیں سجائے انصاف کا منتظر دیکھ کر نظر بچا کے گزر جاتا ہے۔ جب تک اپنے دستر خوان پر اعلی پر تکلف من و سلوی ہے، سوچتا تک نہیں کہ کتنے ہیں جن کی نیند بھی فاقے کھا گئے؟ جب تک خود موتی و مروارید کے کشتے و معجون میسر ہیں، اسپتال میں فرش پر پڑے قریب المرگ مریض کی دوا کا فنڈ کھانے والے کا محاسبہ نہیں کرتا۔

اس دور کے چند لوگ تو بہر کیف آج کے انسان سے بہتر ہی تھے کہ یزیدی فوج کے جاتے ہی آس پاس کے رہائشیوں نے یہ جانتے ہوئے کہ حاکم کے عتاب کا خطرہ ہے، آ کے بے گناہوں کو کفن پوش کیا، نماز ادا کر کے تدفین انجام دی، وہ بھی بنا دام۔ بنا غرض!

ہم ہوتے تو سانحۂ ساہیوال کی طرح دور دور سے دیکھتے اور فون کیمرا کو زوم کر کے سوشل میڈیا پر لائکس کے لئے ویڈیو بناتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔

مانا زمین کربلا پر دسترس ممکن نہیں
لیکن سرکوفہ یزیدو کی عمل داری تو ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments