شیطانی کاغذ


میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے اس پر مجہول لکھائی میں فرمائشیں لکھی ہوئی ہیں یہ فرمائشیں کسی بچے نے اپنی ماں سے کی ہیں، نہ ہی کسی بہن نے لاڈ سے اپنے بھائی سے طلب کی ہیں، بلکہ خواہشوں اور مطالبات کی یہ طویل فہرست میرے ہونے والے سسرال سے بھیجی گئی ہے پچھلے اتوار تاریخ کی رسم ہوئی ہے۔ چھ ماہ بعد شادی ہونا طے پائی ہے

میں باٹنی (نباتیات) میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوں۔ میرے والد ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا بس بھرم ہی رکھ سکتے ہیں۔ میں ایک ٹیوشن اکیڈمی میں جز وقتی ملازمت کر کے اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرتی ہوں۔ جہیز کے لئے کچھ زیور، کپڑے اور فرنیچر کی گنجائش تو نکل سکتی ہے لیکن اس فرمان شاہی کی طوالت دیکھ کر تو مجھے چکر آنے لگے ہیں۔ یقینا یہ میرے سفید پوش والد کے بس سے باہر ہے۔ میں فون اٹھاتی ہوں اور محبت کے دعوے دار منگیتر کا نمبر ملاتی ہوں۔

میری محبت میں جان نچھاور کرنے اور آسمان سے تارے توڑ کر لانے والے میرے منگیتر کو تو میرے حالات و مصائب کا بخوبی اندازہ ہے۔ وہ میرے ہم جماعت ہیں اور جانتے ہیں کہ میں کن نامساعد حالات میں تعلیم مکمل کر رہی ہوں۔ اس بے بضاعتی میں ہم کیونکر اس قرطاس طولانی کی تاب لا سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے میرے عشق میں دیوانے میرے منگیتر ضرور اس ناگفتنی کو سمجھتے ہوئے میری مدد کریں گے۔ مجھے یقین ہے یہ مراسلہ ان کے علم میں لائے بغیر بھیجا گیا ہو گا۔ جب انہیں پتہ چلے گا تو وہ اپنے گھر والوں کی اس زیادتی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں گے ۔ لاریب، وہ میرا ہی ساتھ دیں گے۔

گھنٹی جا رہی ہے اور میرے دل کی دھڑکن اس گھنٹی سے بلند آواز سے میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ بلند فشار خون سے میری کنپٹیاں پھڑپھڑا رہی ہیں۔ میں امید و بیم کے پل صراط پر کھڑی ہوں۔ ایک لامتناہی وقفے کے بعد وہ فون اٹھا لیتے ہیں۔ میں اٹکتی زبان اور پھسلتے لفظوں میں کسی طرح اپنا مطمح نظر بیان کرتی ہوں۔ میں انہیں واضح کر دیتی ہوں کہ مراسلے میں لکھے گئے مندرجات پورے کرنے کے لئے مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر کل وقتی ملازمت اور ٹیوشن کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔ میں انہیں کہتی ہوں اس وقت اگر جہیز میں کمی کردی جائے اور میں اپنی تعلیم مکمل کر سکوں تو بعد میں ایک بہتر ملازمت اور مشاہرے سے حاصل ہونے والی آمدنی سے یہ کمی پوری کردوں گی۔

وہ کہتے ہیں ”میں امی سے بات کر کے کال بیک کرتا ہوں۔“ اور رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔

اگرچہ میرے منگیتر کا ردعمل میری توقع کے مطابق دل افروز اور حوصلہ افزا نہیں تھا لیکن پھر بھی میں امید کی ڈور ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ہوں۔ میرے دل ناتواں کو یقین ہے کہ میری محبت ناتواں نہیں ہے۔ میرے منگیتر جانتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کرنا میرا خواب ہے۔ مسافت تمام ہونے کو ہے۔ منزل دو ہاتھ دور رہتی ہے اور پھر میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا دل خوش کن سابقہ منسوب ہو گا۔ ایسے میں وہ کیسے اپنے گھر والوں کو اجازت دے سکتے ہیں کہ مجھے کجاوے سے اترنے پر مجبور کر دیا جائے، میرا سفر ناتمام کر دیا جائے۔ میرے دل کو ڈھارس ہے کہ وہ میرے محمل کی باگ تھام کر مجھے صحرا کے پار لے جائیں گے۔ یہ باد سموم بس لمحوں کی بات ہے پھر خوشیوں کی پروا چلنے والی ہے۔

اف؛مجھے یقین ہے تو پھر مجھے چین کیوں نہیں آتا، میرے دل میں وسوسے کیوں آرہے ہیں۔ آہ یہ کیسی بے قراری ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے لڑکوں کی مائیں بیٹا پیدا کر کے ایسا کیا انوکھا کر بیٹھتی ہیں کہ انہیں اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر فوقیت حاصل ہوجاتی ہے۔ دوسروں پر حکومت کرنے کا جواز مل جاتا ہے۔ شادی تو دو انسانوں کے ملاپ سے ایک نیا گھرانا، ایک نئی نسل کی بنیاد رکھنے کا نام ہے اس گھرانے کو بنانے میں مرد اور عورت دونوں کا کردار مساوی ہے۔

نسل کو آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے میں دونوں ہی کا حصہ ہے پھر آخر معمولی سے جسمانی فرق سے ایک کو دوسرے پر سبقت کیسے حاصل ہو گئی کہ صنف ثانی سے عورت ہونے کا خراج لیا جائے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ایک عورت کی ہی سربراہی میں یہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مرد جو اپنے آپ کو صنف آہن کہتے ہیں جو غیرت کے نام پر بہنوں، بیٹیوں کو قتل کرنے کو قابل فخر سمجھتے ہیں، ایک عورت سے اپنی ضرورت کا سامان طلب کرتے ہوئے ان کی غیرت کہاں چلی جاتی ہے۔

لیکن میں یہ باتیں کیوں کر رہی ہوں۔ میرا دل کہتا ہے میرے ہاشم بے غیرت نہیں۔ وہ ضرور اس بھتہ خوری کی مزاحمت کریں گے۔ میں ان کے فون کا انتظار کرتی ہوں۔ انتظار کی گھڑیاں برف کا طوفان بن کر مجھے منجمد کرچکی ہیں۔ یہ برف ان کے حوصلہ افزا، محبت بھرے مثبت جواب کی حدت سے ہی پگھل پائے گی۔ میں برف کے مجسمے کی صورت بے حس و حرکت بیٹھی، سامنے لگے آئینے کو تکے جا رہی ہوں۔ اس آئینے میں آج اپنی جگہ سمن ضیاء کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔

ہاں سمن ضیاء تمہاری صورت۔ تم بھی تو ایک روز اسی طرح کی صورتحال سے گزری تھیں۔ آصف تمہارا ہم جماعت، دوست، عاشق، محبوب اور پھر منگیتر بنا تھا۔ شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد آصف کی اماں نے اپنی ادھوری خواہشوں کو پورا کرنے کا بوجھ تمہارے کندھوں پر ڈالنا چاہا تھا۔ جو آسائشیں لوئر مڈل کلاس سے تعلق ہونے کے باعث ان کی رسائی میں نہ تھیں، وہ بیٹے کی اماں ہونے کے زعم میں تمہارے والد سے طلب کرنے کو اپنا حق سمجھی تھیں۔

تمہارے والد فارن سروس میں تھے اور تم دو ہی بہنیں تھیں، خالی ہاتھ تو وہ بھی نہ بھیجتے لیکن جانے کیوں آصف کی والدہ کو عجلت تھی، چھین لینے کی ہڑک تھی ایسی کیا رال بہہ گئی تھی کہ جہیز کی فہرست کی سیاہی سے اپنا منہ کالا کر لیا تھا۔ اگرچہ اس فہرست میں درج اشیاء کو مہیا کرنا تمہارے والد کی پہنچ سے باہر نہ تھا لیکن تم اس بے حیائی پر بھڑک اٹھی تھیں۔ تم دندناتی ہوئی آصف کے پاس پہنچی تھیں۔ اور اس کے سامنے وہ شیطانی کاغذ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

”تمہیں یہ سامان چاہیے یا تمہیں میری چاہت ہے؟“
اور اس نے کہا تھا ”مجھے تو تمہاری ہی چاہت ہے لیکن یہ تو دنیا کی ریت ہے۔ سب ہی دیتے ہیں۔“

آہ ؛ سمن ضیاء اس لمحے کی اذیت کو میں سمجھ سکتی ہوں۔ تمہارا دل کس طرح پاش پاش ہوا ہو گا۔ ایسے ننگ انسانیت شخص سے محبت کرنے پر تم نے کتنی خفت محسوس کی ہوگی۔ غم و غیض سے تمہارا جسم لرزتا ہو گا اور ہونٹ کانپے ہوں گے ۔ پر تم بڑی بہادر تھیں اصولوں پر نفع و نقصان کی سر مو پروا نہ کرنے والی۔ تم نے تو انہونی کردی تھی۔ تم نے انگوٹھی اتار کر سامنے پڑی میز پر پھینکی اور کہا

”میں نے تم سے محبت کی تھی اور تم تجارت کرنا چاہتے ہو۔ محبت میں دان دیا جاتا ہے بیوپار نہیں ہوتا۔ میں حرص و طمع کے اس بندھن سے انکار کرتی ہوں۔ اور ہاں مجھے رشتہ ختم کر کے زمانے کا کوئی ڈر نہیں۔ دنیا میں کہیں نہ کہیں کوئی اوصاف حمیدہ رکھنے والا ضرور باقی ہو گا۔

اور تم چلی آئی تھیں۔ اور اسی دن لندن روانہ ہو کر اس شخص سے رابطے مسدود کر دیے تھے۔ سمن ضیاء ؛تم بہت بہادر تھیں مگر ہر لڑکی نہیں ہوتی۔ شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد رشتہ ٹوٹ ہو جائے تو قصوروار لڑکی کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ضرور لڑکی کی ہی کوئی ایسی خامی سامنے آئی ہوگی کہ بات ختم ہو گئی۔ فسانے گھڑ لئے جاتے ہیں۔ طعن و تشنیع سے اسے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زندگی ایک الزام، ایک طعنہ بن جاتی ہے ایک کلنک کا ٹیکہ لگ جاتا ہے جو نہ صرف اس کے رشتے میں رکاوٹ ہوتا ہے بلکہ بہنوں کے لئے بھی سد راہ بنتا ہے۔ سمن، تم نے اتنی جرات کہاں سے پائی تھی۔ تم نے کیسے یہ کر لیا تھا میں تو بہت کمزور لڑکی ہوں میں تو نہیں کر پاؤں گی۔

تو کیا عورت ہونے کا خراج ادا کرنے کے لئے مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑے گی۔

اس خیال سے ہی میرے سینے میں اک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ ”نہیں سمن میں ہمت کروں گی تم نے جو تاریخ رقم کی تھی میں اس کی تجدید کروں گی۔

لیکن میں ایسی باتیں کیوں سوچ رہی ہوں میرے ہاشم تمہارے منگیتر جیسے کم ظرف تو نہیں ہوسکتے۔ وہ میرا مان رکھیں گے۔

اف، ابھی تک ان کا فون کیوں نہیں آیا۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔ ہاشم کی محبت پر اعتماد ہے تو دل کیوں سولی پر لٹکا ہے۔ کیوں یقین و بے یقینی کے پل صراط پر کھڑی ہوں۔ دل اور انتظار کی تاب نہیں لا سکتا۔ کیا میں انہیں خود ہی فون کرلوں۔ نہیں یہ مناسب نہ ہو گا۔ پھر کیا کروں یہ معلق لمحے مجھے مارے ڈالتے ہیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک۔ میرے سر پر ہتھوڑے برسا رہی ہے۔ مجھے کوئی آواز اچھی نہیں لگ رہی۔ میرے سارے حواس صرف فون کی گھنٹی کے۔ منتظر ہیں۔ میں ان کے جاں فضا جواب کے لئے ہمہ تن گوش ہوں۔

اوہ، فون کی گھنٹی بج رہی ہے؟ سچ مچ یا میرے کان بج رہے ہیں۔ میں نزدیک جاتی ہوں۔ ریسیو اٹھا کر کان سے لگاتی ہوں

ہیلو، ۔ مخصوص جانی پہچانی آواز سنائی دیتی ہے
جی۔ جی۔ آواز میرے گلے میں پھنس گئی ہے کوئی پھندا سا میرے آلہ صورت کے گر لپٹ گیا ہے۔

ان کی آواز دور سے آتی محسوس ہو رہی ہے۔ شاید وہ زمین کی تہہ میں چلے گئے ہیں یا سمندر کی گہرائیوں میں غرقاب ہو گئے ہیں۔ وہ میری سطح سے بہت نیچے کہیں سے بول رہے ہیں ان کی آواز زمین کی تہوں سے اٹھنے والے لاوے کی طرح میرے کانوں کو جھلسا رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں ”امی نے کہا ہے ہم نے کون سا ٹرالر بھر کر مانگ لیا ہے۔ آخر ہمیں بھی تو برادری میں منہ دکھانا ہے۔“

ریسیور میرے ہاتھ سے گر پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments