صدر عارف علوی کے شہدا کے جنازے میں عدم شرکت کی وجہ


جن دنوں بریگیڈیر تفضل صدیقی، بریگیڈیر صدیق سالک کے پاس آئی ایس پی آر کی کمان تھی، میرا آئی ایس پی آر میں آنا جانا تھا۔ یہ سلسلہ بریگیڈیر صولت رضا اور مرحوم کرنل اے کے چشتی تک ”بادشاہی“ میں بھی جاری رہا پھر بریگیڈیر عتیق کے دور میں بھی صحافتی ضروریات کی حد تک رابطہ قائم رہا اگرچہ میں کبھی ڈیفنس رپورٹر نہیں تھا لیکن میری دفاعی امور میں بے پناہ دلچسپی تھی جب مجھے ڈیفنس رپورٹر بنایا گیا تو میں نے مرحوم سہیل عبدالناصر کی فرمائش پر ان کو ڈیفنس کی بیٹ دے دی کیونکہ وہ ڈیفنس رپورٹر کے طور پر اپنا کیریر بنانا چاہتے تھے۔

بنیادی طور میں ایک پولیٹیکل رپورٹر ہوں اور آج بھی صحافت میں میری پہچان سیاسی تجزیہ کار کی ہے۔ روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کے چیف رپورٹر اور راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر کی حیثیت سے فوج کے ترجمان اور ان کے نائبین سے فون پر رابطہ رہتا رہا ہے۔ پریس کلب کی آزاد روش میں ان کے پیغامات بھی موصول ہوتے رہتے تھے لیکن جب سے دہشت گردی کی واردات میں اضافہ ہوا آئی ایس پی آر تک پہنچنا بھی قدرے مشکل بنا دیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو آئی ایس پی آر کا بھی پرنٹ میڈیا پر انحصار کم ہو گیا الیکٹرانک میڈیا کا نوآموز رپورٹر ہو یا کوئی سینئر اینکر پرسن ان ہی لوگوں کی آئی ایس پی آر تک رسائی بڑھ گئی۔ مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے جنرل ٹکا خان، جنرل حمید گل، جنرل راؤ فرمان علی، جنرل رفاقت، جنرل مرزا اسلم بیگ سمیت متعدد ریٹائرڈ جرنیلوں سے اٹھنا بیٹھنا رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ کمی آئی گئی ہے لیکن فوج کے ساتھ خصوصی تعلق اور محبت میں کمی نہیں آئی

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا مخالف ہونے کے ناتے ہمیں فوج کا حامی ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے جب 12 اکتوبر 1999 ء کو ملک میں پرویزی مارشل لاء لگا تو ہم نواز شریف کا حامی ہونے مطعون ٹھہرے اور فوج مخالف گرداننے کی کوشش کی جاتی رہی ایک بار تو اعلیٰ عہدے پر فائز ایک صاحب نے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے وفد سے میری قیادت میں ملاقات سے معذرت کر لی حقائق یہ ہیں کہ میں ہمیشہ فوج کا حامی رہا ہوں میرے دل میں پاکستان کے اس فوجی افسر اور جوان کے لئے بے پناہ محبت اور عقیدت ہے جو دنیا کے سب سے بلند و بالا برف پوش محاذ جنگ سیاچن پر دشمن کی آنکھوں آنکھیں ڈال کر پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ میرا ہیرو مقبول حسین ہے جسے کشمیر کے محاذ پر بھارت گرفتار کر کے لے گیا اس نے اپنی پوری زندگی بھارت کے عقوبت خانوں گزار دی اس کی زبان کاٹ لی گئی۔ میرے دل میں ان شہدا ء کے لئے سپاس عقیدت ہے جنہوں پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔

میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں یہ کالم کیوں لکھ رہا ہوں میں فوج کے کسی شعبے کا سیاسی امور میں مداخلت کا حامی نہیں رہا اس کردار پر تنقید کی جاتی ہے تو اس میں حدود قیود کا بھی خاص طور خیال رکھا جاتا ہے۔ سلیقے سے کوئی بھی ذی شعور اپنی بات کر سکتا ہے لیکن بات یہاں تک پہنچ جائے کہ جس یوتھیا کو ماں نے دودھ تک نہ پلایا ہو وہ اٹھ کر فوج اور اس کے سربراہ پر انگلی اٹھائے تو یقیناً یہ تکلیف دہ بات ہے۔

ہم 25 جولائی 2018 ء کے انتخابات کے تناظر میں ایک ”لاڈلے“ کو پال پوس کر جواں کرنے اور مسند اقتدار پر بٹھانے کے حوالے سے نکتہ چین رہے ہیں لیکن جب کوئی ناقد حدود و قیود کو عبور کرتا ہے تو اس کا ہاتھ روکنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس کالم کے تحریر کرنے میں کسی ادارے کی آشیرباد حاصل ہے اور نہ ہی اس میں قربت حاصل کرنے کی خواہش۔ کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا اس قدر طاقت ور اور منہ زور بن گیا ہے۔

وہ جس کی پگڑی اچھالنا چاہے کوئی اس کی روک ٹوک نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں پچھلے دنوں اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پلنے والے کچھ اینکر پرسنز کی تقاریر اور وڈیوز دیکھیں تو ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے ادارے اس حد تک بے بس ہو گئے ہیں۔ کسی کے جی میں جو آتا ہے۔ کہہ دیتے ہیں جنرل قمر سعید باجوہ ہماری مسلح افواج کے سربراہ ہیں۔ ان کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کی زبان کیوں نہیں کھینچ لی گئی ہر ”ایرا خیرا“ سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر دے اس کی باز پرس نہ ہو تو یہ مقام حیرت ہے۔

پاکستان میں پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جس کے پاس ملک کا سب سے بڑا سوشل میڈیا نیٹ ورک ہے۔ دوسری جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ جماعت اسلامی جو کبھی نشر و اشاعت کے میدان میں سب سے آگے تصور کی جاتی تھی۔ بوجوہ بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی نے اپنی سوشل میڈیا کی فوج سے سیاسی مخالفین کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم میں کچھ تو عمران خان کے شیدائی ہیں لیکن پی ٹی آئی نے ایک بہت بڑی فوج بھرتی کر رکھی ہے جو سیاسی و غیر سیاسی مخالفین کی پد اڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اس سوشل میڈیا کے سپاہی اس حد تک بے مہار ہو چکے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور پھر ریڈ لائن اس لئے عبور کر دیتے ہیں کہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ایسی ہی واردات کے ایک ملزم کو باز پرس کر چھوڑ دیا گیا جس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ اس کو سزا دینا مقصود نہیں تھا لیکن اس کارکن نے وہ سب کچھ اگل دیا جس کی ہمارے ریاستی اداروں کو ضرورت تھی۔

لسبیلہ کے پاس ہیلی کاپٹر کا حادثہ پیش آیا جس میں کور کمانڈر کور 12 لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی سمیت مسلح افواج کے 6 افسران شہید ہو گئے یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پورے ملک میں غم و الم کی لہر دوڑا دی ہے۔ بالخصوص ہماری مسلح افواج میں اس حادثے پر شدید رنج و غم پایا جاتا تھا۔ اس وقت پوری قوم کی طرف سے مسلح افواج کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ضرورت تھی لیکن اس سانحہ کے بعد ایک سیاسی جماعت جو حال ہی میں اقتدار سے محروم ہوئی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ ”نیوٹرلز“ نے اس کے اقتدار کو بچانے میں کوئی مدد نہیں کی کے بے مہار کارکنوں نے فوج پر اپنا غصہ نکالنا شروع کر دیا اور حادثے کے تناظر میں زہریلا پروپیگنڈا شروع کر دیا اس پراپیگنڈا پر فوج کی جانب سے رد عمل آنا فطری امر ہے۔

فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر منفی مہم سے شہداء کے اہلخانہ کی دل آزاری ہوئی ہے اور افواج میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سانحہ کے تکلیف دہ وقت میں پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی لیکن اس دوران توہین آمیز مہم چلائی گئی۔ فوج کے ترجمان نے بے حس رویہ شدید قابل مذمت ہے۔

دوسری جانب صدر مملکت عارف علوی شہداء کے جنازے میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔ تاہم پروپیگنڈے کے بعد ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے اداروں نے انہیں روک دیا اور کہا کہ بہتر ہو گا شہدا کے جنازوں میں شرکت نہ کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو، شہدا کی فیملیز اور افواج پاکستان کے رینک اینڈ فائل میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔ معلوم ہوا ہے۔ تحریک انصاف ٹرولز کے شہدا سے متعلق زہریلے، جھوٹے اور منفی پروپیگنڈے کے باعث صدرمملکت جنازے میں شرکت نہ کرسکے، صدر مملکت نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ بطور سپریم کمانڈر اور سربراہ مملکت وہ شہید فوجی جوانوں کے جنازوں میں شرکت کے لئے جانا چاہتے ہیں۔

مگر اداروں کی جانب سے صدر مملکت کو آگاہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی ٹرولز کی جانب سے شہدا سے متعلق کیے گئے زہریلے، جھوٹے اور منفی پروپیگنڈے کے باعث شدید غم اور غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ صدر مملکت کو فیڈ بیک دیا گیا کہ بہتر ہو گا۔ وہ شہدا کے جنازوں میں شرکت نہ کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔ صدرمملکت عارف علوی نے نفرت انگیز ٹویٹس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ٹویٹس کرنے والے ہماری ثقافت اور مذہب سے واقف نہیں ہیں۔ شہدا کے جنازے میں میرے شرکت نہ کرنے کے باعث غیر ضروری تنازع کھڑا کیا گیا۔ شہدا کے لواحقین کے غم کا احساس ہے۔ جب شہدا کے گھر والے روئے تو میں بھی رویا، صدرمملکت نے کہا کہ جب قرآن میں بھی شہادت کا ذکر احترام سے کیا گیا ہے تو ہم ان لوگوں کی قربانی کی بے حرمتی کیسے کر سکتے ہیں؟ تمام پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی ساری زندگی شہدا کی تعریف کی ہے۔ مجھے اس بات پہ کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان ان کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے ہی محفوظ ہے اور یہی بات میرا پاکستان پر فخر مزید بڑھاتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ زندہ اور پائندہ رہے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے۔ یہ بدقسمتی کے باعث ہوا۔ یکم اگست 2022 ء کو کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید، ان کے ساتھ میجر جنرل امجد اور بریگیڈیئر خالد تھے۔ ہیلی کاپٹر کے دو پائلٹس اور ایک کریو چیف، ان کے ساتھ تھے۔ وہ فلڈ ریلیف کی کوششوں کو سپروائز کر رہے تھے۔ اس علاقے میں بہت زیادہ تعداد میں پانی تھا اور بہت زیادہ لوگوں کو امداد کی ضرورت تھی۔ اس لئے کور کمانڈر صاحب وہاں خود گئے اور خود اسے سپروائز کر رہے تھے۔

اسی دوران موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہوا، جب وہ ایریا دیکھ کر واپس جا رہے تھے اور حب ڈیم کے پاس تھے تو وہاں پر بارانی طغیانی تھی۔ وہاں پر اچانک موسم تبدیل ہوا جس کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ ہوا، سوشل میڈیا پر کمنٹ دینا بہت ہی بے حسی کا مظہر تھا جس کی وجہ سے پورے ادارے میں ہمارے رینک اینڈ فائل میں خاص طور پر شہداء کے لواحقین کو بہت تکلیف پہنچی، آج کل سوشل میڈیا پر جو کام شروع ہوجاتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کے سائبر کرائمز ونگ میں ہیلی کاپٹر حادثے سے متعلق سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے سے متعلق انکوائری رجسٹرڈ کردی گئی ہے۔ ایڈیشنل ڈی جی سائبر کرائمز محمد جعفر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کر دی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سوشل میڈیا کے پراپیگنڈے پر اس حد یقین رکھتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر ان کے لئے ہر اول دستہ کے طور کام کرنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ بلکہ باقاعدہ ان کی مالی امداد کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عمران ٹک ٹاک پروگرام کرنے والوں سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ان کی اس ملاقات پر ایک دل جلے نے زبردست تبصرہ کیا کہ جب لڑائی کی نوبت ”میراثیوں“ تک پہنچ جائے تو پھر صلح کر لینی چاہیے دراصل یہ واقعہ دوسری جنگ عظیم کا ہے جب برطانوی فوج میں بھرتی کے لئے گاؤں کے لمبر دار نے مراثی کو اپنا بیٹا فوج میں بھجوانے کے لئے کہا تو مراثی نے لمبر دار کو یہ کہہ کر جب نوبت فوج میں ہماری بھرتی تک پہن جائے تو پھر ملکہ برطانیہ سے کہو ہٹلر سے صلح کر لو لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ عمران خان اپنی سوشل میڈیا فوج سے ہی اپنے سیاسی حریفوں چاروں شانے چت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ ان کی مخالف سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کی قوت کو تاحال تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔

پی ٹی آئی کا ”بے مہار“ سوشل میڈیا جب ریڈ لائن عبور کرتا ہے تو وہ عمران خان کے لئے شدید مسائل کر دیتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا ہی جس نے عمران خان کی مقبولیت کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا آج اپنے اس سوشل میڈیا کی نالائقیوں نے انہیں اسٹیبلشمنٹ سے بہت دور کر دیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سپریم کمانڈر صدر مملکت عارف علوی کو یہ کہہ کر کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر منفی مہم کی وجہ سے فوج میں شدید رد عمل پایا جاتا ہے جنازہ میں شرکت نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments