ایگوانہ کے ملکوں میں


فن اور شاعر ایسی طاقت ور قوتیں ہیں جو نا امیدی کی صورت حال میں امید کا دیا جلائے رکھتی ہیں۔ جس طرح چارلس ڈکنز کو پڑھے بغیر انیسویں صدی کے انگلستان کو سمجھنا مشکل ہے اسی طرح اگر آپ بیسویں صدی کے امریکا کو سمجھنا چاہیں تو اس کے تین عظیم ترین ڈراما نگاروں آرتھر ملر، یوجین اونیل اور ٹینی سی ولیمز کو پڑھے بغیر ایسا نہیں کر سکتے۔

یہ بات بحث طلب ہے کہ تینوں میں سب سے اچھا کون ہے مگر یہاں ہم صرف ٹینی سی ولیمز پر کچھ بات کریں گے۔ گو کہ اس کے ڈرامے مثلاً آ اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر ( A Streetcar Named Desire ) اور کیٹ اون آ ہاٹ ٹن روف ( Cat on a Hot Tin Roof ) کو بڑی پذیرائی ملی مگر ان کے کھیل دا نائٹ آف دی ایگوانہ ( The Night of the Iguana ) پر نقادوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ تینوں ڈرامے جب فلم شکل میں پیش کیے گئے تو بہترین نتائج برآمد ہوئے اور فلم بینوں نے انہیں بہت سراہا۔

میرے خیال میں فلم کیٹ اون آ ہاٹ ٹن روف ( Cat on a Hot Tin Roof ) سب سے اچھی تھی جس میں الزبتھ ٹیلر اور پال نیو مین نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس کے بعد آ اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر ( A Streetcar Named Desire ) کا نمبر آتا ہے جس میں مارلن برانڈو اور ویوین لی نے اعلی اداکاری کی اور پھر میں فلم دا نائٹ آف دی ایگوانہ ( The Night of the Iguana ) کو رکھوں گا جس کے مرکزی اداکار ایوا گارڈنر اور رچرڈ برٹن تھے۔

مگر یہاں ہم اسی آخری فلم کا تذکرہ کریں گے۔

اعلی ادب اور تخلیقی فنون زمان و مکان کی حدود کو پار کر جاتے ہیں۔ ٹینی سی ولیمز ایسا ہی ایک قلم کار تھا جس کے کردار اور موضوعات اپنے ملک کی سرحدوں اور اپنے دور کی کیفیات سے آگے نکل چکے ہیں۔ وہ بیسویں صدی کے وسط کے امریکا یا میکسیکو میں بھی ویسے ہی رہے ہیں جیسے آج کے پاکستان یا بھارت میں۔

انہیں ہم ایگوانہ کے دیس کہہ سکتے ہیں۔ ایگوانہ دراصل ایک بڑا چھپکلی نما جانور ہوتا ہے جو جنگلوں میں آزاد پھرتا ہے مگر اس کے ساتھ مختلف قصے وابستہ ہیں اس لیے لوگ اسے پکڑ کر رکھتے ہیں اور بعض ممالک میں انہیں پکا کر کھایا بھی جاتا ہے۔

ٹینی سی ولیمز ایگوانہ کو ایک علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر نقادوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں ایگوانہ انسانی جوش و جذبے کی علامت ہے۔ اس ڈرامے اور فلم میں ہمیں ایگوانہ بندھی ہوئی نظر آتی ہے جس پر سماجی قوتوں نے قدغنیں لگائی ہوئی ہیں یعنی انسانی جوش و جذبہ جو کھلا رہنا چاہیے اسے بند کر دیا گیا ہے۔

ڈرامے اور فلم کے اسکرین پلے میں یقیناً کچھ فرق ہیں۔ ڈرامے میں ایک پرانا ہوٹل دکھایا گیا جو میکسیکو کے ساحلی علاقے میں واقع ہے۔ جب کہ فلم آپ کو مختلف جگہ لے جاتی ہے کیوں کہ ہدایت کار جان ہوسٹن کیمرے کے ساتھ مختلف مقامات پر کھیلتے ہیں اور فلم میں جان ڈال دیتے ہیں۔

ڈرامے کے آغاز میں ایک سابق پادری کچھ عمر رسیدہ عورتوں کو لے کر ساحلی ہوٹل آتا ہے۔ یہ خواتین امریکی ہیں اور تفریح میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ہوٹل میں ایک ایگوانہ بندھی ہوئی ہے اور مسلسل رسی کو کھینچ رہی ہے۔

جب کہ فلم کا ابتدائی منظر ڈرامے سے خاصا مختلف ہے اس میں رچرڈ برٹن ایک پادری ہے جو ایک کلیسا میں خطبہ دے رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پادری ساری مذہبی قیادت کی نمائندگی کر رہا ہے۔ جو مخبوط الحواس ہے جو کہتا ہے وہ خود نہیں سمجھتا۔ یعنی خطبات کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا پھر بھی مذہبی پیشوا خطاب کیے چلے جاتے ہیں۔ فلم کا پادری خود اپنے عقائد پر مکمل ایمان نہیں رکھتا مگر ایک خود اعتمادی کی فضا قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

جب خطبہ آگے بڑھتا ہے تو پادری خود کو شدید دباؤ میں محسوس کرتا ہے اور بڑبڑانے لگتا ہے۔ خود اپنے خطبے پر اس کے شکوک بڑھ جاتے ہیں اور وہ توجہ نہیں دے پاتا۔ اس کے سامعین حیران و پریشان ہو جاتے ہیں تو پادری چلانے لگتا ہے اور غصے میں ایسی باتیں کرتا ہے جو کسی پادری کو زیب نہیں دیتیں۔ وہ کہتا ہے۔

” میں کسی ایسے جبار و قہار بوڑھے آدمی کی شان میں قصیدے نہیں پڑھ سکتا جس پر تم لوگ ایمان رکھتے ہو۔ تم لوگوں نے محبت کے خداؤں سے منہ موڑ لیے ہیں اور اپنے لیے ایسے ظالم جابر اور نیم پاگل خدا تخلیق کیے ہیں جو خود دنیا پر الزام دھرتے ہیں اور ان لوگوں پر جو خود انہوں نے تخلیق کیے ہیں جن کے بنانے میں خود خدا کی غلطی شامل ہے“

” اپنی کھڑکیاں بند کرلو، دروازے بند کرلو اور دلوں پر تالے لگا دو“

ظاہر ہے اس کے بعد پادری اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر کلیسا سے اپنی برطرفی تسلیم نہیں کرتا اور یہ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اب بھی پادری ہے۔ خود اپنے جذبات کو کچلتا رہتا ہے پھر اسے سیاحوں کے گائڈ کی نوکری مل جاتی ہے جس میں وہ میکسیکو جاتا آتا رہتا ہے۔ سیاحوں کی رہ نمائی سے اسے ایک خاص تسکین ملتی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ مذہبی پیشوا ہر حالت میں خود کو دوسروں کا رہ نما برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

ٹینی سی ولیمز نے اپنے کردار کو ایسا بنایا ہے کہ وہ مسلسل بڑبڑاتا رہتا ہے اور گنجلک دماغ کا مالک ہے۔ اس ڈرامے میں سوائے ایک کے تمام عورتیں بڑی عمر کی ہیں۔ صرف ایک نوجوان لڑکی ہے جو پادری کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ اس سیاحوں میں ایک خاتون اس نوجوان لڑکی کی سرپرست ہے اور اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔ ساتھ ہی وہ تمام سیاحوں کی قیادت کرنا چاہتی ہے اور پادری کو بھی ڈراتی دھمکاتی رہتی ہے۔

وہ بوڑھی خاتون ہے ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ کہ جو ہر فرد اور ہر چیز پر کڑی نظر رکھنا چاہتی ہے۔ بظاہر وہ مادرانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہے مگر دراصل وہ ایک ولن ہے جو دوسروں کی آزادی کو ناپسند کرتی ہے اور خود کو دوسروں کا محافظ سمجھتی ہے۔ وہ تفریح کے رنگ میں بھنگ ڈالتی رہتی ہے۔ وہ روایات کی پاسبان ہے جو نام نہاد اقدار کے لیے لڑ مرنے کو تیار ہے۔ اس کا وقت گزر چکا ہے مگر پھر بھی وہ دوسروں کے سفر کی سمت کا تعین کرنے پر بضد ہے۔

فلم میں ہم دیکھتے ہیں کہ میکسیکو کے ایک دیہی قصبے میں ایک کھٹارا بس میں سفر کرتے ہوئے سیاح جا رہے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سڑک کے کنارے مقامی لوگ ایگوانہ پکڑے کھڑے ہیں۔ قطار اندر قطار لوگوں نے ایگوانہ باندھ کر ہاتھوں سے اوپر اٹھائی ہوئی ہے۔ وہ یہ ایگوانہ غیر ملکیوں کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔

یہ ایگوانہ جو انسانی جوش و جذبے کی علامت ہیں مقامی تاجروں کے ہاتھوں بندھی ہوئی ہیں۔ تاجر انہیں مناسب قیمت پر بیچنے کو تیار ہیں۔ ہر طرف ایگوانہ نظر آتی ہیں جو پکا کر کھائی بھی جا سکتی ہیں۔ جب بھی کوئی ایگوانہ نظر آتی ہے مقامی لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ پکڑ کر بند کر سکیں۔ اس کے لیے جال بھی پھینکے جاتے ہیں اور پھندے بھی لگائے جاتے ہیں۔ ایگوانہ کا دیس انسانی جوش و جذبے سے بھر پور ہے مگر اس جذبے کو کس بھی وقت پکڑ کر باندھ جاسکتا ہے۔

کھٹارا بس میں پادری اور بوڑھی عورت سرد جنگ لڑ رہے ہیں۔ یعنی مذہبی پیشوا اور اسٹیبلشمنٹ ہلکے پھلکے دست و گریباں ہیں جیسا کہ پاکستان جیسے کئی ملکوں میں ہوتا ہے۔

ان ملکوں میں انسانی جوش و جذبہ بھرپور ہے مگر اسے ہر جگہ خطرات لاحق ہیں۔

بس میں پادری بوڑھی عورت کی حکم عدولی کر کے بس کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اسے تیز رفتاری سے چلاتے ہوئے ایک ایسے راستے پر لے جاتا ہے جہاں کوئی نہیں جانا چاہتا۔ صرف اس لیے کہ اس پرانے ہوٹل میں پادری کو سکون ملے گا۔ وہ بس اور اس کی عورتوں کو بند گلی میں لے جاتا ہے۔ ہوٹل کی مالک ایک ادھیڑ عمر کی عورت ہے جس کے ساتھی مقامی لڑکے ہیں۔ ہوٹل کی مالک عورت ایک ایسے کاروباری طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جس نے بھی ایگوانہ کو باندھ رکھا ہے تاکہ مہمان لطف اندوز ہو سکیں۔

ایگوانہ کو کھلایا پلایا جاتا ہے مگر وہ بندھی رہے گی۔ وہ کاروباری عورت جس کا کردار ایوا گارڈنر نے بخوبی ادا کیا ہے۔ پادری یعنی رچرڈ برٹن کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہے۔ اب بوڑھی عورت یعنی اسٹبلشمنٹ اور ہوٹل ملک یعنی کاروباری طبقہ اور پادری یعنی کسی بھی معاشرے کے نام نہاد مذہبی رہ نما ایک طرح کی کھینچا تانی میں ملوث ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے پر برتری حاصل کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی رسہ کشی ہم اکثر ملکوں میں دیکھتے ہیں۔ جہاں ایگوانہ بندھی ہوتی ہے اور انسانی جوش و جذبے کو بہت چھوٹی رسی سے قید رکھا گیا ہے یعنی وہ زیادہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔

اب ڈرامے اور فلم میں دو اور بڑے دل چسپ کردار داخل ہوتے ہیں۔ ایک مصور اور ایک اس کا دادا شاعر۔

مصور ایک خوب صورت عورت ہے جس کا کردار ادا کارہ ڈیبرا کار نے ادا کیا جب کہ بوڑھا شاعر قریب المرگ ہے۔ یہ دونوں ہی اس صورت حال میں کچھ تبدیلی کا باعث بنیں گے۔

مصوری اور شاعری ایسے فن کار ہیں جو نا امیدی کی صورت حال میں امید کی کرن لے کر آتے ہیں۔ یہ خاتون مصور اور اس کا دادا شاعر ایک طرح سے خانہ بدوش ہیں اور جگہ جگہ گھوم پھر کر لوگوں کو اپنی تصویروں اور شاعری سے محظوظ کر کے کچھ رقم کماتے ہیں جس سے ان کا گزارہ چلتا ہے۔

یہ دونوں کوئی بڑے فن کار نہیں ہیں مگر ان میں صلاحیت موجود ہے کہ وہ اذیت میں پھنسے لوگوں کو کچھ سکون فراہم کر سکیں۔ بوڑھی عورت یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ ان آزاد صفت مصور اور شاعر کو پسند نہیں کرتی کیوں کہ وہ خود سب پر قابو رکھنا چاہتی ہے اور پادری کو بھی من مانی نہیں کرنے دیتی۔

اسی طرح کاروباری عورت یعنی کہ ہوٹل کی مالک بھی انہیں پسند نہیں کرتی کیوں کہ اس کے لیے اپنے مفادات ہیں جن پر شاعری اور مصوری سے ضرب پڑ سکتی ہے۔

اب بوڑھی عورت کے ہاتھ سے کھیل نکلتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے اور بس اور سیاحوں کو لے کر ہوٹل سے روانہ ہوجاتی ہے۔ پادری پھر بڑبڑانے لگتا ہے تو ہوٹل کی مالک اپنے ملازم لڑکوں سے اسے پکڑ کر بندھوا دیتی ہے۔ بندھے بندھے پادری کے گلے میں لٹکی صلیب اس کی گردن پر پھندا ڈال دیتی ہے جس سے وہ پادری مر سکتا ہے مگر بالآخر مصور اس کی مدد کو آتی ہے اور صلیب کا لاکٹ نکال کر پادری کو آزاد کرتی ہے۔ ایک مرحلے پر پادری کہتا ہے۔

” ایک آدمی کے پاس تھوڑا ہی جذباتی بینک بیلنس ہوتا ہے اور میرا یہ بیلنس ختم ہو چکا ہے۔ یہ بالکل خالی ہو چکا ہے۔ اب میں اپنے جذباتی بینک بیلنس سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ اب میں جذبات سے عاری ہوں“

یہ ہی آپ کا مذہبی طبقہ ہے۔ مصور پادری کو اکساتی ہے کہ وہ ایگوانہ کو آزاد کردے جو چلاتے ہوئے رسی کھینچ رہی ہے اور آزاد ہونا چاہتی ہے۔ اسے آزاد کر کے پادری کہتا ہے ”میں نے ابھی خدا کی ایک مخلوق کو رسی سے آزاد کیا ہے تاکہ وہ قید و بند سے نکلے اور بھاگتی دوڑتی اپنے گھر جائے اور آزادی سے گھومتی پھرے“

مصور کو اپنے دادا کی شکل میں ماضی سے رابطہ ملتا ہے مگر بوڑھا شاعر اپنی آخری نظم سنا کر مر جاتا ہے اور آخر میں مصور اپنے سفر پر روانہ ہوجاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments