مقبول عوامی لیڈروں کی مشترکہ خصوصیات


ڈونلڈ ٹرمپ، جیر بالسونیرو، ولادی میر پیوتن، نریندرا مودی، طیب اردگان، اور عمران خان جیسے مقبول عوامی لیڈروں میں جو مشترک صفات پائی جاتی ہیں، وہ ہیں :ذاتی کرشمہ، انانیت، قوم پرستانہ قدامت پسندی، مردانہ قسم کی پارسائی اور آشکار جنس پسندی۔ وہ سیاسی طریقے جو ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں، ان میں ’عام آدمی‘ کو بد عنوان اشرافیہ ’سے بچانے کے مربیانہ وعدے، مذہبی اکثریت پر انحصار، اخلاقی پولیسنگ، اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنا اور ایک ایسی وطن پرستی یا مقامیت پسندی جو ملغوبہ ہوتی ہے قوم پرستی، غیر ملکیوں سے نفرت اور مردانہ مذہبیت کا۔

عوام میں ان کی مقبولیت اور پسندیدگی کا انحصار انتہائی متحرک قسم کی مردانگی کے ساتھ اپنی سیکورٹی ریاستوں اور ان ثقافتی اور سرحدی پالیسیوں پر ہوتا ہے جن کے بارے میں وہ چوکس رہتے ہیں اور یہ سب کچھ انہیں ایک نفع و نقصان کو سمجھنے والے معاشی انسان کے درجے پر فائز کر تا ہے۔ ان کی طاقت کا انحصار ان کی کارکردگی کے کھوکھلے دعوے اور ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے aستعمال پر ہے۔ ان کے دشمنوں کی طویل فہرست میں اصل ناقدین کے ساتھ تصوراتی دشمن، صحافی، لبرل میڈیا، اقلیتیں، عورتیں، فیمنزم، سیکولر ازم، حزب اختلاف، بائیں بازو والے اور طنز نگار سبھی شامل ہوتے ہیں۔

ان مقبول مرد سیاستدانوں کے پیروکاروں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ان کی قوم کو عظمت سے ہم کنار کریں گے۔ ان کے جرات دکھانے اور پارسائی کے وعدوں کی وجہ سے ان کو سراہا جاتا ہے اور ان سے بہتر کارکردگی کی امید وابستہ کی جاتی ہے، ان کی مردانگی کی جو حالیہ مثالیں ذہن میں آتی ہیں، ان میں پیوٹن کی ننگی چھاتی کے ساتھ گھڑ سواری، ٹرمپ کا اپنے طفلانہ جنسی جرائم کا اعتراف، مودی کا اپنے 56 انچ کے سینے کے بارے میں باتیں کرنا اور عمران خان کا سیاسی ریلیوں میں پش اپ لگانا شامل ہے۔ اس مضمون میں ہم فیمنسٹ نقطۂ نظر سے مودی اور عمران خان کا ذکر کریں گے۔

ہندوستان کی دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کے رہنما کی حیثیت سے 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد مودی نے اپنے مسلم دشمن بیانیے کو نرم کرتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلیٰ والی جارحانہ اور ہندوتوا کے فلسفے کو آگے بڑھانے والی روش کی تجدید کی۔ اس نے خود کو ہندو قوم کے محافظ اور مثالی رہنما کے طور پر پیش کیا۔ ایک چوکیدار جو باہر منڈلانے والے خطرات سے اپنے گھر کو محفوظ رکھنا چاہتا ہو۔ دوسری طرف عمران خان جو پہلے کھلاڑی تھا، پھر رفاہی کام کیے ، اس کے بعد سیاست میں آیا۔ اور اپنی جماعت تحریک انصاف بنائی۔ عمران خان کو سراہنے کے لئے کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک ایماندار کپتان جو قوم کے لئے 1992 کا ورلڈ کپ جیت کے لایا۔ اسے ’بد عنوان‘ لیڈروں سے پاکستان کو بچانے کی آخری امید سمجھا جاتا ہے۔

نو آبادیاتی دور کے بعد 1947 میں وجود میں آنے والے دونوں ملکوں میں فرق یہ تھا کہ ہندوستان میں ایک سیکولر سویلین گورنمنٹ کام کر رہی تھی جس نے شروع میں ہی زرعی اصلاحات کیں۔ جب کہ پاکستان میں آئین بننے میں کافی تاخیر ہوئی۔ شروع سے ہی فوجی حکومتیں آتی رہیں اور عدلیہ نے زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دیا۔ آزادی کے پچھتر سالوں میں کوئی نصف عرصہ فوج نے حکومت کی۔ سویلین حکمرانوں کو غدار کہنے کا رواج عام ہوا اور کئی منتخب وزرائے اعظم کو اسی بنا پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں نے بتدریج گورننس میں فوجی مداخلت کو محدود کیا اس لئے فوج کو عمران خان ہی مناسب متبادل نظر آیا جس میں ایک جوانمرد کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔ یعنی اسلامی صوفی ازم کی اخلاقیات پر مبنی اخلاقی اور جری مردانگی۔ پاکستانی فوج کی قیادت نے 2018 میں عمران خان کی انتخابی مہم کی حمایت کی۔ اور یوں ایک ایسی حکومت وجود میں آئی جسے سول ملٹری ”ہائبرڈ رجیم“ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ یوں فوج کی براہ راست حکمرانی کے تاثر کو زائل کیا گیا لیکن جیسا خود خان نے کہا کہ سول ملٹری قیادت ایک پیج پر تھی۔

پاکستان کے عمران خان کا تعلق طبقۂ اشرافیہ سے ہے جب کہ مودی کے طبقاتی پس منظر کی بنا پر اس سے مساوات، تنوع اور تکثیریت کے اعلیٰ لبرل اصولوں پر کاربند رہنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مودی اپنی طبقاتی محرومی کو ہتھیار بنا سکتا ہے اور اپنے مردانہ، فرقہ وارانہ قتل عام کے سیاسی ریکارڈ پر فخر کر سکتا ہے۔ وہ ہندوؤں کے مذہبی اور ماقبل نو آبادیاتی قومی تفاخر کو بحال کرنے کی پرولتاری تمنا کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس ’ما قبل نو آبادیاتی مالیخولیا‘ کا بدلہ لینا ضروری ہے۔ دوسری طرف مسلمان جو صاحب اقتدار تھے کے لئے یہ ذلت کا سبب ہے کہ وہ اپنا اقتدار کھو بیٹھے ہیں۔

عام طور پر مقبول لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فریضہ اپنی قوموں کو بد عنوان اشرافیہ کے پیدا کردہ اخلاقی بحران سے نکالنا ہے لیکن عمران خان اور مودی پارسائی کے معاملے میں ان سے دو ہاتھ آگے بڑھ گئے ہیں۔ وہ اپنی ’پاک یا خالص‘ قوم کی تباہی کی ذمہ داری چند لوگوں کا نام لے کر ان پر ڈال دیتے ہیں اور یوں پیچیدہ معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں۔ مودی ہندوؤں کو ’مسلم دہشت گردی‘ سے بچانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جب کہ عمران خان کی سب سے زیادہ توجہ مسلمانوں کو عالمی اسلاموفوبیا سے بچانے پر ہے۔

دونوں پارسائی اور جعلی سائنس کو غلط ملط کر دیتے ہیں۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ وہ ساتویں صدی کی ریاست مدینہ کے ماڈل پر پاکستان میں سماجی و سیاسی نظام قائم کرے۔ مودی سائنسی علوم کو ہندوستانی دیو مالا اور مذہبی رزمیوں سے ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھگوان کرنا کی پیدائش اسٹیم سیلStem cellsسائنس کا نتیجہ تھی اور دنیا کی پہلی پلاسٹک سرجری گنیش پر کی گئی تھی جس کی وجہ سے اسے ہاتھی کا سر ملا۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ چین ایسی ٹرینیں بنا رہا ہے جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز چلیں گی۔ اس نے روحانیت کو سپر سائنس میں تبدیل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ دونوں رہنما سیکورٹی ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ وفادار اور امین لوگوں کو اخلاقی صدمے سے بچانا چاہتے ہیں۔ کرونا کی وبا کے دوران 2020 میں مودی نے ہندوستانیوں سے کہا کہ وہ رات کو نو بجے نو منٹ کے لئے موم بتیاں، دیے اور موبائل کی فلیش لائٹس جلائیں۔

عمران خان نے پاکستانیوں سے کہا تھا کہ وہ وائرس سے خوف زدہ نہ ہوں اور SELF BELIEF رکھیں۔ جیسے مودی مذہبی قوم پرستی کو متحرک کرنے کے لئے ہندوستانیوں سے اپیل کرتا رہتا ہے کہ انہیں ٹی وی سیریز مہا بھارت دیکھنی چاہیے۔ اسی طرح عمران خان پاکستانیوں سے کہتا ہے کہ وہ ارطغرل جیسے ترکی کے مذہبی ڈرامے دیکھیں تا کہ مذہبی تفاخر کا احساس اجاگر ہو۔ مودی کو عوامی اجتماعات میں سامنے آنے کا شوق ہے اور عمران خان بے تحاشا ٹی وی انٹرویوز میں آتا ہے۔

مودی نے مجسمہ ء اتحاد کے نام سے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ بنوایا، اور 2020 میں لاہور میں ارطغرل کا مجسمہ ایستادہ کیا گیا۔ مودی کو بھڑکیلا اور ڈرامائی انداز پسند ہے۔ اس کی رنگین پگڑیاں اور کرتے قوم پرستوں کی اس امید کی نمائندگی کرتے ہیں کہ ہندوتوا مردانگی اقتدار کے اعلیٰ مرتبے پر بحال ہو گی۔ اس کے مقابلے میں عمران خان روایتی شلوار قمیص یا ٹریک سوٹ پہن کر ٹی وی پر آتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے دنیاوی نمود و نمائش کی پروا نہیں۔ یہ اس کی روحانی بیداری، صوفیانہ سادگی اور کھیل کے پس منظر کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ عمران خان کو کلبوں میں جانے والی وہ چھوٹی سی مغرب زدہ اشرافیہ پسند نہیں جو اپنے روایتی لباس کو مسترد کرتے ہیں اور ہر دیسی چیز سے نفرت کرتے ہیں۔

ان دونوں لیڈروں کی مقبولیت کی مشترک وجہ سیاست کو ڈیجیٹلائز کرنا اور اپنی انتخابی مہم کے لئے ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے پارسائی اور مردانگی کو ملا کے بد عنوان اشرافیہ کے خلاف بیانیہ تیار کیا ہے۔ مذہبی بنیاد پر ٹیکنالوجی کی ترقی، فلاحی، اقتصادی بالادستی اور اپنی اپنی قوموں کی اخلاقی تطہیر کے وعدے نے رضاکار ایکٹوسٹ، ہیش ٹیگ جنگجو یا ٹرولز کی ایک فوج ان کے گرد جمع کر دی ہے جو ان پر ہونے والی تنقید کو بہا کر لے جاتی ہے۔ ترجمہ: مہ ناز رحمن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments