برمنگھم میں راجہ انور کی کتاب ”بازگشت“ کی تقریب رونمائی


راجہ انور کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ممتاز ترقی پسند دانشور، بہترین کالم نگار اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہونے کے علاوہ وہ ایک انقلابی اور نظریاتی سیاسی کارکن رہے ہیں۔ ان کے کالموں پر مشتمل ان کی نئی کتاب ”بازگشت“ کی تقریب رونمائی 6 اگست 2022 ء کو المہدی انسٹیٹیوٹ برمنگھم میں دوپہر ایک بجے منعقد ہوئی۔ تقریب کا اہتمام برمنگھم شہر کی مشہور علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم فانوس نے کیا تھا۔ عباس ملک اس تنظیم کے روح و رواں ہیں جو شہر میں عرصہ سے ایسی تقاریب اکثر منعقد کرتے رہتے ہیں۔

راجہ صاحب کی بیٹی میری بیٹی کی سہیلی اور ساتھی ڈاکٹر ہیں انہوں نے بڑے اصرار سے تقریب میں شرکت کی دعوت دینے کے ساتھ شرکت کی تاکید بھی کی تھی۔ اپنی عادت کے مطابق ہم صحیح وقت پر پہنچ گئے تھے لیکن اس وقت تک سوائے عباس ملک اور راجہ صاحب کے اکا دکا مہمان پہنچے تھے۔ تقریب کی مہمان خصوصی میرپور پاکستان کونسلیٹ برمنگھم کی ڈپٹی کونسلر جنرل محترمہ سعدیہ ملک تھیں جب کہ صدارت آزاد کشمیر حکومت کے سابق وزیر راجہ جاوید اقبال نے کی۔

آزاد کشمیر سپریم کورٹ بار کے ممبر ایڈوکیٹ راجہ ذوالفقار علی اس تقریب میں شمولیت کے لیے خاص طور پر برطانیہ آئے تھے۔ برطانیہ کے دوسرے شہروں اور میزبان شہر برمنگھم سے راجہ انور کے پرستاروں خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد نے تقریب میں شرکت کی۔ اڑھائی بجے مہمانوں کی تعداد بڑھی تو تقریب شروع ہوئی۔ برطانیہ جیسے وقت کی پابندی کرنے والے ملک میں بھی پتہ نہیں وقت کی پابندی نہ کرنا ہم پاکستانیوں کی سرشت میں کیوں شامل ہو گیا ہے۔

ثقافتی تنظیم فانوس کے چیئرمین عباس ملک نے تقریب کی نظامت سنبھالی اور تمام مہمانان گرامی کا شکریہ کرتے ہوئے تقریب دیر سے شروع کرنے پر حاضرین سے معذرت کی۔ ”بازگشت“ کا تعارف کرواتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ 480 صفحات پر مشتمل کتاب ہے جس میں راجہ انور کے پچھلے پچیس سال میں مختلف اخباروں میں چھپنے والے 163 کالم شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب کا دیباچہ ”تحریر بولتی ہے“ کے عنوان سے راجہ ذوالفقار علی ایڈوکیٹ نے لکھا ہے۔ انہوں نے ہی راجہ انور کے کالم اکٹھے کرنے اور کتاب کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کتاب کا انتساب برصغیر اور دنیا کے محنت کش شہدا کے نام ہے۔

تقریب کا آغاز ڈاکٹر انیتا راجہ کے بیٹے اور راجہ انور کے نواسے نروان شاہ کی احمد ندیم قاسمی کی نظم ”زندگی کے جتنے دروازے ہیں، سب بند ہیں“ پڑھنے سے ہوا۔ چھوٹے سے بچے نے بڑی اچھے انداز میں نظم پڑھ کر سامعین سے داد وصول کی۔ سید سبط حسن برطانیہ کے بہت اچھے ادیب اور شاعر ہیں۔ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے ہیں اور بہت ہی اچھا بولتے ہیں۔ انہوں نے کتاب پر خوبصورت لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کی محبت میں سب یہاں تشریف لائے ہیں جو فی زمانہ بہت بڑی بات ہے۔

کتاب تہذیب کا پیمانہ ہے۔ خوشونت سنگھ نے اپنے آخری کتاب میں اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لکھو وہ پڑھنے کے قابل ہو اور جو پڑھو وہ اچھا لکھا ہوا ہو۔ راجہ انور کے کالم پڑھنے کے لائق ہیں۔ طالبہ علیزہ فاطمہ نے بازگشت سے راجہ انور کا فروری 1997 کا لکھا ہوا کالم ”کہاں ہیں عشاق کے قافلے“ بڑے اچھے انداز میں پڑھ کر سنایا۔

پرویز فتح پیشہ کے لحاظ سے ایٹمی انجنیئر ہیں، برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بڑی سیاسی اور دبنگ شخصیت چوہدری فتح خان کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے راجہ صاحب کی علمی اور سیاسی جد و جہد پر بات کرتے ہوئے گورڈن کالج راولپنڈی سے پنجاب یونیورسٹی میں فلسفہ کی ڈگری لینے تک اور کالج یونین کی صدارت اور ایوب خان، یحیی خان اور ضیاء کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے، پھر بھٹو حکومت میں مشیر بننے کے دور پر بات کی۔

راجہ انور کی کتاب ”جھوٹے روپ کے درشن“ ، ”چھوٹی جیل سے بڑی جیل تک“ اور ”دہشت گرد شہزادہ“ پر بات کی۔ ان کی کتاب سے کچھ کالموں کے اقتباس پڑھ کر سنائے۔ ان کا مضمون کافی طویل تھا جس میں راجہ انور کی زندگی اور تحریروں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ رباب اسلم خان ریڈیو جرنلسٹ ہیں برمنگھم کے ایکس ایل ریڈیو پر پروگرام کرتی ہیں انہوں نے بڑے خوبصورت لہجہ اور انداز میں ”بازگشت“ سے راجہ انور کا مئی 2006 کا سجاول خان پر لکھا ہوا کالم ”علم دوست داروغۂ زندان“ پڑھ کر سنایا اور سامعین سے داد لی۔

میرپور سے تعلق رکھنے والی برمنگھم کی ممتاز شخصیت سعید مغل، ممبر آف برٹش ایمپائر نے راجہ انور کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور سے جانتے ہیں۔ وہ ایک نظریے اور تحریک کا نام ہیں۔ وہ اپنے نظریے پر آج تک قائم ہیں۔ میں ان کے صحت اور سلامتی کے لئے دعا گو ہوں۔ عباس ملک اپنی نظامت کے دوران سب مقررین کا تعارف کروانے کے علاوہ مقررین حضرات کو وقت کا خیال رکھنے کا بھی کہہ رہے تھے تا کہ تقریب بروقت اختتام پذیر ہو سکے۔

خوبصورت اور منفرد لہجے کی شاعری کرنے والے شاعر ثاقب ندیم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور برمنگھم میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اقبال ساجد کے اس شعر سے اپنی بات کا آغاز کیا۔

سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی
وہ ہے زمین دل جہاں بارش نہیں ہوئی

انہوں نے کہا کو ہم تو راجہ انور سے بازگشت سننے کے لئے آئے تھے کیونکہ ہم لکھنے والے کی محبت کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ اب نظر نہیں آتے جن کی جوانی کا وقت جیلوں کی نذر ہو گیا۔ ان کے جیلوں میں گزرے ابتدائی جوانی کے سالوں کے علاوہ پاکستان سے جلاوطنی کے وقت کو بھی میں جیل ہی کہوں گا۔ وہ مجھے سچے اور پرعزم آدمی لگے۔ کتاب پڑھ کر ان کے کالم سیاسی سے زیادہ مجھے ادبی لگے۔ انہوں نے اپنے کالموں میں معاشرے کے ہر ناسور پر لکھا ہے۔

ان کے کالموں میں طنز بھی نظر آتا ہے اور انہوں نے ان کالموں میں بہت سے سوال اٹھائے ہیں جن کا جواب دینا بہت ہی مشکل ہے۔ انیلہ اسد برمنگھم کی ایک سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ اپنی کمیونٹی کے لیے سماجی کام کرتی ہیں۔ انہوں نے چکوال اور جنرل عبدالمجید کے بارے میں راجہ صاحب کا لکھا ہوا تنقیدی کالم بڑی شستہ زبان میں پڑھا۔ کالم میں چکوال پر تنقید پر کچھ حاضرین بول بھی پڑے۔

ڈاکٹر نگہت افتخار تھوڑا عرصہ قبل ہی پاکستان سے برطانیہ میں شفٹ ہوئی ہیں۔ میڈیکل کالج میں اپنے زمانہ کی بہترین مقررہ رہی ہیں، بہت اچھی شاعری کرتی ہیں اور اتنے ہی اچھے لہجے میں پڑھتی بھی ہیں۔ انہوں نے راجہ انور پر لکھے ہوئے اپنے مضمون کا آغاز بڑے پر جوش انداز سے کیا اور درمیان میں بڑے برجستہ اشعار بھی پڑھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے راجہ انور کی پہلی کتاب ”جھوٹے روپ کے درشن“ کالج کے ابتدائی دور میں پڑھی اور پھر ان کی کتاب چھوٹی جیل سے بڑی جیل تک اپنے دادا جان سے سنی۔

ان لوگوں کی تحریریں ہمارے لئے مشعل راہ بنیں۔ بازگشت کالموں کا مجموعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے اور راجہ صاحب کی شخصیت اس کی آئینہ دار ہے۔ ان جیسے لوگ اپنے حق اور نظریے کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کا قلم کا نشتر معاشرے کی چیر پھاڑ کرتا نظر آتا ہے۔ ہجرت، جیلوں اور اپنی عمر بھر کے تجربے کا نچوڑ انہوں نے بازگشت کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ایکس ایل ریڈیو برمنگھم کی ایک اور خوبصورت آواز شہلا خان نے راجہ انور کا مصر کے شاہ فاروق اور لیبیا کے کرنل قذافی کے بارے میں لکھا ہوا تاریخی کالم ”اب کس کی باری ہے“ بڑے اچھے انداز میں پڑھا جس سے سامعین بڑے محظوظ ہوئے۔

پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل کے بیٹے اکمل مخدوم نے اپنا علامتی تحریر پر مبنی کالم پڑھا۔ انہوں نے راجہ انور کا تعارف بھی علامتی کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ راجہ انور کے دنوں میں یونیورسٹی میں فلسفہ کا مکالہ لکھنے کے وقت ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ میرے والد محترم کے شاگرد رہے۔ راجہ انور کی یہ کتاب تاریخ کی ایک بازگشت ہے۔ طاقتور کی اس سے بڑی شکست اور کیا ہو گی کہ وہ ایک کمزور شخص کو قائل نہ کر سکے۔

یہ ایوب، یحیی اور ضیاء کے دور کے معاشرے کا ایک نوحہ ہے۔ راجہ انور نے موت کی کبھی خواہش تو نہیں کی لیکن موت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ اتنی قربانیوں کے باوجود قوم ستر سال سے وہیں کھڑی ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ان کا مضمون بہت لمبا تھا جس میں انہوں نے بہت سی باتیں کیں جن کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں کرنا مشکل ہے۔ راجہ صاحب کی بیٹی ڈاکٹر انیتا راجہ نے ان کا 2006 میں پاکستان میں ہونے والے جہاز کے حادثہ پر لکھا ہوا کالم ”حادثہ“ بڑے درد مندانہ لہجے میں پڑھ کر سامعین سے داد وصول کی۔

آزاد کشمیر سپریم کورٹ بار کے ممبر ایڈوکیٹ راجہ ذوالفقار علی اس تقریب میں شمولیت کے لیے خاص طور پر برطانیہ آئے تھے۔ انہوں نے راجہ انور سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی انقلابی سوچ کے برسوں سے پرستار ہیں۔ اپنے کالموں کو کتاب کی شکل میں چھپوانے کی میرے ترغیب دینے پر انہوں نے اس کام کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔ میں نے بڑی جانفشانی سے ان کے سب کالم جمع کیے ان کو کتابی شکل دی، اس کا دیباچہ لکھا اور پروف ریڈنگ سے لے کر بازگشت کی چھپوائی تک سب کام کی نگرانی کی۔

انہوں نے کتاب کی اشاعت کا ایک دلچسپ واقع سامعین کو سنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں ہم نے راجہ صاحب کی کتاب ”جھوٹے روپ کے درشن“ کے پبلشر کلاسیک پبلشر سے کتاب چھاپنے کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر راجہ صاحب ”جھوٹے روپ کے درشن جیسی ایک اور کتاب لکھ دیں تو میں کوئی خرچہ لئے بغیر وہ چھاپ کر دینے کو تیار ہوں۔ اس پر راجہ صاحب نے جواب دیا کہ آپ مجھے پنجاب یونیورسٹی کا ستر کی دہائی کے اولین سالوں والا وہی ماحول بنا دیں تو میں ویسی ہی کتاب لکھ دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب ہمیشہ اچھے مصنفین اور ان کی انقلابی تصانیف سے آتے ہیں۔ راجہ انور نے اپنے کالموں میں جن مسائل کو چھڑا ہے ان کا حل بھی بتایا ہے۔

مہمان خصوصی پاکستان کونسلیٹ برمنگھم کی ڈپٹی کونسلر جنرل سعدیہ ملک نے اپنے کونسلیٹ کے دائرہ کار کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ راجہ انور کی جدوجہد سے بہت متاثر ہوئی ہیں اور ان کے نزدیک سب سے بڑا جہاد ظالم حکمران کے سامنے حق کی بات کرنا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے لیڈر حضور نبی اکرم صلی اللہ ہ آلہ و سلم ہیں جنہوں نے دنیا کو انسانیت کا درس دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی نژاد برطانیوں کو اتنی اچھی اردو زبان بولتے دیکھ کر انہیں انتہائی خوشی ہوئی ہے جنہوں نے اپنی ثقافت اور زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس دوران کچھ لوگوں نے تقریب کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جس پر عباس ملک نے کمال مہارت سے صورت حال کو یہ کہتے ہوئے قابو میں کر لیا کہ یہ ایک ادبی تقریب ہے اس میں سیاسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔

راجہ انور صاحب کو سننے کے لئے سب ہی بے تاب تھے وقت بھی کافی بیت چکا تھا۔ راجہ انور پیرانہ سالی اور زمانے کے حوادث سہنے کی وجہ سے بہت کمزور نظر آئے۔ ان کو بولنے میں بھی دشواری ہو رہی تھی پھر بھی انہوں نے بہت سی باتیں کیں۔ کچھ سامعین کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے آخری سالوں میں نون لیگ حکومت میں شمولیت کے ایک سوال پر بتایا کہ انہوں نے ایسا لوگوں کی بہتری کے لئے کیا۔ اس میں ان کا کوئی مفاد نہیں تھا حتی کہ اپنی سات سالہ حکومت میں مشیر رہنے کی کوئی تنخواہ نہیں لی۔

میں اپنے دفتر میں سوتا تھا۔ بیس لاکھ سے زیادہ بچوں کو میرٹ پر بغیر کسی سفارش کے روزگار پر لگوایا۔ اب پاکستان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب پاکستان کے لیے سرگرم ہوں اور یہاں ریاست کے پروگراموں میں ضرور شریک ہوں۔ تقریب کے صدر آزاد کشمیر کے سابق وزیر برائے تارکین وطن راجہ جاوید اقبال نے سامعین کا تقریب میں شمولیت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس خوبصورت ادبی تقریب کا اختتام شام کی چائے کے ساتھ لذیذ لوازمات کے ساتھ ہوا۔ برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں راجہ انور کی کتاب بازگشت کی اتنی خوبصورت اور کامیاب تقریب رونمائی منعقد کرنے پر عباس ملک اور علمی و ادبی تنظیم فنون مبارک باد کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments