پانی پر تیرتا بھنورا – فرخ حماد


وہ مجھے ہر دوسرے دن بس میں نظر آتا، اکثر ایک ہی نشست یا اس کے آس پاس کہیں بیٹھا۔ بس میں بیٹھتے ہی وہ اپنا بھورا بستہ اپنی گود میں رکھ لیتا اور اس میں سے آوازیں سننے والی تاریں برآمد کر کے کانوں میں گھسا لیتا۔ بظاہر وہ ایک باڈی بلڈر لگتا تھا مگر سورج کے سوا نیزے پر آئی گرمی میں بھی ایک اضافی شرٹ پہن کر آتا مبادا دھول سے بچا رہے۔ جس دن یہ اضافی شرٹ نہ ہوتی تو اس کے ڈولے روشنی میں چمک رہے ہوتے۔ اس کی پچھلی سیٹ پر لٹکتی پونی پیچھے بیٹھے کسی بچے کے کھیلے کے کام آ سکتی تھی۔

اس کے حلیے سے اندازہ لگا یا جا سکتا تھا وہ پیٹر گیبریل، جان لینن، پنک فلائیڈیا لتا جی کو سن رہا ہے۔ مگر اسی حلیے پر یہ اندازہ بھی غلط نہ ہو گا کہ وہ لونے والا، عیسیٰ خیلوی یا نصیبوں پر سر دھر رہا ہے۔ پورا راستہ وہ کھڑکی سے باہر جھانکتا رہتا اور پوری بس خصوصاً زنانہ حصے سے بے پرواہ ہونے کی خوب اداکاری کرتا۔ اس دوران وہ کبھی اپنی مونچھوں کو تاؤ نہیں دیتا تھا، بس سیٹ پر گوتم بنا بستے کو ایسے سنبھالے رہتا گویا ابھی کوئی چھینٹ نہ پڑے۔ میں نے کبھی اسے کسی سے بات کرتے یا آنکھ ملاتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ خلا میں تکتا رہتا مگر پھر بھی وہ اجنبی نہ لگتا، کچھ اپنا اپنا ہی لگتا۔ کئی مہینے میں نے اسے ایسا ہی پایا، کچھ دنوں بعد یہی دیکھا اس کی پونی غائب ہو گئی۔ میں اس سے پہلے سٹاپ پر اتر جاتا، مجھے نہیں معلوم اس کی منزل کیا تھی؟

جلد ہی معلوم پڑ گیا وہ فرخ حماد ہے جو ملتان کالج آف آرٹس میں نوجوانوں کو ورغلانے کی ڈیوٹی پر معمور ہے اور یہی اس کی منزل تھی۔ سالوں تک میری معلومات کا ذخیرہ اسی ایک جملے تک محدود رہا۔ جب میں نے زکرین لٹریری فورم کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو دوڑتا ہوا ایک دن ان کے دفتر جا دھمکا۔ اس پہلی ملاقات میں زیر بحث آرٹ و ادب کے زوال نے مراسم کی پہلی سیڑھی کا کام کیا اور پھر میرا وہاں آنا جانا لگا رہا۔ ان کا دفتر ایک دس کراس دس کے بیرک جتنا تھا۔

فرخ کی کرسی کی پچھلی دیوار پر کئی طرح کی تصاویر، پرنٹ اور پوسٹر آویزاں تھے جو دفتر اور صاحب دفتر کی دیدہ و نہ دیدہ ذہنی وسعتوں کی غمازی کرتے۔ عین بالمقابل دیوار پر ایک نیم برہنہ حسینہ نیم لیٹی ہوئی حالت میں مصور تھی۔ ظالم نے دیواروں کا انتخاب بھی ایسا کیا کہ کسی جوان ہوتے کو سسکیاں بھرنے کا موقعہ نہ مل جائے۔

پھر فرخ مجھ پر اپنے شاگردوں سے کھلنے لگا۔ کچھ شاگرد اس کی عقیدت میں غرق تھے، کچھ اس کے دبدبے میں دبے تھے اور کچھ اس کے اکھڑ پن سے بیزار۔ ان سب کی مشترک بات ایک ہی تھی ’استاد رگڑا بہت لگاتا ہے‘ ۔ کچھ اس رگڑے سے کندن ہو گئے اور باقی پارہ۔

زکرین لٹریری فورم سے کتابی سلسلے ’موزیک‘ کی ابتدا کی تو فرخ نے دل کھول کر ساتھ دیا۔ نہ صرف اس کی اشاعت کے لئے معاشی مدد کی بلکہ کچھ شاگردوں کو اس کی اشاعت کی مدد پر معمور کر دیا جو اس کے لئے بدعت جیسا تھا۔ لیکن وہ خود کبھی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ انہوں نے کالج اور شہر میں ایک فلم اور بک کلب بنا رکھا تھا جس سے اس نے یونی ورسٹی کے بہت سے ممی ڈیڈی بچوں کو کتابی کیڑا بنا دیا اور یوں اس کے حلقے کو ایسی وسعت ملی کہ بہت سے اہل نظر اور صاحب دل حلقہ یاراں میں شامل ہو لئے۔

قد آدم اور وسیع جثے کے علاوہ اس کی شخصیت کی ایک قابل ذکر شے قہقہے ہیں۔ وہ کئی طرح قہقہانے کے ہنر سے آشنا ہے۔ ایک ٹریٹ مارک قہقہہ طوفانی ہے۔ جو اکثر و بیشتر سننے کو مل سکتا ہے جس کے بعد ایک سکونت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک شیطانی قہقہہ ہے جو صرف محفل یاراں میں ہی قہقہایا جاتا ہے باقی دو شریفانہ اور شرمیلے قہقہے ہیں، جو روز مرہ کے معمولات کے لیے بچا کر رکھے جاتے ہیں۔

انہی قہقہوں کی طرح کئی کیفیات میں اس کی زندگی تقسیم ہے۔ جو اس کے روپ ہیں اور انہیں کسی بھی روپ کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ یعنی وہ بیٹھے بیٹھے

ایک کٹر قسم کا فیمینسٹ بن جائے گا۔ نہیں تو ایک سماجی کارکن کے طور پر غریبوں، زلزلہ زدگان یا سیلاب متاثرین کی مدد کو نکل پڑے گا۔ کسی اقلیت کے حقوق کے لئے احتجاج میں جا شامل ہو گا اور وہیں سے ایک بس پکڑ کر پہاڑ کا رخ کرے گا اور اگر پہاڑ پر بھی چین نہ پایا تو یوگی بن کر نروان کی تلاش میں دنیا و مافیہا سے دور جا پڑے گا۔ پھر اس کی واپسی بلھے شاہ کے جوگی کے روپ میں دیکھی جائے گی۔ واپسی پر وہ ایک گٹا ر اٹھائے گا اور اسلم انصاری کی شہرہ آفاق نظم ’گوتم کا آخری واعظ‘ سائیں ظہور کی پگڑی پہن کر گائے گا اور اس کے اختتام پر وہ نروان بھلا کر میکسم گورکی کو یاد کرے گا اور ایک سوشلسٹ بن جائے گا۔

استاد ملنگی (تندور والے ) کے ٹوٹے کپ میں چائے کا پہلا سپ اسے یاد دلائے گا وہ سوشلسٹ نہیں، ایک استاد ہے اور وہ اپنے شاگردوں کی دنیائیں بنانے پر جت جائے گا۔ ایسے پھوہڑ، نکمے اور نکھٹو طالب علموں سے تنگ آ کر وہ ایک شیطانی قہقہہ مارے گا اور مدھوبالا کی ایک فلم دیکھنے بیٹھ جائے گا۔ ان سب وقفوں سے پڑنے والے دوروں کا علاج ایک ہے۔

”عورت“
اتنے میں فرخ کے ہم زاد کی آواز آئے گی۔
”نہیں۔ بیوی“

بلاشبہ بیوی ایسی تمام مصروفیات و خرافات اور چونچلوں سے باز رکھنے کے لئے اب تک کی معلوم دنیا میں واحد دوا ہے۔ ’کچھ علاج اس کا بھی اے صاحب نظراں ہے کہ نہیں‘ ۔ (مایوسی کفر سہی مگر میں اپنے حافظے میں محفوظ عورتوں میں سے ان کا جوڑ کسی کے ساتھ نہیں دیکھتا)

جب ایک شر پسند ٹولے نے کالج کے ایک استاد پر ایک طالبہ کو تصویر کشی کے بنیادی اصول سکھاتے ہوئے بے پردہ کرنے کا الزام عائد کیا تو کالج کے اساتذہ میں فرخ وہ واحد آدمی تھا جس نے کچھ سٹوڈنٹس کے ساتھ اس کی حمایت کا اعلان کیا اور بعد میں اس کے نکالے جانے پر احتجاج۔ اس واضح پوزیشن نے فرخ کی کالج میں جگہ کم کر دی، گو کچھ اور اساتذہ بھی اس کے جانے پر خوش نہ تھے مگر وہ خاموش رہے۔ یوں ایک دن اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے بنائے قوانین پر پورا نہ اترنے کی پاداش میں فرخ حماد کی نوکری کا معاہدہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

ہمارے ایک مشترک دوست کو جب کیمپس کی سیاست اور اساتذہ کی قربانی کا بکرہ بننا پڑا تو فرخ کا دل پہلے نا امید ہوا اور پھر وہ بہت دیر تک غصے اور بے چینی میں رہا۔ پھر یوگا، پہاڑ یا معلوم کس نے امید کی ڈھارس باندھی اور وہ اب تک قائم ہے۔ فرخ اپنی پوری کوششوں کو بالائے استعمال لاتے ہوئے اس کے لئے بہت کچھ کرتا رہا۔ جب میں ان دونوں کے پیغام رساں کا کام کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا فرخ مفادات سے عاری ایک پرندہ ہے جو چونچ میں بھرا باجرہ کٹوری میں رکھتے ہوئے شکار ہو جاتا ہے۔ اب شاید اسے معلوم ہونے لگا ہے مفادات ایک سماجی سلیقے کا درجہ پا چکے ہیں جنہیں لا محالہ نبھانا پڑے گا۔

فرخ کبھی اپنے شاگردوں سے محبت نہیں کرتا، نہ کوئی رحم کا خانہ اپنے دل میں بننے دیتا ہے۔ وہ پرچے ان کے منہ پر دے مارتا ہے مگر کام کرانے کا ہنر وہ جانتا ہے اور کام کی غرض سے وہ ان کے کام میں غرق ہو جاتا ہے نہ کہ شاگردوں میں (جو عمومی رواج ہے ) ۔ آخری دن جب تھیسس کی نمائش سجتی ہے تو وہ کالج کی راہداریوں میں ایک من موجی دھن میں اجنبی روحوں کی طرح محور رقص ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے اس کا کردار پورا ہو چکا تھا۔

دوستوں کے لئے ان کی محفلیں دلچسپ اور اجنبیوں کے لئے نری کوفت ہیں۔ اس کی وکیبلری نرالی ہے جس کی بنیاد پر وہ دوستوں سے عورتوں کی طرح لڑ سکتا ہے۔ یہ عورتوں سے منسوب کرنا بھی اسی کی طرح داری ہے۔ وہ دنیا جہان کے غیر ضروری مسائل کو عورتوں کے دودھ دھی والے مسئلوں سے منسوب کرتا ہے اور انہی اصیل عورت پرست خواتین کے سامنے جن کے لئے یہ کسی اور کے منہ سے سننا قطعاً قابل برداشت نہ ہو۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس قبیل کے لئے فرخ کس قدر مکمل مرد ہے، جو نہ صرف قابل بھروسا ہے بلکہ پر اعتماد بھی۔

وہ اپنی عمر کی چوتھی دہائی کے درمیانی پیٹے میں ہو گا مگر مجال ہے کسی کونے کھدرے سے ایسا گمان اٹھتا ہو، اس کا راز کوئی جسمانی مشقت نہیں بلکہ وہ دوستیاں ہیں جو وہ برسوں سے دل جمعی سے نبھائے جاتا ہے کہ یہی دوست اس کی بقا کا کل سامان ہیں۔ ایک سخت استاد، ایک جذباتی دوست، ایک کرارا بھنورا، یہی سب فرخ حماد ہے :

اس نے جھرنوں کے پانی کی آواز میں جنم لیا
اور سندھ کے پانیوں میں چھپی مٹی سے گھٹی لی
وہ کبھی بوڑھا نہیں ہو گا
قدیم ہو جائے گا
اور قاعدے میں اس کی تصویر
’ق‘ سے قہقہہ ’ق‘ سے قدیم
پڑھانے کے لئے استعمال ہو گی
وہ اپنے دشمنوں کی چاکلیٹ چرا کر
’سنگر سرجینٹ‘ کی ’مادام ایکس‘ دیکھنے
ننگے پاؤں یورپ کا سفر کرے گا
رومی کی قبر پر بوسہ دے گا
اور چناب کے مقدس پانیوں میں سنگم کے بعد
ہم سب سے روٹھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments