’مجھے ناپاک اور بے شرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ تم امارتِ اسلامی کی توہین کر رہی ہو‘


 

وحیدہ
وحیدہ امیری کو طالبان نے گرفتار کر کے تقریباً انیس روز قید میں رکھا

وحیدہ امیری گذشتہ برس اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے سے پہلے ایک عام لائبریریئن تھیں۔ جب جنگجوؤں نے خواتین سے اُن کے حقوق چھیننے شروع کیے تو وہ ان کے خلاف آواز بن گئیں۔ اُنھوں نے بی بی سی کی سدابا حیدری کو بتایا کہ کیسے طالبان کے خلاف احتجاج کی وجہ سے وہ گرفتار ہوئیں اور اُنھوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا۔


طالبان مجھے جاسوس کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میں ان کے خلاف بغاوت کو جنم دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ میں مشہور ہونے کے لیے سڑکوں پر اُن کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ ایک نے تو مجھ سے کہا ’گھر جاؤ اور کھانا پکاؤ۔‘

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے صرف ایک چیز درکار تھی، افغان خواتین کے لیے یکساں حقوق، سکول جانے، کام کرنے اور اپنی بات سامنے رکھنے کا حق۔ کیا میں بہت زیادہ کچھ مانگ رہی تھی؟

جس روز وہ ہمیں گرفتار کرنے کے لیے آئے، پورے کابل میں جیسے سناٹا چھا گیا تھا۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ایسی متعدد خواتین جنھوں نے طالبان کے خلاف آواز بلند کی تھی انھیں گرفتار کیا جا رہا تھا، اس لیے ہم محفوظ ٹھکانوں پر رہ رہے تھے۔

طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے میں ایک مضبوط اور باہمت خاتون کی طرح زندگی جینے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں سڑکوں پر اُن کے خلاف احتجاج بھی کر رہی تھی۔ میں نے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا ’تم مجھ سے کسی دوسرے درجے کے شہری کی طرح پیش نہیں آ سکتے ہو۔ میں ایک عورت ہوں اور تمھارے برابر ہوں۔‘

اور اب میں ایک نامعلوم جگہ مقیم تھی۔ مجھے میرا جرم نہیں پتا لیکن میں پھر بھی اس خوف میں جی رہی ہوں کہ وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔

وحیدہ
وحیدہ کابل کی ایک لائبریری میں کام کرتی تھیں

اچانک باہر گاڑیوں کے پہیوں کی آواز سُنائی دی اور گاڑیاں وہاں آ کر رک گئیں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کتنی گاڑیاں تھیں یا کتنے لوگ تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لوگ چند خواتین کو نہیں بلکہ پورے گاؤں کو ہی گرفتار کرنے آئے ہوں۔ ان خواتین کو جو اپنے ہی ملک میں آزادی سے جینے کی خواہشمند تھیں۔

جب وہ میرے کمرے میں داخل ہوئے تو میری سہیلیوں کی چیخوں کے درمیان بھی میں اُن کی آواز سُن پا رہی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے ’تمہیں وحیدہ ملی کیا؟ کہاں ہے وہ؟‘ مجھے لگا کہ وہ میری زندگی کی آخری گھڑیاں تھیں۔

کتابوں سے لگاؤ

15 اگست 2021 سے قبل میں ایک عام خاتون تھی۔ میں نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور 33 برس کی عمر میں کابل کی ایک لائبریری میں کام کر رہی تھی۔

اس لائبریری میں مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہاں کوئی بھی آ سکتا تھا، خاص طور پر خواتین۔ ہم سب آپس میں کبھی کبھی چائے پینے کے ساتھ ساتھ فیمینزم کی باتیں کرتی تھیں۔ افغانستان کی الائچی والی چائے۔ افغانستان کوئی بہترین ملک تو نہیں تھا لیکن کم از کم ہمارے پاس ہمارے حصے کی آزادی تھی۔

مجھے کتابوں سے بہت لگاؤ تھا کیونکہ 20 برس کی عمر تک تو میں خود پڑھ بھی نہیں پاتی تھی۔

جب نوے کی دہائی میں طالبان نے پہلی بار افغانستان میں اپنے سیاہ اور سفید رنگوں والے پرچم لہرائے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، ان دنوں میں نے سکول جانا شروع ہی کیا تھا۔ یہ سنہ 1996 کی بات ہے۔ ان کے ابتدائی احکامات میں لڑکیوں کے سکول بند کرنے کا حکم بھی شامل تھا۔

تب ہمارے سبھی رشتہ دار پنجشیر منتقل ہو گئے۔ یہ شمال کے پہاڑی علاقے میں ہے اور ہمارا آبائی ٹھکانہ بھی۔ لیکن میرے والد نے کابل میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور میری والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے دوسری شادی کر لی۔ اس کے بعد کے برس میری زندگی کا بہت مشکل دور تھا۔

لڑکیاں
وحیدہ کی خواہش ہے کہ طالبان لڑکیوں کے سکولوں کو دوبارہ کھول دیں

ہم لوگ پاکستان چلے گئے اور گھر کی تمام ذمہ داریاں میرے کاندھوں پر آ گئیں۔ میں دن بھر کھانا پکاتی، صفائی کرتی اور جھاڑو پوچا لگاتی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید آئندہ زندگی ایسے ہی گزرے گی۔ لیکن پھر 11 ستمبر 2011 کو امریکہ کا ٹوئن ٹاور تباہ ہو گیا۔

وہ دن جس نے افغانستان میں رہنے والے عام شہریوں کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس دن کیا ہوا تھا یہ سمجھنے میں بھی مجھےکافی وقت لگ گیا۔ آنے والے وقت میں طالبان کو شکست ہوئی اور ہم پاکستان سے واپس افغانستان اپنے گھروں کو لوٹ سکے۔ میں نے سوچا تھا کہ اب دوبارہ کبھی ہم پناہ گزینوں کی زندگی نہیں جی رہے ہوں گے اور نہ ہی میں کبھی پاکستان لوٹوں گی۔

جب ہم کابل واپس گئے اس وقت میں 15 برس کی تھی۔ طالبان کے جانے کے بعد کابل میں زندگی بہت مختلف تھی۔ لڑکیاں سکول جایا کرتی تھیں اور خواتین گھر کے باہر کام کر سکتی تھیں۔ حالانکہ میری زندگی بہت نہیں بدلی۔ میرے خاندان کے لیے لڑکیوں کا گھر کے کام کاج کرنا، صفائی کرنا اور مہمانوں کو خیال رکھنا میری تعلیم سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ میں وہی زندگی گزار رہی تھی اور تقریباً پانچ برس بعد میرے کزن نے میرا سکول میں دوبارہ داخلہ کرانے میں میری مدد کی۔

مجھے کتابوں میں شائع حروف عجیب سے لگتے تھے۔ وہ سب کیا لکھا ہوتا تھا اس وقت میری سمجھ سے باہر تھا۔ میں اپنے امتحانات بھی دے رہی تھی اور اس درمیان گھر پر جھاڑو پوچا بھی کر رہی تھی۔ میں بار بار فیل ہوتی تھی۔ لیکن میں تب تک کوشش کرتی رہی جب تک پاس نہیں ہو گئی۔

وہ کوئی کرشمہ ہی تھا کہ میرا قانون کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا۔ میں بہت ہی شرمیلی قسم کی لڑکی تھی۔ اور پھر ایک خاتون نے میری زندگی کو متاثر کیا۔ ان کا نام ہے ورجینیا وولف۔ ان کا ایک مضمون تھا ’اے روم آف ونز اون‘۔

اسے پڑھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میرا نیا جنم ہوا ہو۔ مجھے اس کتاب نے وہ سب کچھ سمجھنے میں مدد کی جو مجھے بہت پہلے سمجھ آ جانا چاہیے تھا۔ اسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ میں ایک مضبوط عورت ہوں جس کے خود اپنے بھی خیالات ہیں۔

کابل پر طالبان کا کنٹرول

گذشتہ سال اگست میں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ ایک ایسا بُرا خواب جو میری زندگی کو ایک بار متاثر کر چکا تھا اس نے دوبارہ حقیقت کی شکل اختیار کر لی۔ طالبان ایک بار پھر وہی سیاہ اور سفید پرچم لہراتے ہوئے کابل میں داخل ہو گئے تھے۔

فرق اتنا تھا کہ اس بار ہم 1996 نہیں 2021 میں جی رہے تھے۔ میں اب بچی نہیں تھی۔ میں اب تعلیم یافتہ تھی۔ میں اپنی زندگی کو دوبارہ جمود کا شکار کرنے کے لیے جس عذاب سے گزر چکی تھی اس کے بعد میں اپنی زندگی کا اختیار کسی اور کے ہاتھوں میں اتنی آسانی سے سونپ دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میری طرح اور بھی خواتین تھیں جو میرے جیسا محسوس کرتی تھیں۔ ہمیں پتا تھا کہ طالبان کی مخالفت ہمیں مہنگی پڑے گی لیکن پھر بھی ہم نے طے کیا کہ ہم احتجاج کریں گی۔

وحیدہ

Wahida Amiri
کابل میں وحیدہ(دائیں) نے طالبان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا

تب تک طالبان اپنے اصل رنگ دکھا چکے تھے۔ انھوں نے اپنے اس وعدے کی خلاف ورزی کی کہ وہ خواتین کو نوکری کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں گے۔ انھوں نے اپنی نئی حکومت کا اعلان کیا جس میں ایک بھی خاتون نہیں تھی۔

جب ہم نے احتجاجی مظاہرے شروع کیے تو ہمیں طالبان سے ڈر لگتا تھا۔ وہ کبھی ہم پر آنسو گیس چھوڑتے تو کبھی فضائی فائرنگ کر کے ڈرانے کی کوشش کرتے۔ کچھ خواتین کو تو انھوں نے پیٹا بھی تھا۔ پھر انھوں نے مظاہروں پر مکمل پابندی لگا دی۔

بہت سی خواتین کو لگا کہ اس میں بہت خطرہ ہے اور انھوں نے اپنے قدم پیچھے کر لیے۔ لیکن وہ مجھے نہیں روک سکیں۔

میں نے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد جاری رکھا۔ حالانکہ ہر مظاہرے سے ایک رات قبل میں سو نہیں پاتی تھی۔ میں سوچتی رہتی تھی کہ شاید اگلا دن میری زندگی کا آخری دن ہو گا۔

طالبان کے خلاف احتجاج
طالبان کے ہاتھوں خواتین کی گرفتری کی بین الاقوامی سطح پر مزمت ہوئی

گرفتاری

افغانستان میں اگر کوئی عورت گرفتار کر لی جاتی ہے تو یہ اس کے لیے بہت بڑی بےعزتی سمجھی جاتی تھی۔ ایک عام خیال یہ ہوتا ہے کہ اس عورت کا ریپ ہو گیا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو کسی بھی خاتون کے لیے افغانستان میں سب سے زیادہ شرمناک بات سمجھی جاتی ہے۔

فروری 2022 میں اس روز جب طالبان ہماری محفوظ گاہ میں ہمیں گرفتار کرنے کے لیے داخل ہو گئے تو ہم سے کہا گیا کہ ہم اپنے فون ان کے حوالے کر دیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے سانس نہ آ رہی ہو۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اب آگے کیا ہو گا۔ کبھی لگتا تھا کہ وہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔ کبھی دل میں خیال آتا تھا کہ کیا مجھے گینگ ریپ کریں گے؟ یا پھر کیا مجھے ٹارچر کریں گے؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے میری روح میرا جسم چھوڑ چکی ہو۔

ہم سب کو ایک ٹرک میں چڑھایا گیا اور وزارت داخلہ کے دفتر لے جایا گیا۔ ہم ایک بڑے سے ہال میں پہنچیں اور وہاں سے ایک کمرے میں لے جایا گیا جو وزارت میں نرسری روم تھا۔ حالانکہ اسے دیکھ کر ایسا بالکل نہیں لگ رہا تھا کیونکہ وہاں کھلونے تھے اور نہ ہی بچوں کی کوئی پینٹنگز۔ ایک کونے میں افغانستان کے کچھ پرچم جمع تھے۔ دیوار پر ملک کے نقشے کی ایک بڑی تصویر تھی۔

اگلے 19 روز تک ہمیں وہیں رکھا جانا تھا۔

گرفتاری والے دن ایک طالبان جنگجو دروازے کو دھکہ دے کر اندر آ گیا۔ اس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی اور پھر مجھ پر نظر پڑتے ہی گالیاں دینے لگا۔ اس نے مجھے ’ناپاک‘ اور ’بے شرم‘ قرار دیا۔ اس نے کہا ’تم پچھلے چھ ماہ سے اسلامی امارات کی توہین کر رہی ہو۔ اور کون کون تمہارے ساتھ ہے؟‘

میں نے ان سے کہا میرے ساتھ کوئی نہیں ہے اور میں جو کچھ کر رہی ہوں اس کے لیے خود ذمہ دار ہوں۔ پھر اس نے میرے ہاتھ میں ایک کاغذ اور قلم تھما کر کہا ’تم جاسوس ہو۔ اپنے تمام ساتھیوں کے نام یہاں لکھو۔‘

وحیدہ

Wahida Amiri
طالبان افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آگئیں

میرا تعلق پنجشیر سے ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے طالبان کی مخالفت کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہیں لگا وہاں کے مقامی مسلح جنگجوؤں کے نیشنل ریزیڈینٹ فرنٹ سے مجھے مدد حاصل ہے۔

گرفتاری کے بعد کے دن بہت آہستہ آہستہ گزرے۔ ایک ایک کر کے سبھی خواتین کو آزاد کیا جا رہا تھا لیکن مجھے نہیں چھوڑا گیا۔ پھر ایک دن وہ کیمرا لے کر آئے۔ جو خواتین باقی تھیں ان سے کہا گیا کہ ان سے جو سوال پوچھے جائیں ان کے کیمرے میں دیکھ کر جواب دیں۔

جب ہم نے ان سے پوچھا کہ اس ریکارڈنگ کا کیا مقصد ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ وزارت کے ریکارڈ میں رکھیں گے۔ ہم سے کہا گیا کہ ہم پہلے اپنے نام بتائیں، پھر بتائیں کہ ہمارا کہان سے تعلق ہے اور پھر یہ کہ کون ہماری مدد کر رہا ہے۔ انھوں نے ہمیں یہ کہنے پر مجبور کیا کہ غیر ملکی افغان کارکنان نے ہمیں احتجاج کے لیے ورغلایا تھا۔

ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ اس ریکارڈنگ کے ذریعے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم نے محض مشہور ہونے کے لیے وہ اقدامات کیے اور ان لوگوں کا سہارا لیا جو ہمیں افغانستان سے باہر نکلنے میں مدد کر سکیں۔

انھوں نے یہ ریکارڈنگ میڈیا کو سونپ دی۔ ہم نے وزارت کے ہال میں ایک چھوٹے سے ٹی وی پر اپنی اس ویڈیو کو دیکھا۔ یہ دیکھ کر ہم سبھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اب سبھی کو پتا چل چکا تھا کہ ہمیں طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔ انھوں نے ہمارے ساتھ ریپ نہیں کیا، لیکن بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان نے ہمارے ساتھ ایسا کیا ہو گا۔

وحیدہ
وحیدہ افغان خواتین کی جانب سے طالبان کی مخالفت میں کیے گئے اقدامات کے بارے میں دنیا کو بتانا چاہتی ہیں

دو دن تک ہم سے جبراً یہ ریکارڈنگز حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ حالانکہ ہمیں اس کی قیمت ادا کرنی تھی۔ انھوں نے ہم سے وعدہ لیا کہ ہم دوبارہ کبھی احتجاج نہیں کریں گی۔

کابل میں ٹھنڈ کا موسم تھا اور سڑکیں خاموش۔ ہم جب گھر جا رہے تھے تو میرا بڑا بھائی راستے بھر مجھے برا بھلا کہتا رہا۔ اس نے کہا ’تم آخر سوچ کیا رہی تھی وحیدہ؟ کیا واقعی تمہیں لگ رہا تھا تم طالبان کو شکست دے دو گی؟ مجھے بہت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ میری نوکری چلی گئی تھی، میری آزادی مجھ سے چھن گئی تھی اور اس کے خلاف احتجاج کرنے کا بھی اختیار مجھ سے چھن جانے کے بعد مجھے زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آ رہا تھا۔

ایک دن میں نے ایک انٹرویو پڑھا جس میں متاثرہ خاتون نے اپنا نام بتائے بغیر بتایا تھا کہ طالبان نے حراست میں انھیں پیٹا بھی تھا۔ یہ سچ نہیں تھا۔ میرے خاندان والے مجھ سے کہنے لگے کہ میں کابل چھوڑ کر چلی جاؤں کیوں کہ انھیں ڈر تھا کہ طالبان اب اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد غصے میں کچھ بھی کر سکتے تھے۔

اس لیے رہائی کے تقریباً دو ماہ بعد میں نے اپنا ایک چھوٹا سا بیگ باندھا جس میں کچھ کپڑے اور کتابیں رکھیں۔ ان میں ’اے روم آف ونز اون‘ بھی شامل تھی۔ اس روز میں نے اپنے وطن کو خدا حافظ کہہ دیا۔

وحیدہ امیری

میں نے علی الصبح افغانستان چھوڑ دیا اور پاکستان آ گئی۔

میں پیچھے اپنی کتابوں کی الماری، اپنی لائبریری اور وہ سب کچھ چھوڑ آئی تھی جو مجھے عزیز تھا۔ آخری بار اس لائبریری میں میں نے طالبان کے کابل پر کنٹرول سے ایک روز قبل قدم رکھا تھا۔ کبھی کبھی میں ان کتابوں کے بارے میں سوچتی ہوں کہ آخر ان کا کیا ہوا ہو گا؟ کیا اب بھی وہ وہاں ہوں گی؟

اپنی ماضی کی زندگی میں میں ایک لائبریریئن تھی اور اب میں ایک پناہ گزین ہوں۔

ایک نئی زندگی

میں پاکستان میں متعدد خاندانوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ میں اپنی کتابوں کو گھورتی رہتی ہوں لیکن ہمت نہیں ہوتی کہ انھیں کھول کر صفحے پلٹ سکوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں کسی ایسی جگہ پھنس گئی ہوں جہاں میں خواب دیکھ سکتی ہوں نہ ہی حقیقت کا سامنا کر سکتی ہوں۔ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں۔

آج بھی میرے ملک میں خواتین کی آواز کو خاموش کیا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ طالبان کی واضح مخالفت کرنے سے ڈرتے ہیں۔ میں ذہن بھٹکانے کے لیے کبھی کبھی پارک چلی جاتی ہوں، لیکن میرے اپنے لوگوں کا خیال کبھی ذہن سے نہیں جاتا۔ مجھے میرا گھر، گھر والے اور میری بلی بہت یاد آتی ہے۔

ایک چیز ہے جو مجھے کچھ راحت دے پاتی ہے، قریب ہی واقع ایک افغان ریستوران۔

آج کل میں ایک مقامی لائبریری میں زیادہ وقت گزارتی ہوں۔ میرا احتجاج میں جن خواتین نے ساتھ دیا ان کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہ بھی لکھتی ہوں کہ ہماری زندگیاں کیسی ہوا کرتی تھیں اور طالبان کے کنٹرول کے بعد وہ کتنی بدل گئیں۔

وحیدہ
وحیدہ افغان خواتین کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھ رہی ہیں

میں امید کرتی ہوں کہ میں جو لکھ رہی ہوں وہ ایک دن کتاب کا روپ اختیار کر سکے۔ میں چاہتی ہوں کہ دنیا کو ایک دن یہ معلوم ہو سکے کہ افغان خواتین نے ہتھیار نہیں ڈالے، انھوں نے اپنے حصے کی لڑائی لڑی، اور جب انھیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انھوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

میں جرمنی سے لے کر امریکہ تک دنیا بھر میں مقیم افغان خواتین سے بات کرتی رہی ہوں تاکہ ہم طالبان کے خلاف ایک عالمی مہم چھیڑ سکیں۔

میرا مقصد ہے کہ بین الاقوامی برادری انپیں ایک باضابطہ حکومت کے طور پر کبھی قبول نہ کرے۔ میں چاہوں گی کہ وہ طالبان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سکولوں کو دوبارہ کھولیں تاکہ لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکیں اور ہم اپنے ہی ملک میں آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

میں نے اپنی زندگی کا بہت عرصہ ایسا گزارا ہے جب میں پڑھ لکھ نہیں سکتی تھی۔ میں ابھی بھی بہت سی باتیں ویسے نہیں کہہ پاتی ہوں جیسے کہی جانی چاہئیں۔ میں نہیں چاہوں گی کہ میرے ملک کی مستقبل کی نسلوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔

تصاویر بشکریہ: منزہ انوار اور موسیٰ یاوری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments