یزید کی بیعت کرنے میں کیا حرج تھا؟


8 ذوالحج سن 60 ہجری تاریخ کا ایک عجیب و غریب دن ہے، یہ وہ دن ہے جب امام حسین ؓ اپنے خاندان کے چند افراد اور بیوی بچوں کے ساتھ مکے سے نکلتے ہیں اور کوفے کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ گو کہ امام حسین ؓ کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، وہ کوئی فوج لے کر نہیں جا رہے تھے اور نہ ہی ان کا ارادہ دارالحکومت پر لشکر کشی کا تھا مگر اس کے باوجود محض ان کے اعلان سفر سے ہی ایوان اقتدار میں لرزہ طاری ہو گیا۔ ایک خط میں وہ اپنے اس سفر کے مقصد کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میں تفریحاً یا اپنی کسی غرض کی خاطر نہیں نکلا بلکہ میرا مقصد ان خرابیوں کو درست کرنا ہے جو میرے اسلاف کی قوم میں پیدا ہو چکی ہیں۔ میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا کی روایت اور اپنے والد علیؓ ابن ابی طالب کے طریقے پر چلنا چاہتا ہوں۔ پس جنہوں نے اس حق کو قبول کیا (اور میری پیروی کی) انہوں نے خدا کی راہ کو قبول کیا اور جنہوں نے انکار کیا (اور میری پیروی نہیں کی) ، میں صبر اور استقامت کے ساتھ (اس راہ) پر چلوں گا کہ خدا میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔“

امام حسین ؓ کے بارے میں آج تک لاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں مگر ان کا یہ سفر تاریخ کا ایسا باب ہے جس کے بارے میں زیادہ بحث یہ کی گئی ہے کہ ان کا یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں اور کیا انہیں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یوں نہتے نکلنا چاہیے تھا جب مقصد خلیفہ وقت کے اقتدار کو چیلنج کرنا ہو؟ قطع نظر اس بحث سے، امام حسین ؓ کا مکے سے کوفے تک کا سفر ہی ایک ایسا کارنامہ ہے جو انہیں تاریخ میں امر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر آپ گوگل کھولیں اور اس میں ’مکہ ٹو کوفہ‘ لکھ کر ’پیدل‘ کی ٹیب دبائیں تو آپ کے سامنے صحرائے عرب کا نقشہ کھل جائے گا جس سے پتا چلے گا کہ اس صحرا کو پیدل پار کرنے میں 1615 کلومیٹر اور 326 گھنٹے لگیں گے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ ایک شخص جس کے پاس یہ آپشن موجود ہو کہ وہ آرام سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مکے میں بیٹھے، اقتدار پر قابض شخص کو خلیفہ مان کر اس کی بیعت کرے اور بدلے میں حکومت سے مکمل پروٹوکول اور منہ مانگی مراعات حاصل کر لے، مگر وہ شخص اس آپشن کو استعمال کرنے کی بجائے 1615 کلومیٹر کا صحرا پار کر کے کوفے کی جانب محض اس لیے چل پڑے کہ اس کے باپ اور نانا نے حق کا ساتھ دینے اور باطل کی مخالفت کرنے کی تلقین کی تھی تو ایسے شخص کی شہادت پر چودہ سو سال سے جاری ماتم کی سمجھ آ جاتی ہے۔

اگر امام حسین ؓ یہ سفر نہ کرتے تو پھر ان کا نام حسین ؓ نا ہوتا۔ امام حسین ؓ نے جس قوت ایمانی کے بل پر مکے سے کوفے کا سفر کیا وہ ناقابل یقین ہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کسی شخص کو خدا کی ذات پر کامل ایمان ہو اور اس کے ارادوں کو متزلزل کرنا ممکن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین ؓ کے اس سفر کے اعلان نے ہی دمشق میں قائم باطل حکومت کی بنیادیں ہلا دیں۔ تاریخ میں اگر غیر مسلح جد و جہد کی کوئی بہترین مثال ہو سکتی ہے تو وہ امام حسین ؓ کی ہے۔

یزید کی خلافت کے معاملے میں بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ کیا اس کی حکومت جائز اور قانونی تھی؟ جو لوگ اس کی حکومت کو اس دلیل کے ساتھ جائز مانتے ہیں کہ وہ ’با الفعل حکومت‘ یعنی de facto government تھی تو اس دلیل کی رو سے، مارشل لا سمیت، دنیا کی کسی بھی حکومت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شخص بندوق کے زور پر اقتدار پر قابض ہو جائے یا طاقت کے بل کر اپنی حکومت قائم کر لے تو کیا محض اپنی طاقت کی وجہ سے وہ جائز حکمران بن جائے گا اور اس کی اطاعت، قرآن و سنت کے مطابق، واجب ہو جائے گی؟ ظاہر ہے کہ دین اسلام میں اس قسم کی تشریح کی کوئی گنجایش نہیں، یہ وہی تاویلات ہیں جو نام نہاد نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر تراشی جاتی ہیں۔ ایک ممکنہ دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ یزید مسلمانوں کی بیعت لے کر خلیفہ ’منتخب‘ ہوا تھا لہذا اس کی حکومت مروجہ اسلامی طریقے سے وجود میں آئی تھی۔ اس دلیل میں اس لیے وزن نہیں کہ بیعت لینا ایک جمہوری عمل ہے، یہ ایک قسم کا خلیفہ کا الیکشن ہے جو ’اسمبلی کے نمائندگان‘ کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے، اگر یزید نے امام حسین ؓ سے بیعت لینی تھی تو یہ امام ؓ کا حق تھا کہ وہ بیعت کرتے یا نہ کرتے۔ یہاں ایک باریک نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ اسی صورت میں منتخب ہوتا ہے جب جید مسلمان اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں، یہ کہنا کہ نامزد خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنا ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، دین کی بالکل گمراہ کن تشریح ہے۔ جب ایک شخص پر مسلمانوں کا اتفاق ہی نہیں ہوا تو اس کی نامزدگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے وہ نامزدگی پچھلے خلیفہ نے ہی کیوں نہ کی ہو۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی شہادت سے پہلے چھ صحابہ کی ایک کمیٹی نامزد کی، جن میں حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓ شامل تھے اور فرمایا کہ ان میں سے کسی کو بھی اپنا خلیفہ چن لو۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ چھ کے چھ اصحاب از خود خلیفہ بن گئے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ ان میں سے جس کے نام پر مسلمانوں نے بیعت کی، یعنی حضرت عثمان ؓ، وہی خلیفہ منتخب ہوئے۔ یزید کو اگر امیر معاویہ ؓ نے خلیفہ نامزد کر دیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب اس کی بیعت ہر مسلمان پر فرض ہو گئی اور بیعت نہ کرنے والا ریاست کا باغی ٹھہرا، لہذا تاریخ اسلام کی اس سے زیادہ سفاکانہ تشریح ممکن نہیں کہ یزید کو جائز خلیفہ تسلیم کر لیا جائے۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یزید کی بیعت کرنے میں آخر کیا حرج تھا؟ اس کا جواب واقعہ کربلا نے ہی دے دیا۔ جو شخص خانوادہ رسولﷺ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دے اور خدا کے آخری نبی ﷺ کے نواسے کا سر کاٹ کر اپنے دربار میں منگوائے اور چھڑی سے اس پر ضرب لگائے، کیا وہ شخص مسلمانوں کا خلیفہ بننے کا اہل تھا؟ ایسا شخص تو جائز طریقے سے بھی منتخب ہوجاتا تو اس کے خلاف جد و جہد جائز تھی۔ یہ بات امام حسین ؓ کی شان کے ہی خلاف تھی کہ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرتے، تاریخ نے ثابت کر دیا کہ اگر وہ مکے سے کوفے کا سفر نہ کرتے تو آج مسلمانوں کے پاس حق اور باطل کے معرکے میں حق کا ساتھ دینے کی کوئی دلیل نہ ہوتی۔

(یہ کالم 9 محرم الحرام کو لکھا گیا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments