سب سے پہلے پاکستانی


ریاست کے کئی اجزاء ہوتے ہیں جن میں سے ایک ’’خطۂ زمین‘‘ بھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان نام کی ریاست میں روزِ اول سے ریاست کے اسی جُزو کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ریاست کے باقی اجزاء، یعنی ’’انسان‘‘ اور’’ آئین‘‘ کبھی ہماری اولین ترجیح نہ بن سکے،اسی لئے آپ نے اکثر سنا ہو گا ’’ملک کے چپے چپے کا دفاع کیا جائے گا‘‘، آ پ نے غالباً یہ نعرہ کبھی نہیں سنا ہو گا کہ ریاستِ پاکستان کے ایک ایک شہری کا دفاع کیا جائے گا، ہم نے’’مقدس سرزمین‘ ‘کی اصطلاح تو بارہا سنی ہے، مگر ’’مقدس شہری‘‘ کی ترکیب ہمارے لئے اجنبی ہے۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اچھا نعرہ ہے مگر ’’سب سے پہلے پاکستانی‘‘کا عزم کبھی ظاہر نہیں کیا گیا، پاکستان کی ریاست تو بہت سے اجزاء سے مل کربنی ہے،لیکن اس کہانی کا مرکزی کردار پاکستانی شہری ہیں،جیتےجاگتےانسان، افتادگانِ خاک، جنہیں آسودہ حال بنانے کیلئے یہ ریاست وجود میں آئی تھی، مبینہ طور پر ان کے تحفظ، تعلیم، علاج اور معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کیلئے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، مگرغالباً انسان ایک بہانہ تھے جنہیں ہم نے آغاز میں ہی فراموش کر دیا، ہمیں زمین مطلوب تھی، سو ہم نے حاصل کر لی، اور اس ارضِ پاک کو کنالوں میں بانٹ دیا۔

یہ پچھتر سال کی کہانی ہے، یہ حکومتوں کا نہیں ریاست کا مسئلہ ہے جس کی ترجیحات میں پاکستانی دوپائے دور دور تک نظر نہیں آتے۔ آئے دن کوئی واقعہ ہوتا ہے جسے ارضِ پاک میں انسان کی ارزانی کا اشتہار قرار دیا جا سکتا ہے، مین ہول میں بچے گرتے ہیں، پولیس اور مجرموں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے جس میں کوئی بیگناہ راہگیر ہلاک ہو جاتا ہے، کھمبوں میں کرنٹ آ جاتا ہے،میلوں میںکمسن بچوں سے لدے جھولے گرتے رہتے ہیں ، لوگ ناروا مرتے رہتے ہیں، پاکستان چلتا رہتا ہے، کیوں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے ہے، پاکستان ایٹمی قوت ہے اور اس کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔مگر دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے عوام کا دفاع کس کے ہاتھوں میںہے، کوئی نہیں بتاتا۔لاچار پاکستانیوں کو غربت، جہالت اور بیماری کے عفریت بھنبھوڑ رہے ہیں، انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ ’’رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف …..آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘

ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے، شمال سے جنوب تک قیامت کا منظر ہے،بلوچستان ڈوب گیا یعنی بلوچی ڈوب گئے، سندھ میں سیلاب نے تباہی مچا دی یعنی لاکھوں سندھی تباہ حال ہو گئے،خیبر پختون خواکی کئی بستیاں سیلاب لے گیا، جنوبی پنجاب میں لاکھوں انسان بے گھر ہو گئے، انسانوں کی لاشیں پانی میں تیرتی پھرتی ہیں، جو زندہ بچے ہیں وہ بے یارومددگار آسمان کو تکتے ہیں، ’’میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر…کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر‘‘۔ کوئی حالت نہیں ہے، کوئی نظام نہیں ہے، ہم بے آب وگیاہ پہاڑوں کا دفاع تو جاں فشانی سے کرتے ہیں ان پاکستانیوں کا دفاع کس نے کرنا تھا؟

کلائمیٹ چینج ایک دن میں تو نہیں ہوا، دہائیوں سے ہمیں معلوم ہے کہ یہ خطرہ ہماری سمت بڑھ رہا ہے، ہمیں معلوم تھا کہ موسم کی گردشیں بدل جائیں گی، گرمی زیادہ پڑے گی، گلیشیر پگھلیں گے، بارشیں بہت زیادہ ہوں گی، تو آخر وہ وقت آن پہنچا، سیزنز بدل گئے، گلیشیر پگھل گئے، بارشیں بے رحم ہو گئیں، اورہم تماش بینوں کی طرح یہ منظر دیکھتے رہے، صرف ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ پر کانفرنسیں کرنے سے یا این ڈی ایم اے بنا دینے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا، سو نہیں ہوا۔ہم تماشا دیکھتے دیکھتے خود تماشا بن گئے لیکن باز اب بھی نہیں آئے، ٹائی ٹینِک ڈوب رہا ہے اور عرشے پر باوردی بینڈ یک سوئی سے اپنی من پسند دھن بجا رہا ہے، میڈیا ڈوبتا ہوا جہاز بھول کر دُھن کے ساتھ کورس میں گنگنا رہا ہے، شہباز گِل مٹن کھا رہا ہے، شہباز گِل نے مونچھیں بہ خوشی رکھی ہیں یا بالجبر، شہباز گِل نوٹنکی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ افسوس ہمیں شورِ محشر بھی نہیں جگا سکا۔یہ کسی ایک حکومت کا قصور نہیں ہے، یہ اس مرکزہ کا شاخسانہ ہے جس کے گرد یہ ریاست بُنی گئی ہے ، اور یہ نیوکلئیس بہرحال پاکستان کے شہری نہیں ہیں ۔ اگلی مرتبہ جب خدانخواستہ ایسی کوئی آفت آئے گی یہ ریاست تب بھی اس سے نپٹنے کے لئے تیار نہیں ہو گی جب تک کہ’ ـ’شہری کا بھلا ‘‘ اس ملک کے قیام و بقا کے بنیادی اصول کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

اب ایک نظر تند رو سیلِ سیاست کے تھپیڑوں پر بھی ہو جائے، یہاں بھی تباہی کا لگ بھگ وہی منظر ہے، یہاں بھی شہری ’’ایکسٹرا‘‘ کا کردار نبھا رہا ہے، آزادی کے پچھتر سال میں سے تقریباً آدھا وقت تو کسی نے اس کی رائے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی، اورجب کبھی اسے رائے دینے کی آزادی ملی تو اس کے راہ نما کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہ مل سکی، یعنی کبھی ووٹر غائب ، کبھی لیڈر غائب، دونوں کا مقصود ایک ہی رہا، شہری کی رائے نہیں ماننی، ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔کرا چی کے ایک حلقہ میں پچھلے ہفتے انتخاب ہوا، پانچ فی صد ووٹ لینے والا امیدوار انتخاب جیت گیا، لگ بھگ نوے فی صدووٹرز نے ووٹ ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ کیا آج بھی اس شہر میں الطاف حسین کی اپیل پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے؟ ہم اس کا جواب نہیں جانتے، لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ اگر عمران خان کو اپنی ’’گستاخیوں‘‘ کے باوصف پاکستان میں سیاست کرنے کی اجازت ہے تو الطاف حسین کو بھی ہونی چاہئے، علی وزیر کو بھی ہونی چاہئے، اور میاں محمد نواز شریف کو بھی ہونی چاہئے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments