ملتان بورڈ ؛ فرسٹ ائر اردو کے پرچے کا ایک سوال!


تلخیص کیجیے اور عنوان تجویز کیجئے۔

”تمہاری عورتوں میں سے سب سے بہترین عورت وہ ہے جو مہربان اور پاکدامن اور رشتے داروں میں احترام رکھتی ہو، شوہر کے سامنے فروتنی نہ کرے۔ اس کی بات مانے، خلوت میں اس کی مطیع ہو، صرف شوہر کی خاطر اپنے آپ کو مزین کرے، دوسروں میں دل چسپی نہ لے، اگر بیوی نرم خو ہو اور شوہر ناراض ہو جائے تو اسے چین نہ آئے مگر یہ کہ شوہر کو راضی کرے، شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی آبرو کی حفاظت کرے، شوہر کے مال اور حیثیت کی محافظ ہو، دین کے معاملات میں شوہر کی مددگار ہو، بر محل خرچ کرے، ایسی عورت شوہر کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی، سعادت کا باعث اور کنیز خدا ہے“

ملتان بورڈ کے فرسٹ ائر اردو کے پرچے میں دیا گیا یہ سوال کمال ہے۔ ہم نے سوچا، فرسٹ ائر کے بچوں کی تھوڑی مدد ہی کر دی جائے تلخیص کرنے میں۔

”تمہاری عورتوں“
پیراگراف کا آغاز ان دو لفظوں سے ہوتا ہے سو ان سے مراد کوئی بھی عورت ہو سکتی ہے۔

ماں بہن، بیٹی، بہو، پہلی بیوی، دوسری بیوی، تیسری بیوی، سالی، محبوبہ، ( تعداد مقرر نہیں ) پیسے دے کر ساتھ سلانے والی ( تعداد مقرر نہیں )

رشتے دار عورتیں، دوستوں کی بیٹیاں، ہمسایہ بچیاں، سڑک پر چلنے والی عورتیں، سفر کی ہمراہی، دفتر میں ساتھی عورتیں، سکول میں ساتھی لڑکیاں، بہنوں، بیوی اور ماں کی سہیلیاں، کاؤنٹر گرلز، نرسیں، ڈاکٹر، خادمائیں، پوتیاں، نواسیاں۔ بہن بھائیوں کے گھر کی عورتیں۔

”مہربان“

ان سب کو اتنا مہربان ہونا چاہیے کہ ٹھکائی لگائی جائے یا گندی گالیاں دی جائیں، منہ پہ تیزاب پھینکا جائے یا ریپ کیا جائے، خود کشی کا رنگ دے کر قتل کیا جائے یا ان کے ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں ڈال کر رکھا جائے، بولنے کی اجازت نہ ہو یا اپنی مرضی کی شادی کرنے کی، کالج جانے کی اجازت نہ ہو، وراثت میں حصہ نہ دیا جائے، بے آسرا کر کے جب چاہو گھر سے نکال دو۔

اس سب کے باوجود انہیں اتنا اچھا ہونا چاہیے کہ وہ اف نہ کریں۔ سب کچھ چپ چاپ سہتی رہیں کہ ان کے مہربان ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔

”پاکدامن“

انہیں کسی سے بات کرنے کی، ہنسنے کی، ساتھ پڑھنے اور کام کرنے کی اجازت سے دامن ناپاک ہو سکتا ہے سو ان سب سے دور رہنا چاہیے۔ مرضی کی شادی بھی دامن کے لیے خطرہ ہے سو پرہیز لازم ہے۔ ان پاکدامن پردے میں چھپی عورتوں کے مرد جو چاہے کرتے رہیں، قطعی کوئی قدغن نہیں۔ مرد کا دامن اجلا ہی رہتا ہے جو چاہے کرے۔

”رشتے داروں میں احترام“

تمام عورتوں کو ایسا ہونا چاہیے جو نہ بول سکیں، نہ سن سکیں، نہ دیکھ سکیں، نہ کسی بات پہ اعتراض ہو، نہ خواہش کا اظہار ہو، اطاعت وصف ہو اور سب رشتے دار ایسی بے زبان عورت کی مثالیں دیں۔

”شوہر کے سامنے فروتنی“

فروتنی کا مطلب ہے مسکین اور عاجز ہونا۔ سو ان سب عورتوں کے لیے لازم ہے کہ مسکینی اور عاجزی کا چولا پہن کر رکھیں۔ بھول جائیں کہ عزت نفس عورت کے لیے بھی اہم ہے۔ اگر عاجز یا مسکین بننے میں کچھ مشکل ہو تو برائے مہربانی مداری اور بندریا کا تماشا دیکھ کر سیکھیں۔ بلکہ ایک ڈگڈگی خرید کر پریکٹس کریں کہ شوہر کی آواز ڈگڈگی کی مانند ہے، اسے سنتے ہی بندریا کا روپ اختیار کرتے ہوئے مداری کی خواہش پر چلنا ہے۔

بٹھائے تو بیٹھ جاؤ، کھڑا کرے تو کھڑی ہو جاؤ اور لٹائے تو سو بسم اللہ۔
”خلوت میں اس کی مطیع ہو“

شوہر جب چاہے، جیسے چاہے، جہاں سے چاہے، چوں چرا کی گنجائش نہیں۔ عورت کا جسم شوہر کی ملکیت ہے سو ملکیت کو جیسے چاہے استعمال کیا جائے۔ استعمال کرتے ہوئے ٹوٹ پھوٹ کی قطعی پروا نہ کی جائے۔ کیا آپ کے پاؤں کی جوتی نے کبھی کہا کہ پتھروں پر چلتے ہوئے مجھے نہ پہنو؟ مالک کی مرضی بھئی، اور لے آئیں گے اگر ٹوٹ گئی تو۔

”صرف شوہر کی خاطر اپنے آپ کو مزین کرے“

سمجھ لیجیے کہ عورت کا وجود صفر کے مترادف ہے سو اسے ہر کام شوہر کی خاطر کرنا ہے۔ شوہر چاہے سات دن غسل نہ کرے، ہر طرف سے بد بو کا مرقع ہو، جسم پہ اگے جھاڑ جھنکاڑ میں جوئیں رینگتی ہوں، توند سے ریح ایسی خارج کرے کہ الامان۔ لیکن بیوی کوئی حرف شکایت زبان پہ نہیں لا سکتی کہ وہی تو ہے اس کا مالک۔ اسے شوہر کا دل لبھانے کو سولہ سنگھار کرنا ہی ہے۔

”دوسروں میں دل چسپی نہ لے“

عورت چاہے وزیر ہو یا مشیر یا بھلے وزیر اعظم، اس کو شوہر کے علاوہ کسی سے بھی بات کرنا منع ہے۔ اگر بہت ضروری ہو تو شوہر کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچوائے۔ شوہر کے لیے سورج مکھی کا پھول بن کر رہے۔

”شوہر کو راضی رکھے“

شوہر کو راضی رکھنے کے کئی طریقے ہیں، کوئی ایک چن لیجیے۔ انگلیوں پر ناچنے والی کٹھ پتلی یا شاہ دولے کی چوہیا، مداری کی بندریا یا ڈمی۔

”شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرے“

اگر شوہر وظیفہ زوجیت ادا کرنے سے معذور ہے تو اس کی مجبوری کو تسلیم کیجیے۔ آخر شوہر ہے، کھلاتا پلاتا ہے، کپڑا لتا بھی اسی کے ذمے ہے۔ کیا ہوا جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی۔ صابر بی بی بنیے۔

”شوہر کے مال کی محافظ ہو“

سال میں دو جوڑی کپڑا اور روٹی پانی۔ شوہر کے لیے بنے حلوے مانڈے کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھے اور مردانہ کمزوری کے لیے منگوائے کشتہ جات اپنی حفاظت میں شوہر کو کھلائے مگر خود نہ چکھے۔ عورت کو اچھی غذا شہوت پہ آمادہ کرتی ہے سو پرہیز لازم ہے۔

”تلخیص کے ساتھ کچھ عملی مثالیں“

آسٹریلیا کی رہائشی انجینئر خاتون بچوں کو لے کر دادی دادا سے ملوانے سرگودھا آئی۔ چھٹی ختم ہونے پر واپس آسٹریلیا جانا چاہتی تھی۔ سسرال کے کہنے پر اپنے ارادے سے باز نہ آئی تو سسر نے کلہاڑی سے بہو کا سر تن سے جدا کر دیا۔

کراچی کی رہائشی ڈاکٹر سکینہ کو اچھی عورت کا سبق سکھانے کے لیے سسر کو بہو کی ڈگریاں چولہے میں جلانی پڑیں۔

کھاریاں کی دو بہنیں شوہروں کو سپین ساتھ لے جانے سے انکاری ہوئیں تو سسر نے دونوں لڑکیوں کو ان کی ماں کے سامنے گولی مار کے ہلاک کر دیا۔

ہمیں یہ لگتا ہے کہ بورڈ کا یہ پیپر ان تینوں سسروں کی مشاورت سے ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ وہ مستقبل کے شوہروں کے لیے زبانی کلامی ضابطہ حیات ہے اور بہوؤں کو جان سے مار کر سبق سکھانا اس پرچے کا پریکٹیکل۔

امید ہے اگلے بیس برس میں نتیجہ بہت اچھا رہے گا۔

“تمہاری عورتوں میں سے سب سے بہترین عورت وہ ہے جو مہربان اور پاکدامن اور رشتے داروں میں احترام رکھتی ہو، شوہر کے سامنے فروتنی نہ کرے۔ اس کی بات مانے، خلوت میں اس کی مطیع ہو، صرف شوہر کی خاطر اپنے آپ کو مزین کرے، دوسروں میں دل چسپی نہ لے، اگر بیوی نرم خو ہو اور شوہر ناراض ہو جائے تو اسے چین نہ آئے مگر یہ کہ شوہر کو راضی کرے، شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی آبرو کی حفاظت کرے، شوہر کے مال اور حیثیت کی محافظ ہو، دین کے معاملات میں شوہر کی مددگار ہو، بر محل خرچ کرے، ایسی عورت شوہر کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی، سعادت کا باعث اور کنیز خدا ہے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments