کربلا ایک تہذیب کا نام ہے


کربلا ایک تہذیب کا نام ہے۔ جہاں آپ کو معاشرے میں موجود ہر طرز کے انسان سے ملنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے تناظر میں لوگ اپنی موجودہ پوزیشن اور اس کے ممکنہ نتائج کا تجزیہ بھی کر سکتا ہے۔

کربلا کا واقعہ کوئی محرم کے دس دنوں میں وقوع پذیر نہیں ہوا۔ اس نہج کو پانے کے لیے قریب ربع صدی کا سفر کیا گیا۔ جہاں حضرت معاویہ (رض) ایک ایسے باپ کی صورت میں نظر آتے جو اپنی اولاد کو قطع نظر کہ وہ اہلیت رکھتا ہے یا نہیں انہیں کامیاب کروانے کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنے وسائل اور اپنی پوزیشن کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

یزید ایک ایسے فرد کا استعارہ ہے جو اقتدار میں مطلق العنانیت کا قائل ہے۔ کائنات کی حقیقت کو طاقت میں چھپے سچ کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس طاقت کے حصول میں وہ ہر حد سے گزرنا بھی گوارا کر لیتے ہیں۔ یزید کی بیعت کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا۔ لیکن اوپر والی دونوں صورتوں کے نتائج حوصلہ افزا نہیں کہے جا سکتے۔ نا تو حضرت امیر معاویہ (رض) کی حسب منشاء ان کی اولاد اقتدار میں رہ کر کامیاب ہو سکی اور نہ ہی یزید اقتدار اور طاقت کو کائنات کی سب سے بڑی سچائی جاننے کی غلطی کرنے کے بعد اقتدار کو مستحکم کر سکا۔ بہر حال ان دونوں طرز کے افراد معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

مکہ اور مدینہ میں بہت سے اصحاب رسول (ص) یا ان کی اولادیں رہائش پذیر تھیں۔ وہ پچھلے بیس پچیس سال سے سیاسی حالات پہ نظر بھی رکھے ہوئے تھے۔ انہیں جب امام حسین (ع) کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے امام حسین (ع) کے مقصد سے اتفاق تو کیا لیکن محتاط طبیعت کے پیش نظر امام حسین (ع) کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں کیا۔ معاشرے میں ایسے لوگ بھی بہت پائے جاتے جو کسی معاملے پہ حق بات کو اچھی طرح سے جانتے ہوتے لیکن دور اندیشی نہ ہونے کے باعث کو ٹھوس فیصلہ نہیں کر پاتے۔

جو محتاط رہتے ہوئے خود کو معاملے سے الگ تھلگ تو کر لیتے لیکن بعد ازاں اس کے اثرات کی زد میں وہ بھی لازمی آتے ہیں۔ امام حسین (ع) نے عراق میں جا کر شہادت دی تو اہالیان مکہ اور مدینہ بھی اسی صورتحال کی زد میں اگلے ہی دو سال میں اپنے اپنے شہروں میں تب آ گئے جب واقعہ کربلا کے بعد مکہ اور مدینہ پہ شام کی افواج نے حملہ کر کے قتل عام کیا۔

کسی بھی معاشرے یا تحریک کے لیے سب سے خطرناک وہ ہجوم ہوتا ہے جو کسی مقصد کے لیے اپنی موجودگی کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ ہم نے اکثر و اوقات دیکھا ہو گا کہ موقعہ پرست افراد اپنے لیڈروں کے سامنے بڑے فلک شگاف نعرے لگاتے نظر آتے ہوں گے کہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن جیسے ہی ان پہ اعتماد کر کے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اپنی پشت ان خیالی حامیوں سے خالی پاتا ہے اور خود کو مصیبت میں گرفتار کر لیتا ہے۔ ایسے افراد کربلا کی تہذیب میں کوفہ میں رہائش پذیر ہیں۔ امام حسین (ع) کو اہل کوفہ اپنے فریب کے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ آپ کو ہزاروں خطوط لکھ کر اپنے پاس بلاتے، اپنی حمایت کا یقین دلاتے لیکن وقت پڑنے پہ آپ کو پہچاننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔

کربلا میں ہمیں عبیداللہ ابن زیاد، عمر ابن سعد اور شمر ذی الجوشن جیسے افراد بھی نظر آتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو امام حسین (ع) کے مقام و مرتبے سے کسی طور غافل نہیں تھے۔ عبیداللہ ابن زیاد کا والد حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کا وفادار گورنر رہا، شمر کی پھوپھی ام البنین حضرت علی (رض) کی زوجہ محترمہ تھیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کربلا ایک حادثاتی غلطی کی بنا پہ ہوا۔ یہ ایک شعوری کوشش کا نام ہے۔ عمر ابن سعد کو کربلا میں حسین (ع) کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عوض رے کے صوبے کی گورنری کا لالچ دیا گیا، ابن زیاد کو بصرہ کے ساتھ ساتھ کوفہ کی گورنری کا لالچ تھا شمر نے خود عمر ابن سعد کے متبادل کے طور پہ پیش کیا۔

یہ سب افراد اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھے ہو چکے تھے کہ اتنا ادراک بھی نہیں کر سکے کہ امام حسین (ع) کوئی نامعلوم شخصیت نہیں اور اگر یہ قتل ہو گئے تو ان کے قتل کے ردعمل میں جو تحریک جنم لے گی وہ سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔ یہ سب افراد کچھ ہی دیر میں اپنے انجام بد تک پہنچ گئے۔ سرکاری اور ریاستی مشینری کے وہ فوجی اور سول افسران جو اپنی ترقی اور حکمرانوں کی نظر میں ترجیح حاصل کرنے کے لیے ہر برے سے برے غیر قانونی اور غیر ائینی اقدام کو اٹھا لیتے ہیں انہیں لازمی طور پہ ان افراد کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

کربلا میں ایک کردار حر بن یزید الریاحی کا بھی ہے۔ یہ معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ باضمیر انسان ہوتے ہیں۔ جب حق اور باطل سامنے آ جائیں تو خود کو نیوٹرل رکھنے کی بجائے اپنا وزن حق کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ حر بن یزید ابن زیاد کے اس لشکر کا سپہ سالار تھا جس نے امام حسین (ع) کے قافلے کو ان کی خواہشات کے برعکس بے آب و گیاہ وادی میں ٹھہرنے پہ مجبور کیا۔ حر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نوبت قتل حسین (ع) تک پہنچ جائے گی۔ دس محرم الحرام جب لڑائی یقینی ہو گئی تو انہوں نے فاتح لشکر کی کمان چھوڑ کر مقتول لشکر کے سپاہی بننے کو ترجیح دی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ کامیابی عارضی ہے۔

کربلا کا اختتام دس محرم کی سہ پہر کو نہیں ہوا بلکہ یہ ایک نئے المیے کا آغاز تھا۔ امام حسین (ع) نے جو قربانی دی وہ یقینی طور پہ کربلا میں فرات کے کنارے گمنام قبروں کی نظر ہو جاتی اگر اس قربانی کو جناب زینب بنت علی (ع) کی صورت میں ترجمان نہ مل جاتا۔ آپ نے جس بہادری اور جرات کا مظاہرہ پہلے کوفہ میں ابن زیاد اور پھر دمشق میں یزید کے دربار میں کیا تاریخ اس کی دوسری مثال ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔ آپ کا کردار معاشرتی اقدار کو اگلی نسل تک پہنچانے، حق کے ابلاغ اور ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے والے ایک پورے انسٹیٹیوٹ کی شکل میں کسی بھی زندہ معاشرے کا طرہ امتیاز ہوتا ہے

امام حسین علیہ السلام کربلا کے ہیرو کے طور پہ سامنے آئے جن کی شہادت کو تاریخ نے المیہ کے طور پہ اپنے سینے میں جگہ دی۔ اسوہ رسول کی بہترین مثال آپ تھے۔ آپ نے یزید کے برعکس اس اصول کو ترجیح دی کہ کائنات کی سب سے بڑی طاقت سچ میں چھپی ہے۔ آپ نے مکہ اور مدینہ میں کثرت سے پائے جانے والے رویے کے برعکس فیصلہ کیا۔ آپ نے خود پہ باغی کا طعنہ پہ سہ لیا لیکن امام حسین (ع) اپنے مقام سے واقف تھے۔ آپ جانتے تھے کہ میرا خاموش رہنا بھی غلط ہو درست قرار دینے کے لیے کافی تھا اس لیے آپ کا قیام یقینی تھا۔

کوئی بھی معاشرہ ایسے رہنما کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو امام حسین (ع) خوبیوں سے مزین نہ ہو۔ ایسا رہنما جو سب سے پہلے ایسے رفقا کی جماعت بنائے جو موت سامنے دیکھ کر چراغ گل کر دینے کے باوجود خیمہ چھوڑ کر نہ جائیں۔

کربلا ایک پوری تہذیب کا نام ہے۔ جس میں ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانک کر نہ صرف اپنے کردار کا جائزہ لے سکتا ہے بلکہ اپنے ممکنہ انجام سے بھی آگاہی پا سکتا ہے۔ اور جائزہ لے سکتا ہے کہ بظاہر نظر آنے والی کامیابی کیا واقعی کامیابی ہے؟ یا کیا وقتی طور پہ نظر آنے والی شکست کیا واقعی شکست ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments