فارن فنڈنگ یا بیرونی سازش


الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آٹھ سال تاخیر کے بعد بالآخر سنا دیا۔ شواہد اور بینک ریکارڈز سے ثابت ہو گیا کہ جناب عمران خان کی جماعت نے اربوں روپے کی رقوم مختلف بیرونی کمپنیوں اور افراد سے حاصل کیں اور انہیں پارٹی فنڈ کے طور پے ناصرف استعمال کیا بلکہ الیکشن کمیشن کو جمع کیے حلفیہ گوشوارے میں ان کا کوئی ذکر تک نہ کیا۔ قانون پاکستان کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی پاکستانی یا غیرملکی کاروباری ادارہ فنڈ نہیں دے سکتا۔

انفرادی حیثیت میں بھی پارٹی کو دی جانے والی رقم کسی غیر ملکی سے ہرگز نہیں لی جا سکتی۔ ان تمام شرائط کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے غیرملکی کاروباری ادارے ابراج گروپ جو کہ پاکستان میں کے۔ الیکٹرک خرید کر بڑی سرمایہ کاری کر چکا تھا، اسی ابراج گروپ سے لاکھوں ڈالرز قبول کیے گئے۔ کل چوبیس اکاؤنٹس ایسے ہیں جن سے مختلف غیرملکی افراد یا کمپنی سے رقوم تحریک انصاف کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی ہیں۔ جن کے حق میں تحریک انصاف کے وکلاء آٹھ سال میں کوئی ایک ٹھوس دلیل نہیں دے سکے۔ جب کیس کمزور ہو تو ممکنہ فیصلہ وہی آنے کی امید تھی جو آیا کہ خان صاحب کا بیان حلفی جھوٹا تھا۔

ایک جانب ”صادق و امین“ کا تمغہ سینے پر سجائے جوانوں کو متوجہ کر کے باقی تمام جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو ”اوئے چور۔ اوئے ڈاکو“ کہنے والے ولئی وقت کمال ہوشیاری سے بہتر دنوں اور تبدیلی کا آسرا دے کر عوام کو اپنا ہم نوا بناتے رہے عین اسی دوران قانون اور ایمان کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے لاکھوں ڈالرز کے نذرانے وصول کرتے رہے۔ واضح رہے کہ یہ کیس دو ہزار بارہ اور تیرہ کی فنڈنگ، رقم منتقلی کے بینک ریکارڈز تک ہی ہے۔

2014 سے 2022 کا مالیاتی سفر۔ نئے اثاثوں کی تفصیل اور تحقیقات تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئیں۔ ان آف شور کمپنیز کا معاملہ بھی ابھی کھل سکتا ہے جو خان صاحب نے اپنی خواہران کے ناموں پر بنائی تھیں، جس میں سے ایک کی اطلاع ہونے پر محترمہ علیمہ خان کو عدالت طلب کر لیا گیا تھا کہ بتائیے اگر یہ دبئی کی کمپنی آپ کے نام ہے تو اس کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ سادہ لوح خاتون نے کمال معصومیت سے عرض کی کہ جو کچھ نانا جان کی وفات پے ملا اس سے اس سلیقہ شعار بی بی نے گارمنٹس کا کام شروع کیا اور اللہ نے سلائی مشین میں برکت لکھی تھی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ لاکھوں ڈالرز میں کھیلنے لگیں۔ بس مصروفیت کی وجہ سے ایف بی آر کو اس کمپنی کے بارے میں معلومات فراہم کرنا بھول گئیں۔ اب یہ ماننے والی بات ہے، گھر والی کو گھر کے سو کام، ہزار جھنجھٹ، سسرال سمدھیانے سب نبھانے ہوتے ہیں اگر ان سب میں مت ماری گئی اور یاد نہ رہا تو اس میں کیا تعجب؟

عدالت میں بھی پتھر کے کلیجے والے تنگ دل تو بیٹھتے نہیں لہذا ججوں نے اپنی بڑی ہمشیر کی مانند ان کے احترام میں یہ دلیل تسلیم کی اور ادب سے فیصلہ دیا کہ باجی غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، آپ بس ذرا سی رقم جرمانہ ادا کیجئے، مٹی ڈالیے ، گھر جائیے۔ یوں ایک قصہ تو مکا مگر خیر سے جہاں خان سا انصاف پسند بھائی ہو وہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ محض ایک بہن کو اپنی محبت کا محور بنائے اور دیگر کو اپنی شفقت سے محروم رکھے۔

واللہ عالم دیگر سلائی مشینیں بھی سامنے آ جائیں یعنی
مخفی ہیں ابھی درہم و دینار ہمارے

صاحب، دنیا کچھ کہتی رہے، کتنے ہی ثبوت لے آئے کہ ملک کے متنازعہ ترین چیف جسٹس کا خان صاحب کو صادق و امین کہنا، ان القابات کی ہتک ہے۔ یہ بھی مسلم ہے کہ خان کے سدھائے حامی کسی حال یہ حقیقت تسلیم نہیں کریں گے۔

ہو گا عارف نقوی بین الاقوامی عدالتوں میں ثابت شدہ مجرم لیکن جب خان صاحب فرماتے ہیں کہ جس اسرائیل نے ان کے خلاف سازش کر کے انہیں عہدے سے برطرف کروایا ہے وہی صیہونی طاقت عارف نقوی جیسے کامیاب مسلمان بزنس مین کو تھوڑی سی منی لانڈرنگ کے الزام کی آڑ میں تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے، تو یہی سچ ہے، بس! عمران خان جیسا ڈٹ جانے والا۔ اصول پسند۔ نہ جھکنے والا۔ نہ بکنے والا۔ خلافت راشدہ کے طرز حکومت کو رائج کر کے ریاست مدینہ تشکیل دینے والا۔ گفتار کا غازی۔ کردار کا تازی۔ پنج وقتہ نمازی یعنی کہ نیازی نہ کبھی غلط کام کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی بے ایمان شخص سے ہاتھ ملا سکتا ہے۔ عمران اور عارف دونوں اسی جرم کی پاداش بھگت رہے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔

اسلام دشمن بھلا یہ کیسے برداشت کرتے؟ ان کے سینوں پے سانپ لوٹ رہے تھے، کسی کل چین تھا نہ کسی کروٹ سکون، وحشت سے بھوک پیاس سب غارت اور جینے کا مزہ اکارت ہوا جاتا تھا کہ یہ مرد آہن۔ مرد مجاہد جو مشتعل ہو تو اپنی ہی قوم پے بم مار دینے کی صلاح دیتا ہے گر دل میں سمائی تو نجانے ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے؟ جب اکبر ایس بابر۔ جہانگیر ترین۔ فوزیہ قصوری جیسے دیرینہ اور مخلص رفقاء سے منہ موڑ سکتا ہے تو کیا ہم سے سابقہ سسرالی ہونے کے ناتے نرمی برتے گا؟

ناممکن! تو اس خوف سے لرزتی تمام اسلام دشمن قوتیں سر جوڑ کے بیٹھیں کہ کس طرح خان کو گرایا جائے۔ دوران مشاورت جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں، کسی نے کہا، خان کو کسی پری وش کی زلف کا اسیر کر کے غرض پوری کی جائے۔ سب نے متفقہ انکار کیا کہ وہ دن گئے جب یہ خوبرو میدان اور زنان دونوں کھلاڑی تھا جب سے ہدایت یافتہ ہوا ہے، بہت محتاط ہے۔ دوسرا بولا، تو زمین جاگیر، مال و متاع، ہیرے جواہرات سے مالا مال کر کے قابو کرتے ہیں۔

اس پر بھی سب نے تاسف سے انکار کیا کہ اس کے لئے اسے ہماری حاجت نہیں، اراضی۔ ہیرے۔ توشہ خانہ۔ بی آر ٹی پشاور۔ مالم جبہ اور بزدار کی ماہرانہ کارکردگی کے ذریعے سب ہی کچھ میسر ہے۔ تمام کے چہرے اتر گئے، کسی طور کوئی ترکیب نہ سوجھی کہ کیسے اس جوان رعنا کو شکنجے میں جکڑ سکیں۔ ایسے میں سود کار ادارے نے یک دم کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس نے حکومت سنبھالتے ہی دنوں میں ہم سے اتنا ادھار لیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔

آپ اطمینان رکھیں یہ چاہے بھی تو ہمارے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا۔ اس کی پالیسی کی بدولت معیشت قریب المرگ ہے، معاشیات کے قل پڑھے جا رہے ہیں اور رہی عوام تو پہلے زخم خوردہ تھی اب جاں بلب ہے۔ یوں ایک بین الا اقوامی سازش رچی گئی۔ طاقتور ترین ملک کے ایک سینئر افسر نے مطالبہ کیا کہ آپ خان کو گھر بھیج دیں تو ہم آپ سے راضی ہو جائیں گے۔ اب یہ بات کہیں ریکارڈ نہیں، نہ ویڈیو نہ آڈیو، نہ کوئی دستاویز۔ کچھ ہے تو ایک پاکستانی سفارتکار کا ایک مراسلہ جو کہ اب تک عوام کو دکھایا بھی نہیں گیا۔

جنھوں نے وہ مراسلہ دیکھا وہ کہتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے آئین کے مطابق مروجہ طریقے سے خان صاحب کو وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کیا گیا ہے کیونکہ سچ کہیے تو اسرائیل کو نہ ہم سے خطرہ نہ بیساکھیوں پے کھڑی خان کی حکومت سے جو ایک پھونک سے ایسے بکھری جیسے تاش کا محل۔ گو کہ محل کے در و دیوار ڈھے گئے تاہم اس کی نیو ڈالنے والوں کی محبت اب بھی قائم ہے کہ ہنر ان کا بھی شامل ہے محل کی زرنگاری میں، یہ سرپرستی جو پہلے پہل پس پردہ تھی اب سر بازار سرکردہ و سرگرم ہے۔

ملک کے کئی ادارے اس کی لپیٹ میں یوں آئے کہ قومی حمیت اور کرسی کے وقار پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ جس خطا پر اوروں کو سخت تعزیر تھی اسی کو لاڈلے کی شرارت سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ جتنے منہ اتنی باتیں بہر طور جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ صریحاً ملکی سیاست ہے۔ مگر چند ناعاقبت اندیش یہ مفروضہ بھی گھڑ لائے ہیں کہ یہ دو پہلوانوں کی لڑائی ہے جو ایوانوں میں لڑائی جا رہی ہے۔ اس من گھڑت کہانی کے ساتھ پاکستان کے دو پیارے شہر نتھی کر دیے گئے ہیں یعنی راول پنڈی اور پشاور۔

خدا سمجھے جھوٹ کے پشتارے باندھنے والو کو! بقول کپتان بحیثیت ایک درد مند پاکستانی اگر ان کا ساتھ نہ دیا تو نہ دنیا کو منہ دکھا پائیں گے نہ قبر میں جواب دے پائیں گے بلکہ دائرۂ ایمان سے بھی باہر ہی شمار ہوں گے۔ اس اسلامی ٹچ پر میرا ٹچی دل دہل گیا۔ بہت غور کے بعد ایک ہی نتیجہ ہاتھ آیا۔ خان صاحب کی سیاست کے تین ہی نکات ہیں، تنقیدی۔ تبدیلی۔ تکفیری، اللہ اللہ خیر صلا۔ تعمیری و تاثیری سے کوئی علاقہ نہیں۔ ابھی سپریم کورٹ یعنی عدالت عالیہ میں اس فیصلے کو مزید حجت و جرح کے لئے لے جایا جائے گا۔ دیکھئے، کون بازی مارتا ہے، انصاف یا تحریک انصاف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments