شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات دل


ڈیئر پروفیسر
سلام،

کرونا جیسی منحوس بیماری سے جوجنے کے بعد کیا حال سنائیں دل کا، اس دوران چند لمحے تو ہمیں یوں لگا کہ یہ کہانی بھی اب ختم ہے زندگی کا وہ آدھا گھنٹہ نفی ہو کر کہاں گیا ہمیں نہیں معلوم۔ علم ہے تو بس اتنا کہ ہم نے وہ جیا ہی نہیں! اس دورانیہ میں ہم کہاں تھے کچھ خبر نہیں شاید عالم برزخ میں ہوں۔ یا شاید فرشتوں کو کہا گیا کہ یہ کس کو اٹھا لائے ہو اس کا نام فہرست میں نہیں ہے جاؤ واپس چھوڑ کر آؤ۔ کہانی کار نے کہا کہ یہ تو ہلکی سی ایک جھلک تھی بچہ فلم تو ابھی باقی ہے۔ اب تو دل اتنا کمزور ہو چلا ہے کہ دعا یہی ہے کہ دل دہلا دینے والی فلم نہ ہو۔ بہرحال وقت کی یہی بات تو اچھی ہے کہ اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتا ہے۔ سو ہم نے بھی گزار لیا۔

لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو گئے تو نگاہیں بھی حسب عادت ادھر ادھر آوارہ گردی میں مصروف ہو گئیں۔ سرہانے پڑی کتاب کئی بار اٹھائی اور رکھ دی ضعف کی وجہ سے توجہ ہی مرکوز نہ ہو پائی۔ سارا دن بستر سے لگے وقفے وقفے سے سوشل میڈیا کے اوراق الٹنے پلٹنے لگے اور کرتے بھی کیا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی پر یہاں بھی نری مایوسی ہی ہاتھ آئی

ان دنوں مشاہدے نے بہت سے ایسے ہوشربا انکشافات کیے ہیں جن سے دیگر مصروفیات کی بنا پر پہلے لا علمی رہی۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بہت سے لوگوں کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ دن میں کئی منافرت انگیز اور کنٹرو ورشل پوسٹس لکھ کر سوشل میڈیا پہ انسانوں کی دل آزاری کرنا۔ منتشر معاشرے میں مزید انتشار پھیلانا۔ کیا شخصی آزادی اسی کا نام ہے؟

دوسرے کے پوائنٹ آف ویو کا احترام نہ کرنا، ہنسی ٹھٹھا اڑانا اور دعویٰ انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا!

انسانی حقوق تو ہر کسی کے ہوتے ہیں یا اس معاملے میں بھی کوئی تخصیص ہے؟
کون ہیں یہ لوگ اور کیا چاہتے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے؟
کیا ہم من حیث القوم بے حس اور نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں؟

پروفیسر ہم جیسے صلح کل افراد جو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں سوالوں کے یکے بعد دیگرے آنے والے قافلوں سے دن رات پریشان رہتے ہیں، پر سوال کریں تو کس سے کہ جوابوں کی زمین اتنی بنجر ہو چکی ہے کہ اب ہریالی کی نمو کے امکانات بھی معدوم ہو چکے ہیں۔ خلا میں ٹوک ٹوئیاں مارتے جب ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا تو مایوسی کے عالم میں سر نیہوڑا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں انسانی قدریں پنپ نہ پائیں اور جہاں اپنے انسان ہونے پہ شرمندگی محسوس ہونے لگے وہاں اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے

ایک انتہا ادھر ہے تو ایک انتہا ادھر بھی ہے۔ انسان وہی بنتا جو حالت اسے بناتے ہیں بد قسمتی سے بی جمالو نے جس بھس میں چنگاری ڈالی تھی وہ اب بات بے بات بھڑک اٹھتی ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے اسی انتہاپسندی کو ہوا دی گئی ہے۔ یہ اب مزاج کا خاصا بن چکی ہے اب کوئی بھی صف اس سے پاک نہیں۔ برداشت قصہ پارینہ ہے۔ متشکک ذہن اب اپنے آپ پر بھی شک سے باز نہیں آتا۔ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو لبرل ازم کا پرچار چھوڑ دیں

ایک درمیانی راہ بھی ہوتی ہے مگر اس جانب کوئی رخ کیوں کرے کہ خار و خس سے بھری اس راہ پہ چلنا دشوار ہے۔ اس پہ چلتے سستی شہرت نہیں ملتی۔ نفرت کو بڑھاوا دینا بہت آسان ہے۔ اس میں ہل بیل نہیں لگتے بس الفاظ کی ایک چنگاری چھوڑ دیجیئے اور تماشا دیکھیے۔ محبت پھیلانا بہت کٹھن ہے، اس میں محنت لگتی ہے برسوں کی محنت، اور محنت کرنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ زندگیاں خرچ ہو جاتی ہیں مگر وہ لوگ اب کہاں رہے جو کسی مقصد کے لیے زندگی تج دیا کرتے تھے۔ ہمیں تو فوری نتائج چاہیئیں ڈیجیٹل دور کی علتوں میں کلک ایک بہت بڑی علت ہے ہر کوئی سب کچھ ایک کلک میں چاہتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شطرنج کا گھوڑا نہیں کہ اسے اپنی مرضی سے آگے پیچھے چلایا جائے ارتقا کا سست رفتار اور اڑیل گھوڑا ڈھائی گھر کی زقند نہیں بھرتا، کچھوے کی چال سے چلتا ہے۔

حد ہوتی ہے ہر بات کی مگر یہاں تو کوئی حد ہی نہیں رہی۔

اور سب کچھ کرنے کے بعد ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کو یا اعتراضات کی یلغار سے اپنی پاپولیریٹی گنوا دینے کے خوف سے بچنے کو بگلا بھگت بن کر اپنی کہی باتوں کی نفی کرتی ایک اور پوسٹ سوشل میڈیا پہ ڈال دینا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ نہیں جناب کوئی ذی شعور انسان ان بھروں میں نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر اپنا موقف بیان کرنے کا ہر کسی کو حق ہے کسی پر کوئی قدغن نہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حقوق کے ساتھ فرائض بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ہمیں خود خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تاویل اور دلیل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ دلیل دیں کوئی مان لے تو اس کی مرضی نہ مانے تو اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیں۔ بحث کیا کرنی اور اس سے فائدہ کیا ہو گا؟

مگر نہیں صاحب یہاں تو تاویل در تاویل ہے۔ شریف آدمی تو اپنا موقف دیتے بھی گھبراتا ہے کہ جانے کب کوئی کہیں سے نکل آئے اور اپنی ذہنی غلاظت کی ٹوکری اس پہ انڈیل جائے۔ اپنا تو سدا کا ایک ہی کام ہے کہ

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
اگر لبرل ازم دل آزاری کا نام ہے تو لبرل ازم کی تعریف پہ نظرثانی کرنا پڑے گی

عزیز من ہم نے تو اپنے اساتذہ سے یہی سیکھا کہ ہماری آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔

ٹکراؤ میں دونوں اطراف نقصان تو انسانوں کا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہم سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ یہی سب تو گزشتہ کئی برسوں سے ہم بھگتتے آئے ہیں۔ اگر پل بنانے کی توفیق نہیں تو کم از کم دیواریں تو نہ کھڑی کریں انسانوں کے بیچ۔ وہی غلطیاں دہرانی ہیں تو سبق کیا سیکھا؟

الفاظ کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے کم نہیں ہوتی۔ یہ سوشل میڈیا ہے جنگ کا میدان نہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی تلواریں سونت لی جائیں اس رویے کو دیکھتے ہوئے ہمارے جیسا عام قاری یہ ہی سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ پھر طرفین میں فرق کیا ہے؟ یہی تو وہ نکتہ تھا جس نے لبرل ازم کی پرواخت کی۔ اگر لبرل ازم رواداری جیسا بنیادی رویہ بھی نہیں سکھا پائے تو ہم جاہل ہی بھلے۔ بد تمیزی اور بد تہذیبی ہمارا طرہ امتیاز بنتی جا رہی ہے۔

چاہے وہ سیاسی معاملات ہوں یا مذہبی ہم نے خدائی فوجدار ہونے کا ٹھیکہ جو اٹھا رکھا ہے۔ اس ساری کہانی میں رواداری گئی تیل لینے ہمیں تو بس چیخ کر اپنی بات کرنی ہے چاہے اس سے دوسروں کے کانوں کے پردے پھٹنے لگیں۔ کیا ہم جانوروں کے فارم میں رہ رہے ہیں؟ ’یہی سب کچھ دیکھتے ہوئے ہم نے چند دن پہلے جارج اورویل کی کتاب کا ٹائٹل مستعار لے کر یہ جملہ لکھا تھا۔

پروفیسر ڈیئر سنا تھا کہ جنگلوں کے بھی دستور ہوتے ہیں مگر زہرہ نگاہ سے معذرت کے ساتھ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس جنگل کا نہ تو کوئی دستور تھا نہ ہے اور نہ ہو گا۔ اور اگر ہوا بھی تو ہماری زندگی میں نہیں ہو گا شاید اگلے سو پچاس سال تک نہ ہو کہ بری عادتوں کا خوگر ہونا تو بہت آسان ہے مگر چھوڑنے میں دقت ہوتی ہے اور وقت لگتا ہے۔ یہ صرف ہمارا نہیں ہم جیسے بہت سے لوگوں کا خیال جو یہ پستی دیکھ کر شب و روز کڑھ رہے ہیں۔ اس نقار خانے سے اب تو جو بھی اٹھاتے ہیں وہ نہ تو لال ہوتا ہے نہ ہرا کاٹو تو اندر سے ایسی سڑاند برآمد ہوتی ہے جس سے دماغ پھٹا جاتا ہے اور جو اچھے بھلے انسان کی مت مار دیتی ہے۔

اب یہ نہ کہیے گا کہ ہم قنوطیت پسند ہیں جب پورا معاشرہ ہی ایک رنگ میں رنگا ہو تو اس یک رنگی سے اچھے اچھوں کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔

شب یلدا کی سی تاریکی ہے
فضا میں دور تلک نوید سحر کا کوئی امکاں بھی نہیں
افق پہ روشنی کا ایک بھی استعارہ نہیں
کوئی ہلکی سی کرن اور کوئی جگنو بھی نہیں
پیڑ انسانیت کا جب سے کٹا
پھول کھلنے سے اب انکاری ہے
دلوں کے ساتھ ساتھ حرف بھی سیاہ ہوئے
سایوں کے اس ہجوم میں
انسان کیا ہوئے؟
تم لیے پھرتے ہو ماضی کے چراغ
اور مرے آئندہ پہ اندھیرا ہے
ذرا بتلاؤ تو یہ یہ رات گزاریں کیسے
کچھ تو کہو
کوئی نغمہ نہ سہی کوئی نوحہ ہی کہو

مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اسے اسی حد تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اسی فارمولے پر عمل کرتی ہیں۔ مسائل کا ایک انبار ہے ہر طرف عام انسان کے لیے زندگی کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے اس کا ادراک نہیں کیوں کہ آپ کو کیک میسر ہے۔ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا کیا ہم بھی وہی کچھ تو نہیں کر رہے؟ سود و زیاں کا کیا ذکر کریں چنگیزی فوج بغداد کے شہر میں داخل ہونے والی تھی مگر گلی گلی کوا حلال ہے یا حرام پہ بحث ہو رہی تھی، وہی حال آج بھی ہے کسی نے کیا خوب کہا کہ ان مباحث میں جتنا بھی الجھیں گے وقت انرجی اور مزاج تینوں کا نقصان ہے۔ ان کا نہ کوئی نتیجہ نکلا ہے نہ نکلے گا۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات، کی ایک موہوم سی امید کے ساتھ اب اجازت

والسلام
غزالہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments