مردوں نے بنائیں جو رسمیں، ان کو حق کا فرمان کہا


ہمارے والد بتایا کرتے تھے کہ ان کے بچپن میں دہلی میں ان کے خاندان کی خواتین تقریبات میں شرکت کے لئے ڈولی میں بیٹھ کر جاتی تھیں جنہیں کہار اٹھا کر چلتے تھے، اس کے بعد شٹل کاک نما برقعے پہنے جانے لگے۔ قیام پاکستان سے کچھ پہلے اسکول اور کالج جانے والی لڑکیوں نے کالے برقعے پہننا شروع کر دیے تھے جنہیں فیشن ایبل سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں امی اور رشتے کی خالاؤں کو کالے برقعے پہنے دیکھا لیکن جلد ہی ان سب نے برقعے پہننا چھوڑ دیے تھے۔

اکبر الہٰ بادی تو پاکستان بننے سے پہلے ہی کہہ گئے تھے کہ عورتوں کا پردہ مردوں کی آنکھوں پر پڑ گیا ہے ۔ فرسودہ رسموں کو برقرار رکھنے کے لئے اسی طرح کے طعنوں سے کام لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والے نوجوان تھے جو مغرب کی ترقی کو دیکھ رہے تھے اور سائنس کی اہمیت کو سمجھ رہے تھے۔ وہ پرانے رسوم و رواج سے بیزار تھے۔ ان کا رول ماڈل محمد علی جناح تھے جو ایک ماڈرن انسان تھے۔ پاکستان ان نوجوانوں کے لئے خوابوں کی سرزمیں تھا جب کہ برصغیر کے مسلمان مذہبی علما پاکستان کے قیام کے مخالف تھے۔ صرف شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی حمایت کی تھی۔

مذہبی علما پردے کے زبردست حامی تھے جب کہ نوجوان مجاز کا یہ شعر گنگناتے رہتے تھے : تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن۔ تو اس آنچل سے یک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔ نوجوانوں کا خیال تھا اور محمد علی جناح نے بھی بارہا اس کی تائید کی کہ قومی ترقی کے لئے عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا ہو گا مگر مذہبی علما عورتوں کو گھروں میں بند رکھنے یعنی پردے میں رکھنے کے حامی تھے۔ اور نوجوان سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ ہی عورتوں کو چار دیواری اور پردے میں رکھنا ہے۔ علما کا کہنا تھا کہ عورتوں کو پردہ کرانا خاندانی وقار اور عورتوں کی عزت و ناموس اور جنسی پاکیزگی کے لئے ضروری ہے۔ عورتیں کمزور ہوتی ہیں اور مردوں کی جنسی پیش قدمی کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں۔ اس لئے انہیں مردوں کی ہوس اور دست درازی سے بچانا ضروری ہے۔

”پردہ دونوں صنفوں کے درمیان فرق کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یعنی مرد میں خود انحصاری اور جارحیت ہوتی ہے۔ عورتیں کمزور، غیر ذمہ دار ہوتی ہیں اور انہیں تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پردہ ہمارے دہرے اخلاقی معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عورت کا باکرہ اور وفادار ہونا ضروری ہے جب کہ مرد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے۔ لوگ مرد کی ہم جنسیت یا محرمات سے جنسی تعلقات سے اتنا خوف نہیں کھاتے جتنا عورت کے کسی کے ساتھ جنسی تعلقات سے خوف کھاتے ہیں۔“ (ایلزبتھ ایچ وہائٹ)

1940 میں جب برصغیر میں تحریک آزادی عروج پر تھی، اسی سال مراکش کے شہر فیض میں فاطمہ مرنیسی پیدا ہوئی۔ وہ عورتوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کے بارے میں لکھتی رہی ہیں۔ انہوں نے اسلام اور عورتوں کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ مسلم عورتوں کے ساتھ نا انصافی اور عدم برابری کے تصورات کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ اپنی کتاب Beyond the veilکے پہلے باب میں وہ عورتوں کی سرگرم جنسی فعالیت کے اسلامی تصور کے حوالے سے پوچھتی ہیں : ”مرد عورتوں کو زیادہ پر کشش پاتے ہیں یا ان کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں (یعنی عورتوں کو مردوں پر اس حوالے سے طاقت حاصل ہے ) اس بات سے خوف کیوں کھایا جاتا ہے؟

یہ کیوں تصور کیا جاتا ہے کہ مرد ایک آزاد عورت کی جنسیت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا؟ تو کیا پھر یہ مان لیا جائے کہ عورتوں کی جنسی استعداد مردوں سے زیادہ ہوتی ہے؟“ فاطمہ مرنیسی پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ مغربی مفکرین سے زیادہ متاثر ہے اور بائبل کے حوالے دیتی ہے۔ لیکن وہ وہ اجتہاد پر بھی زور دیتی ہے یعنی قرآن اور سنت کی ازسر نو تفسیر اور تشریح۔

کولمین ( 2010 کے مطابق پدرسری اور مذہبی قدامت پسندوں نے دنیا بھر میں اور ہر عہد میں عورتوں کے خلاف سازش کی ہے اور خاص طور پر جدید مشرق واسطے میں اس کی جڑیں زیادہ مضبوط ہیں۔ باہر کی دنیا میں عورتوں کے کردار کو محدود کرنے اور صنفی علیحدگی کو مذہبی رویوں سے مدد ملتی ہے۔

اس وقت عالم اسلام میں بہت سی حکومتوں کے لئے اقتصادی ضروریات، سیاسی غصہ اور سماجی مایوسی کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق بھی ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ثقافتی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر عورتوں کے حقوق کو آگے بڑھانا آسان نہیں۔ بہرحال عالم اسلام میں درج ذیل رجحانات نظر آتے ہیں :

1۔ عورتیں اپنے لئے سیاسی آواز حاصل کرنے کی کوشش اور مطالبہ کر رہی ہیں۔ 2۔ عورتیں زیادہ تعلیمی اور اقتصادی مواقع کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 3۔ اب سیکولر اشرافیہ کی جگہ عوامی اسلامی تحریکیں اور طبقاتی مسائل زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ 4۔ عورتیں قانونی حقوق حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، خاص طور پر عائلی قانون کے حساس معاملات کے حوالے سے۔ 5۔ نیا میڈیا معاشرے میں عورتوں کے کردار کے حوالے سے عوام کے تصورات تشکیل دے رہا ہے۔

ان رجحانات کے بڑھنے سے عورتوں کو معاشرے میں اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر بھرپور شراکت کا موقع ملے گا۔ مسلم معاشروں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مذہبی اقدار اور عورتوں کے حقوق کے باہم تصادم کے بغیر عورتوں کو با اختیار بنایا جائے۔ حالیہ سالوں میں اسلام سیاسی سطح پر ابھرا ہے۔ اسلامی/عرب اور مسلم اکثریت والے معاشروں کی عورتیں اسلامی کمیونٹی میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں تا کہ ان کی آواز سنی جا سکے لیکن رسوم و رواج نے جو عورت کو کم تر مرتبہ دیتے ہیں، سیاسی اسلام کے ابھار اور اسلامی تحریکوں نے ترقی کا راستہ روکا ہوا ہے۔ حکومتیں بھی عورتوں کی نا برابری کو ختم کرنے کے لئے ترقی پسند پالیسیاں بنانے سے گریزاں رہتی ہیں۔ اور اکثر تو عورتوں کو دبانے کی پالیسیوں پر ہی عمل پیرا رہتی ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں میں عورتوں کی تعلیم کی شرح میں اضافے کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے اسلامی ممالک میں تنخواہ یا اجرت پر کام کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے، کچھ لوگ اس کا ذمہ دار پردے کو ٹھہراتے ہیں جب کہ کچھ کے خیال میں اس کی وجہ تعلیم اور مہارت کی کمی ہے۔

اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو اٹھارہویں صدی کے اواخر میں خاص طور پر صنعتی انقلاب اور دونوں عالمی جنگیں عورتوں کی آزادی کی تحریک کے لئے قوت محرکہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت عورتوں کے لئے تعلیم کے مواقع، روزگار، قانونی مساوات اور حق رائے دہی کے لئے بہت زیادہ جدوجہد کی گئی۔ جب مغربی عورتوں نے گھر سے باہر نکل کے روزی کمانے کی ذمہ داری سنبھالی تو ان کی اقتصادی طاقت کو تسلیم کر لیا گیا۔

جب عورتوں نے تنظیموں کی شکل میں خود کو متحرک کیا اور اپنی ضروریات کے لئے اجتماعی طور پر آواز بلند کی تب کہیں جا کے دنیا نے فیمنسٹ تحریک کو ایک قوت کے طور پر تسلیم کیا۔ اکثر عورتوں کے حقوق اور آزادی کی مانگ میں صنفی مساوات کی راہ میں چرچ اور مذہبی اداروں کو رکاوٹ قرار دیا گیا۔ کیٹ ملٹ کے بقول مرد دیو مالائی داستانوں اور مذہب کے ذریعے اپنی پدر سری طاقت کو برقرار رکھتے ہیں۔ مذہب کو مردانہ حکمرانی برقرار رکھنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ہمارا ماننا ہے کہ عورت اور مرد پہلے انسان ہیں اس کے بعد مرد یا عورت یا کوئی اور جینڈر ہیں۔ جسمانی طور پر مختلف ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک کمتر ہے اور دوسرا برتر ہے۔ ہاں جسمانی طور پر مختلف ہونے کی وجہ سے ان کی کچھ ضروریات مختلف ہیں۔ عورتوں کے دیگر حقوق کے ساتھ ان کے تولیدی حقوق کو اہمیت دینا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح جب ہم معیشت کی بات کرتے ہیں تو کیئر اکانومی یعنی بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کے لئے ریاستی خدمات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments