( 2 ) سید فخرالدین بلے اور شہزاد احمد کی داستان رفاقت


(شہزاد احمد کے 10 ویں یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر)

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش کے احترام میں ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد آ گئے تھے اور ان کی پوسٹنگ وزارت مذہبی امور میں تھی، بیک وقت تین جرائد۔ ماہنامہ ہم وطن اسلام آباد۔ ماہنامہ اوقاف اسلام آباد۔ ماہنامہ یاران وطن اسلام آباد کے بانی مدیر اعلی کی حیثیت سے ان کی مصروفیات حد درجہ بڑھ چکی تھیں۔ گویا کہ رات دن ایک تھا۔ ہم لوگ اسلام آباد و راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں رہائش پذیر تھے۔ وہاں بھی جناب شہزاد احمد صاحب کا آنا اور قیام فرمانا اور اس حوالے سے بہت سی یادیں اور باتیں واقعات حافظے میں محفوظ ہیں۔ متعدد بار تو ان کی آمد احمد ندیم قاسمی صاحب یا ڈاکٹر وزیر آغا صاحب یا پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل صاحب کے ہمراہ ہوا کرتی تھی۔ غالباً اس وقت شہزاد احمد صاحب روٹی کارپوریشن آف پاکستان میں اہم عہدے پر فائز تھے۔

سرگودھا میں قیام کے دوران جب والد گرامی عارضہ قلب کا شکار ہوئے تو جہاں فیض احمد فیض۔ احمد ندیم قاسمی۔ جاوید احمد قریشی۔ ڈاکٹر آغا سہیل۔ عطا الحق قاسمی اور بریگیڈیئر ضمیر جعفری اور صدیق سالک۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ آپا۔ محمد طفیل (نقوش والے )۔ مختار مسعود علیگ اور برہان فاروقی علیگ پرویز بزمی۔ طفیل ہوشیار پوری۔ شبنم رومانی۔ محترمہ ادا جعفری پھپھو۔ محسن بھوپالی۔ یزدانی جالندھری۔ میرزا ادیب۔ آئی۔ اے۔ رحمن۔ عباس اطہر۔ حضرت وقار انبالوی اور حضرت علامہ غلام شبیر بخاری جیسی عظیم المرتبت ہستیوں میں جناب شہزاد احمد صاحب بھی شامل ہیں کہ جو محض ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی عیادت کے لیے دور دراز سے سفر کی صعوبتیں اٹھا کر سرگودھا پہنچے تھے۔

کراچی سے ملتان اور اسلام آباد اور لاہور متعدد بار جانا ہوا اور اکثر محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کے ہاں ہی قیام بھی رہا اور جب تک شہزاد احمد صاحب حیات رہے ہر مرتبہ ان سے بھی ملاقات رہی دو ایک مرتبہ ان کے دولت کدے پر اور دو ایک مرتبہ محترمہ صدیقہ بیگم کی رہائش گاہ پر اور لاہور میں کلب روڈ پر واقع مجلس کے دفتر میں بھی۔ جناب شہزاد احمد کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی تسخیر، آگ، دریافت، سالگرہ کا تحفہ، پتنگ اور چھ ستمبر سمیت متعدد نظمیں اور غزلیں حفظ تھیں اور ان نشستوں میں متعدد بار انہوں نے اپنا کلام سنانے کے بعد قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا کلام بھی لازمی سنایا اور اس غزل سے تو وہ اکثر سید فخرالدین بلے کے کلام کا آغاز فرمایا کرتے تھے۔ اور سید فخرالدین بلے کا کلام اپنے دلکش اور خوبصورت انداز میں سنایا کرتے تھے اس غزل کا ایک شعر قارئین کی نذر ہے

دل کی دھڑکن اگر نہ بند ہوئی؟
کیسے گزرے گی زندگی چپ چاپ

شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932 کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹر حافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے 1952 ءمیں نفسیات اور 1955 ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ ”صدف“ 1958 ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ”جلتی بجھتی آنکھیں“ 1969 ء پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ”پیشانی میں سورج“ پر انہیں ہجرہ (اقبال) ایوارڈ دیا گیا۔

1997 ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انہیں 1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے اکیڈمک رول آف آنر سے نوازا گیا۔ وہ 1949، 50 کے دوران فلاسوفیکل سوسائٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔ انہوں نے شاعری کے علاوہ فلسفہ اور سائنس پر بہت کام کیا اور کتابیں لکھیں، مشہور کتابوں میں ”ادھ کھلا دریچہ“ ”پیشانی میں سورج“ ”جلتی بجھتی آنکھیں“ شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد سائنس کی کتب کے ترجمے بھی کیے ۔ سائنسی مضامین پر ان کی کتاب 1962 ءمیں شائع ہوئی۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کے ایڈیٹر بھی رہے۔

شہزاد احمد (ولادت:۔ 16۔ اپریل 1932۔ امرتسر) (وفات: یکم۔ اگست 2012۔ لاہور)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments