کیا عمران خان، رانا ثنا اللہ سے ڈر گئے؟


تحریک انصاف نے 13 اگست کو اسلام آباد میں اعلان کردہ جلسہ عام کو لاہور منتقل کر دیا ہے۔ پارٹی کی طرف سے اس اعلان کے ساتھ ہی میڈیا میں یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے فیصل آباد میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے 13 اگست کو قانون توڑا تو 25 مئی سے بھی برا حشر ہو گا‘ ۔

یہ کہنا قیاس آرائی ہو گا کہ عمران خان یا تحریک انصاف وزیر داخلہ کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو گئے لیکن اسلام آباد سے جلسہ لاہور منتقل کرنے کا اقدام ’معمول‘ کا انتظامی و سیاسی معاملہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف جس انداز میں حکومت کو چیلنج کر رہی ہے، اس کے تناظر میں یہ اعلان عمران خان اور پی ٹی آئی کی پسپائی تصور کیا جائے گا۔

ایک روز پہلے ہی تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کے لتے لے رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہ پنجاب میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد فیصل آباد نہیں گئے۔ یہ خبر عام کرتے ہوئے فواد چوہدری نے یہ گرہ لگانا بھی ضروری سمجھا تھا کہ ’احتیاط اچھی ہوتی ہے‘ ۔ رانا ثنا اللہ بھی اگر احتیاط سے کام لے رہے ہیں تو اچھی بات ہے۔ اس بیان کو بالواسطہ دھمکی بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سابق وزیر اطلاعات اور تحریک انصاف کے سرکردہ لیڈر وفاقی وزیر داخلہ کو یہ انتباہ دے رہے ہیں کہ پنجاب میں قیام کے دوران ان کی مخالف حکومت انہیں ’گرفتار‘ بھی کر سکتی ہے۔ سیاسی تصادم کی جو فضا اس وقت ملک میں پیدا کر دی گئی ہے، اس میں یہ کوئی انہونی تو نہیں ہے لیکن شہباز شریف کی حکومت خواہ اسلام آباد تک ہی محدود کیوں نہ ہو لیکن وہ مملکت پاکستان کی نمائندہ ہے۔ اگر کوئی صوبائی حکومت وفاقی کابینہ میں وزیر داخلہ کے عہدے پر متمکن شخص کے لئے کسی ناخوشگوار صورت حال سبب بنتی ہے تو اس کے سنگین اور دوررس نتائج بھی سامنے آئیں گے۔

اس سے پہلے رانا ثنا اللہ یہ متنبہ کرچکے ہیں کہ اگر پنجاب میں ان کے داخلے پر پابندی لگائی گئی تو وفاقی حکومت پنجاب میں گورنر راج نافذ کر سکتی ہے۔ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ ختم ہونے کے بعد پرویز الہیٰ کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے فوری بعد دیا گیا یہ بیان نامناسب لگتا تھا۔ کیوں کہ پرویز الہیٰ سپریم کورٹ کے حکم کے نتیجہ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس لئے ان کے انتخاب کے فوری بعد وفاقی وزیر داخلہ کا جارحانہ بیان یہ تاثر قائم کر رہا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تبدیل کرنے کا اقدام کر سکتی ہے۔ رانا ثنا اللہ کا بیان بھی سنگین فاؤل پلے تھا لیکن وفاقی وزیر داخلہ کو فواد چوہدری کی دھمکی ویسا ہی غیر سنجیدہ اور افسوسناک طرز تکلم تھا۔ اس بیان بازی سے اس وقت قومی سطح کے لیڈروں کی ذہنی حالت اور اضطرار کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ رانا ثنا اللہ اگلے ہی روز فیصل آباد میں میڈیا کے سامنے آ گئے اور فواد چوہدری کا انتباہ نما مشورہ ’گیدڑ بھبکی‘ ثابت ہوا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ پرویز الہیٰ کی سربراہی میں پنجاب حکومت کوئی ایسا اشتعال انگیز اقدام کرنے سے گریز ہی کرے گی جس سے موجودہ سیاسی انتظام کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی ہی متوازن اور ہوشمندانہ حکمت عملی اس وقت وفاق اور صوبوں میں متحارب حکومتوں کے درمیان معاملات میں توازن پیدا کر سکتی ہے۔

رانا ثنا اللہ تو فی الوقت پنجاب حکومت کے ہاتھوں ’گرفتاری‘ سے محفوظ ہیں لیکن تحریک انصاف نے پیش بندی کے طور پر خود کو وفاقی حکومت اور اس کے منہ زور وزیر داخلہ کے چنگل سے نکالنے کا بروقت اور دانشمندانہ اقدام کیا ہے۔ جب دونوں طرف برابر آگ لگی ہو تو طرفین اگر اس سے بچ بچا کر ہی نکل سکیں تو اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ ملک اس وقت کسی بڑے تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد عوامی اپیل برقرار رکھنے کے لئے پر جوش اور کسی حد تک اشتعال انگیز طرز عمل اختیار کیا تھا۔ ان کی حکمت عملی واضح ہے کہ حکمرانوں کو لٹیرے، بھگوڑے اور سازشی قرار دیا جائے جبکہ عمران خان کی ایک ایسی تصویر پیش کی جائے جس میں وزیر اعظم کے طور پر تحریک انصاف کا چیئرمین امریکہ کو ہرگز نہیں (ایبسلوٹلی ناٹ) کہنے کا حوصلہ کرتا ہے۔

اب بھلا شہباز شریف جیسا ’کمزور اور خوشامدی‘ وزیر اعظم امریکہ کے ساتھ اتنے دبنگ انداز میں کیسے بات کر سکتا ہے؟ یہ حکمت عملی یوں کامیاب رہی ہے کہ حامیوں کے پاس یہ جاننے کا وقت اور موقع نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کی تہہ تک پہنچیں کہ یہ ایبسلوٹلی ناٹ والا وقوعہ کیسے اور کس کے ساتھ پیش آیا تھا اور اس کا ملکی معروضی سیاست اور پالیسی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ جیسے عمران خان کے سازشی تھیوری والے نظریے میں امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کو ولن بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ عمران خان کے حامیوں کو غم و غصہ نکالنے کے لئے ایک ’ٹارگٹ‘ فراہم ہو جائے۔ اب معاملہ کی تفصیل و حقائق کیا ہیں، ملکی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کہتی ہیں اور درحقیقت کیا گفتگو ہوئی تھی، اس کی تفصیل جان کر کوئی اپنے لیڈر کی اتھارٹی اور ذاتی سچائی کو چیلنج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

حکومت میں مہنگائی، معاشی بدانتظامی اور سیاسی تصادم جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے عمران خان کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے جا رہا تھا البتہ جوں ہی اتحادی پارٹیوں نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کروائی اور انہیں سازش سازش کا نعرہ لگاتے ہوئے اپوزیشن کی سیاست کرنے کا موقع ملا تو ہر طرف عمران خان کی واہ واہ ہونے لگی۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی نے اس واہ واہ پر مہر تصدیق ثبت کردی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عدالت عظمی کی توجہ نے ایک بار پھر تحریک انصاف کے حوالے کر دیا۔ گو کہ اس بار وسیم اکرم پلس کو تو اقتدار نہیں دیا جا سکا بلکہ مسلم لیگ (ق) کی 10 نشستوں کی خیرات لینے کے لئے پرویز الہیٰ کو وزارت اعلیٰ دینا پڑی۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ اسی طرح عمران خان ماضی کے ’ڈاکو‘ پرویز الہیٰ کو اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے وزیر اعلیٰ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور خود کو گرگ باراں دیدہ سمجھنے والے پرویز الہیٰ تحریک انصاف کے 21 چہیتوں کی کابینہ قبول کر کے سمجھ رہے ہیں کہ انہیں صوبے کا ان داتا مان لیا گیا ہے۔

تاہم خوشیوں اور اچھی خبروں کے ہجوم میں کچھ طوفان بھی پنہاں ہوتے ہیں۔ اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود سیاسی طور سے دھوم مچاتے عمران خان کے لئے گزرے ہفتے میں ایک ہی روز کے دوران دو بری خبریں سامنے آئیں۔ پہلے تو الیکشن کمیشن پاکستان نے آٹھ سال سے زیر غور ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کو بیرون ملک سے ناجائز طور سے پارٹی فنڈ لینے کا قصور وار قرار دیا۔ اس پر مستزاد اس فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان پانچ سال تک جان بوجھ کر پارٹی فنڈنگ کے بارے میں جھوٹے سرٹیفکیٹ جمع کرواتے رہے تھے۔

ابھی تحریک انصاف اور عمران خان اس سیاسی جھٹکے سے جاں بر ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ اس دوران بلوچستان سے اڑنے والا ایک فوجی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس ہیلی کاپٹر میں کوئٹہ کے کور کمانڈر سمیت چھے اعلیٰ فوجی افسر شہید ہو گئے۔

اب اس بات کی تحقیقات کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے کہ اس قومی سانحہ کو بنیاد بنا کر کن عناصر نے فوج اور شہدا کے خلاف افسوسناک اور ہتک آمیز مہم جوئی شروع کی تھی۔ شہدا کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنے کا الزام تحریک انصاف کے حامیوں پر عائد کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ تحقیقات کے بعد ہی اصل صورت حال کا علم ہو سکے گا۔ تاہم صدر مملکت عارف علوی کے علاوہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی شہدا کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ صدر عارف علوی اپنے عہدے کی حیثیت میں ملکی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ شہدا کی نماز جنازہ سے ان کی غیر حاضری کو ہر سطح پر محسوس کیا گیا۔

صدر عارف علوی نے اگلے روز ایک ٹویٹ میں یہ کہہ کر طوفان پر قابو پانے کی کوشش کی کہ ’شہدا کے جنازے میں میری عدم شرکت کو غیر ضروری طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے‘ ۔ لیکن وہ نماز جنازہ سے عدم شرکت کا کوئی قابل قبول عذر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ صدر مملکت کے اس رویہ سے سیاسی حلقوں میں پایا جانے والا یہ تاثر قوی ہوا کہ صدر عارف علوی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے سربراہ مملکت سے زیادہ عمران خان کے وفادار ہونے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی لئے ملک کے ممتاز سیاست دان، پیپلز پارٹی کے لیڈر سینیٹر رضا ربانی نے برملا یہ مطالبہ کیا ہے کہ اگر عارف علوی صدر مملکت کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے تو انہیں یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سے سے زیادہ افسوس کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ ملکی فوج کے چھے اعلیٰ افسر ایک سانحہ میں شہید ہوجائیں اور ’سپریم کمانڈر‘ کے عہدے پر متمکن شخص ان کی نماز جنازہ میں ہی شریک نہ ہو۔

بعد ازاں صدر نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ فون پر تعزیت کے ذریعے اور عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے گھر جاکر اظہار افسوس کے ذریعے اس سیاسی بلنڈر سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک سوشل میڈیا پر اٹھائی گئی دھول کی وجہ سے بہت دیر ہو چکی تھی۔ تحریک انصاف یہ واضح کرنے میں ناکام رہی ہے کہ سیاست میں فوج کے کردار پر اصولی تنقید کو شہید ہونے والے غیر متعلقہ فوجی افسروں کی شہادت کے ساتھ کیسے ملایا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف نے شہید افسروں کے بارے میں کی گئی ہرزہ سرائی ست لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن اس دوران عمران خان سمیت ان کے ساتھی مختلف بہانوں سے مسلسل فوج پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے خود اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کا نظریہ نئی شدت سے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ فواد چوہدری پاک فوج کی تردید کے باوجود مسلسل یہ تاثر دیتے رہے ہیں کی کابل میں القاعدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے والا ڈرون پاکستانی فضائی حدود سے گزرا تھا۔ اب گزشتہ روز شیریں مزاری نے امریکی سفیر کے قبائلی علاقوں کے دورہ کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس دورہ میں سہولت فراہم کرنے پر بالواسطہ طور سے فوج کو مطعون کرنے کی کوشش کی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان ایک طرف فوج کو ’غیر جانبداری‘ چھوڑ کر اپنی ’حق پرستی‘ کا ساتھ دینے کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف کے قائدین زور شور سے پاک فوج کی کردار کشی والے بیان جاری کر رہے ہیں۔ عمران خان فوج کے تعاون سے دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں لیکن ممنوعہ فنڈنگ کے انکشاف اور پاک فوج کے خلاف مہم جوئی کے معاملات تحریک انصاف کی سیاسی مشکلات میں شدید اضافہ کریں گے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی ابھی تک ان دونوں مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوئی متوازن اور قابل عمل حکمت عملی اختیار نہیں کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments