اٹھارہویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم


سال 2010 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں آئین کے کل 280 آرٹیکلز میں سے 102 آرٹیکلز میں ترمیم کی گئی جس کے نتیجے میں وفاق میں 17 وزارتیں / ڈویژن ختم کر دیے گئے۔ اور صوبوں کو منتقل ہو گئے۔ وفاقی وزارت تعلیم بھی ختم کر دی گئی۔ اس لیے اصولی طور پر صوبوں کے پاس ان کا تعلیمی سیٹ اپ، محکمے، نصاب کی ترقی، اعلیٰ اور سکول کی تعلیم کا انتقال مکمل ہونا چاہیے تھا۔ اس آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی صوبوں کی ذمہ داری ہونی چاہیے تھی۔

لیکن 12 سال گزرنے کے بعد بھی اعلیٰ تعلیم کا معمہ حل نہ ہوسکا۔ خصوصاً جامعات کے مالی اور انتظامی معاملات گمبھیر سے گمبھیر ہوتے گئے۔ 12 سال گزرنے کے بعد بھی صوبائی جامعات کا مالی اور انتظامی ذمہ داری کا مسئلہ مسلسل تذبذب کا شکار ہے۔ مثال کے طور جامعات کے مالی مشکلات خیبر پختونخوا حکومت بہتر انداز میں محسوس کرتی ہے۔ لیکن 12 سال گزرنے کے باوجود ان کے پاس ایسی کوئی لائحہ عمل نہیں ہے کہ یہ صوبے کے جامعات کے لئے صوبائی حکومت کے بجٹ سے فنڈز مختص کرے۔

اسکے مقابلے میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ نے اٹھارہویں ترمیم کے روشنی میں اقدامات کیے ہیں

صوبہ سندھ نے آئین پر عمل درآمد کرتے ہوئے 2013 میں صوبائی ہائر ایجوکیشن قائم کیا اور پنجاب میں 2015 میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی وجہ سے ان دو صوبوں میں جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے لئے صوبائی فنڈز بھی فراہم ہونا شروع ہوئے۔ لیکن صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں صوبائی ہائر ایجوکیشنز کا قیام عمل میں نہ آیا۔ صوبہ سندھ نے اس مالی سال میں جامعات کے لئے ساڑھے 14 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کیا۔

اسی طرح پنجاب نے بھی اپنے بجٹ میں جامعات کا حصہ رکھا ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں صوبائی ہائر ایجوکیشن نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک اندازے کے مطابق 2 ارب تک صوبائی گرانٹ جامعات کے ریکرنٹ بجٹ کے لئے سالانہ انداز میں جاری ہوتا ہے۔ لیکن خیبر پختونخوا حکومت نے جامعات کے مالی مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل اور فنڈز کا قیام عمل میں نہیں لایا۔ اب حالات ایسے ہیں کہ صوبے کے سب سے پرانے جامعات کے پاس تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے پیسے نہیں ہیں۔

تحقیق کے لئے جامعات کے پاس ایک روپیہ نہیں۔ لیکن حیران کن طور پر پھر بھی دوسری طرف 40 ارب روپے تک فنڈز سوات اور ڈی آئی خان میں نئے جامعات بنانے کے لئے جاری ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان نئے جامعات کو ٹیکنیکل بنیادوں کے بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے بنانے کے منصوبے بنائے گئے۔ ان جامعات کے بنانے سے پہلے ایسی کوئی فزیبلٹی سٹڈیز نہیں ہوئے کہ پتہ لگا سکیں کہ خیبرپختونخوا صوبے میں موجود 30 جامعات میں طلباء کے لئے مختص سیٹیں پوری ہوتی ہیں کہ نہیں؟

ایسے منصوبے بنانے والوں نے ایسا نہیں سوچا کہ جامعات صرف ڈگری دینے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ معیار کے تعلیم یافتہ نوجوان نسل تیار کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر ڈگری دینا مقصد ہے تو اس کے لئے ہر ضلعے میں ڈگری کالجز تو پہلے سے موجود ہیں۔ اس لیے زیادہ جامعات کی بجائے چند اعلیٰ معیار کے جامعات ہونی چاہیے جن کو اعلیٰ معیار کے ادارے بنا کر اعلیٰ معیار تعلیم اور تحقیق کے لئے مختص کیا جائے۔ ان کو صوبے کے اقتصادیات، ترقی، تعمیر اور دیگر شعبوں میں سرکاری طور پر شریک کیا جائے۔

دنیا بھر کے سٹینڈرڈز کے مطابق جامعات پر لگایا گیا پیسہ خرچہ نہ سمجھا جائے بلکہ سرمایہ کاری سمجھا جائے۔ لیکن نہیں اعلیٰ تعلیم کے صوبائی ناظمین اعلیٰ کی طرف سے جامعات کو کہا جاتا ہے کہ اپنے خرچے خود پورے کرنے کے لئے اقدامات کرو۔ اساتذہ کرام کے مراعات کم کرو۔ اور زور دیا جاتا ہے کہ جامعات کو منافع بخش ادارے بنا یا جائے۔ تعلیم و تحقیق کے بجائے مالی طور پر منافع بخش ہونے پر جامعات کو انعامات دیے جاتے ہیں۔

لیکن جامعات کے پروڈکٹس کوئی گھی کے ڈبے یا سیمنٹ کے بوریاں نہیں ہوتے بلکہ ہونہار اور ہنرمند گریجویٹ ہوتے ہیں جو کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان اور بیرونی ملک میں خدمات دے کر ملک کے زرمبادلہ میں حصہ لیتے ہیں۔ امریکن ایسوسی ایشنز آف یونیورسٹیز نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ کیونکہ جامعات کے تحقیق پر لگا پیسا مستقبل کی سرمایہ کاری اس لیے حکومت 60 فی صد سے زیادہ خرچہ خود اٹھائی گی۔ لیکن ہمارے ہاں تو جامعات کو نجکاری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔

امریکن جامعات کے برعکس خیبر پختونخوا کے جامعات کے پاس طلباء کے فیسوں کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ موجودہ دور میں فیسوں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام باد کی طرف فراہم کردہ فنڈز کسی پرانی جامعہ کے تنخواہوں کو بمشکل پورا کرتی ہیں۔ باقی بنیادی خرچے پورے کرنے کے لئے جامعات کے پاس کوئی طریقہ نہیں۔ خصوصاً پرانی جامعات میں ایسے مسائل زیادہ ہیں کیونکہ ان کے تنخواہوں اور پنشن ادائیگیاں تقریباً برابر ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن بار ہا جائز طور پر کہتی ہے کہ نان ٹیچنگ اسٹاف کو کم کیا جائے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ مختلف ادوار میں ان ملازمین کو مستقل طور پر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے۔ ان کو نکالا نہیں جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اتنا کیا جاسکتا ہے کہ نئے جامعات کے لئے پرانے جامعات کے اضافی سٹاف کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ جامعات کے اساتذہ ایسوسی ایشنز کی طرف سے ایسے تجاویز ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام کو بار ہا دیے جا چکے ہیں۔ لیکن حکام بالا ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ نئے جامعات بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ان میں بے تحاشا سیاسی بھرتیاں ہونی ہیں۔ یہ نئے جامعات ایک دو سال بعد پرانے جامعات کے ساتھ فیڈرل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بہت ہی محدود فنڈز میں شریک ہو کر پہلے سے موجود جامعات کے بجٹ کو اور متاثر کرتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے حکام بالا تعلیم کے سلسلے میں منعقد تقریبات اور میڈیا پر بیٹھ کر کہتے رہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں جامعات اپنے خرچے خود پورے کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے جامعات بھی ایسا کریں۔ پہلے تو یہ تجزیات پوری طرح صحیح نہیں ہیں۔ امریکہ میں پبلک سیکٹر کے جامعات کے خرچوں کے لئے ریاست کی طرف سے گرانٹس، فیڈرل حکومت کی طرف سے فنڈز، اور دیگر ذرائع موجود ہوتے ہیں۔ دیگر ذرائع میں انڈسٹریز کی فنڈنگ، انڈومنٹ فنڈز، اور ڈونیشنز ہوتے ہیں۔

لیکن حکومت کے علاوہ دیگر ذرائع میں امریکہ میں گوگل، ایپل، مائکروسافٹ جیسے ادارے ہیں جو کہ جامعات کے ترقی کے ساتھ ساتھ پورے امریکہ میں پھیلے ہیں۔ ان جیسے اداروں پر قانوناً پابندی ہے کہ وہ تحقیق کے لئے اپنے منافع کا ایک حصہ جامعات میں موجود تحقیقی سنٹرز کے لئے مختص کریں گے۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبے میں موجود انڈسٹریز کے بہت سارے کام جامعات کے پروفیسرز کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ان کے ایسے پراجیکٹ ہوتے ہیں جن کے لئے جامعات کے اساتذہ اور تحقیق کے طلباء کام کرتے ہیں۔

حکام بالا عوام اور جامعات کے طلباء و اساتذہ کو یہ بتائیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جامعات خرچے پورے کرنے کے لئے ایسے ذرائع کہاں سے لائیں۔ موجودہ حالات میں بس ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے طلباء کے فیس۔ اس صوبے میں طلباء کے فیس پہلے سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے زیادہ ہیں کیونکہ ان صوبوں میں صوبوں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے بھی فنڈز فراہم کرتے ہیں۔

مسائل دن بدن گمبھیر ہو رہے ہیں۔ اس لیے صوبائی حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرنا چاہیے۔

صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام۔ جس سے صوبے کے جامعات کے مالی اور انتظامی مسائل کے حل ہوسکتے ہیں۔ ایک سیکرٹری کے سربراہی میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ یہ بوجھ اٹھانے کے پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ صرف کالجز کے مسائل حل کریں تو بہتر ہو گا۔ اعلیٰ تعلیم ماسٹر، پی ایچ ڈی اور تحقیق کے لئے صوبائی ہائر ایجوکیشن کو فعال ہونا پڑے گا۔ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے صوبے کے جامعات بیرونی اداروں کے ساتھ، ڈونرز کے ساتھ تعلقات استوار کر نے کے لئے اقدامات کر سکتے ہیں۔

صوبائی حکومت جامعات کے خرچے پورے کرنے کے لئے صوبے کے بجٹ میں گرانٹ مختص کرنے کے لئے قانون سازی کریں۔ اور جامعات میں مالی بد انتظامیوں کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر پائدار اقدامات کیے جائیں۔ ہیومن ریسورس مینجمنٹ پر کام کرنا چاہیے۔

اس صوبے میں انڈسٹریز اس لیول کی نہیں ہے کہ جہاں پر ان کے کام جامعات کے ذریعے ہوسکتے ہوں لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے ساتھ سرکاری اداروں اور جامعات کے مختلف شعبوں کے درمیان روابط بنا کر اس صوبے ترقی کے لئے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments