شہباز گل کی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کا ذمہ دار کون؟


پچھلے 50 سال سے زائد صحافت کی وادی میں سرگرداں ہوں میدان سیاست کا شہسوار تو نہیں لیکن سیاست دانوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن نوابزادہ نصر اللہ خان، مفتی محمود، سرحدی گاندھی باچا خان عبد الغفار خان، خان عبدالولی خان، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، شاہ احمد نورانی پروفیسر غفور احمد، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، میر ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری ظہور الہی، چوہدری نثار علی خان اور عمران خان سمیت الغرض پاکستان کے ہر نامور سیاست دان کی محفل میں بیٹھنے اور ان سے کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔

کچھ کے ساتھ ذاتی سطح پر تعلقات قائم ہو گئے اور کچھ سے رسمی علیک سلیک رہی البتہ روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کے چیف رپورٹر کی حیثیت سے 41 سال کی ملازمت کے دوران پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی کوریج کا خوب موقع ملا کالم نویسی اور خبر نگاری سے سیاست دانوں سے ذاتی سطح پر تعلقات قائم ہوئے کچھ سے قریبی تعلقات قائم ہوئے جو اب تک قائم ہیں۔ کچھ سے صرف پیشہ ورانہ حد تک روابط ہیں۔ میاں نواز شریف سے دوستی چار دہائیوں پر محیط ہے۔

میں 16 سال تک راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب ( اب نیشنل پریس کلب) کا صدر رہا۔ پریس کلب کی بادشاہت کے دوران پاکستان کے کم و بیش تمام چیدہ چیدہ سیاست دانوں روابط رہے ہیں۔ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ سیاست دانوں کا جھولی بردار نہ بنا البتہ نظریاتی طور پر پچھلے 50 سال سے دائیں بازو سے رشتہ استوار ہے اور دائیں بازو سے تعلق پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ غالباً 1993 ء میں عمران خان پہلی بار سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو میں نے ان کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب (اب نیشنل پریس کلب ) کے میٹ دی پریس پروگرام میں مدعو کیا۔ یہیں سے عمران خان سے تعلق پیدا ہوا جو محض ان کی سوچ و فکر سے ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث دوستی کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ خداوند کریم کا شکر ہے کہ میں ان کی دعوت پر ان کے تھنک ٹینک کا حصہ نہ بنا ورنہ پچھلے 30 سال کے دوران ان کے تھنک ٹینک کا حصہ بننے والوں کا جو حشر ہوا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔

شہباز گل نامی شخص عمران خان کی تازہ ترین دریافت ہے۔ ہم نے عمران خان کی حکومت سے قبل ان کا نام نہیں سنا تھا لیکن پچھلے چار سالوں کے دوران انہوں نے عمران خان کے مخالفین کی بھد اڑانے اور یاوہ گوئی میں شہرت پائی۔ وہ عمران خان کے پسندیدہ ساتھی بن گئے جب کہ مخالفین کے لئے ان کی حیثیت ناپسندیدہ شخص کی ہو گئی ان کا لب و لہجہ اور تکیہ کلام عمران خان کو بہت پسند ہے جب کہ مخالفین شہباز گل کی حرکات سے اس حد تک ناخوش ہیں کہ وہ جہاں نظر آتے کوئی کھڑاک ہو جاتا۔

یہی وجہ ہے کسی جگہ عمران خان کے مخالفین ان کی درگت بنانے کے لئے ان کا تعاقب کرتے ہیں اور کسی عدالت میں نظر آ جائیں تو مسلم لیگی کارکن گندے انڈے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے خلاف مسلم لیگی کارکنوں میں اس قدر شدید رد عمل پایا جاتا ہے کہ وہ ان کا منہ کالا کرنے کے لئے ان کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں۔ کچھ عرصہ تک وہ وزیر اعلی پنجاب عثمان دار کے ترجمان بنے لیکن جلد ہی انہوں نے چھٹی کرا دی۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط رہے۔ متنازعہ بیانات دینے میں فواد چوہدری کو بھی مات دے دی۔ یہی وجہ ہے جب عمران خان اقتدار سے محروم ہوئے تو وہ ان کے چیف آف سٹاف بن گئے۔

قبل ازیں یہ عہدہ نعیم الحق کے پاس تھا۔ عمران خان نے ان کو یہ عہدہ اپنا بہت ہی قابل اعتماد ساتھی ہونے کی وجہ سے دیا ہے۔ ہم نے فوج میں اس عہدہ کے بارے میں سنا تھا۔ عمران خان نے چیف آف سٹاف کا نیا عہدہ متعارف کرایا ہے پھر اس چیف آف سٹاف نے جو گل کھائے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس بے مہار روش نے ان کو بغاوت اور غداری کے الزام میں جیل یاترا کرا دی دلچسپ امر یہ ہے۔ پچھلے 29، 30 سال کے دوران پی ٹی آئی میں کئی لوگ آئے کئی چھوڑ کر چلے گئے۔

ڈاکٹر شہباز گل کے سیاسی کیریئر کے بارے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما بھی کچھ زیادہ نہیں جانتے ان کا تعلق فیصل آباد کے ایک دور افتادہ گاؤں سے بتایا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم فیصل آباد میں ہی حاصل کی۔ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی سے ماسٹرز کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے ملائشیا چلے گئے۔ ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انہیں 2007 میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری مل گئی تاہم چند ماہ بعد ہی بوجوہ انھیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ 2018 میں انتخابات کے بعد ڈاکٹر شہباز گل نامی شخص کو وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا ترجمان مقرر کر دیا گیا تو انہوں نے خود اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ وہ فی الحال اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں۔ چند دنوں میں پاکستان آ رہے ہیں۔

یہ مختصر تعارف شہباز گل کا تھا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ان کے پاس امریکہ میں رہائش کا جو گرین کارڈ ہے اس پر محمد ایس شبیر لکھا ہوا ہے۔ شہباز گل تو آئے عثمان بزدار کی امیج بلڈنگ کرنے لیکن انہوں نے اپنی امیج بلڈنگ شروع کر دی اور ایسا انداز تکلم اختیار کیا جو عام لوگوں میں تو نفرت کا باعث بنا لیکن انہوں نے عمران کے دل میں ایسی جگہ بنائی کہ انہوں نے اسے اپنا پاس ہی بلا لیا۔

شہباز گل کے بارے میں گوگل کچھ زیادہ بتانے سے قاصر ہے۔ گوگل کے مطابق انہوں نے ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں بطور وزٹنگ پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں جب کہ ڈاکٹر شہباز گل انٹرنیشنل مارکیٹنگ اور انٹرنیشنل بزنس کے مضامین پر عبور رکھتے ہیں۔ شہباز گل نے بتایا ہے۔ انہوں نے پوسٹ ڈاکٹریٹ امریکہ سے کیا ہے اور اس کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔ ان کا مضمون ’لیڈرشپ‘ تھا۔

نہ تو پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں ان کا شمار ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا سیاسی کیریر ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو وہ پی ٹی آئی میں پیرا ٹروپر تھے تو بہتر ہو گا۔ وہ عمران خان کی دریافت ہیں۔ عمران خان سے ان کا تعلق 4/2003 میں امریکہ میں قائم ہوا۔ ان کی پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت 2017 اور 2018 میں الیکشن مہم کے دوران ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ عمران خان نے شہباز گل کو خصوصی طور پر امریکہ سے بلوایا اور ان کے لئے بنی گالا میں اپنے محل میں قیام کا اعزاز بخشا

عمران خان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے شہباز گل نے نے عمران خان کے دل میں جگہ بنا لی ہے اور عمران خان اپنی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو شہباز گل کا انداز تکلم اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ شنید ہے کہ شہباز گل عمران خان کی کمزوری بن گئے ہیں۔ ان کو عمران خان کا تقریر نویس ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی بھد اڑانے اور گالم گلوچ کرنے پر ان کو بنی گالہ کے مکین کے ہاں خاص مصاحب کی حیثیت حاصل ہے۔ جب انہوں نے مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کے بارے میں ذو معنی گفتگو کی تو مسلم لیگی کارکن ان کی درگت بنانے کے لئے تعاقب کرتے تھے۔ شہباز گل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ عمران خان کے دستر خوان کا ساتھی ہونے کے ناتے جہاں بیورو کریسی کو خاطر میں نہیں لاتے وہاں خان صاحب پارٹی کے جس لیڈر کی بے عزتی کرنا چاہتے میٹنگ میں شہباز گل سے اس کی بے عزتی کروا دیتے۔

شہباز گل کی یہ عادت بن گئی تھی کہ وہ ہر معاملہ میں ٹانگ اڑانا اپنا استحقاق سمجھتے تھے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر ان کے خلاف لاوا پک رہا تھا۔ شہباز گل نے تین چار روز قبل ایک نجی ٹیلی ویژن پر فوج کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی اس پر ان کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ بن گیا حیران کن بات یہ ہے۔ ان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر اظہار یک جہتی کے لئے پارٹی کا کوئی بڑا لیڈر یا کارکن نہیں آیا بلکہ مجموعی طور پارٹی کے بیشتر رہنماؤں نے شہباز گل کی گفتگو پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے شہباز گل کے بیان سے نہ تو اظہار لا تعلقی کیا اور نہ ہی تائید بلکہ کہا ہے شہباز گل نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اسے صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی اور شاہ محمود قریشی نے تو شہباز گل کے بیان کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے۔

اسلام آباد پولیس نے بنی گالہ میں عمران خان کے محل کے سامنے سے ڈرامائی انداز میں سابق وزیر اعظم کے چیف آف سٹاف شہباز گل فوج کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ سر دست وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ ان کی کوہسار تھانے میں فرش پر بیٹھی ہوئی ایک تصویر وائرل کی گئی ہے جس سے ان کی مظلومیت اور بے بسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ کاش کہ شہباز گل کا سیاسی کیریر ہوتا اور ان کے ساتھ پارٹی بھی ہوتی شہباز گل متنازعہ بیان پر رجوع کر لیتے تو ممکن ہے ان کا معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جس پر وہ شرمندہ ہوں اور ان کا فوج سے محبت کرنے والا بیان ہے۔

سرکار کی مدعیت میں اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شہباز گل نے اپنے بیان کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانے، فوج کو تقسیم کرنے، فوجی جوانوں کو اپنے افسران کا حکم نہ ماننے کی ترغیب دینے، فوج کے خلاف عوام کو نفرت پر اکسانے اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

عمران خان اس بات پر مصر ہیں۔ ’شہباز گل کو گرفتار نہیں اغوا کیا گیا ہے۔ ‘ ٹویٹر پر انہوں نے کہا ہے کہ کیا ایسی شرمناک حرکتیں کسی بھی جمہوریت میں ممکن ہیں؟ سیاسی کارکنوں کے ساتھ دشمن جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے تاکہ ہم بیرونی حمایت یافتہ چوروں کی حکومت تسلیم کر لیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی دھڑا دھڑ بیانات داغ رہے ہیں کہ شہباز گل کے گرفتاری کے بعد اس پورے معاملے میں تفتیش جاری ہے اور مزید تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی نام سامنے آئے گا۔ اس کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ 26 مئی 2020 کو دنیا نیوز کے پروگرام ’مذاق رات‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شہباز گل نے بتایا تھا کہ جب ان کو ملازمت ملی تو انہوں اپنی تنخواہ سے جو جوتے خریدے وہ آج بھی ان کے پاس محفوظ ہیں۔

شہباز گل کی گرفتاری سے پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ زبان درازی پر اس کی بھی گرفتاری عمل میں آ سکتی ہے۔ حکومتی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے۔ شہباز گل کی گفتگو کو عمران خان کا لکھا ہوا سکرپٹ قرار دے رہے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ اس گفتگو کے ڈانڈے عمران خان سے ملائے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے۔ فوری طور عمران خان کو شامل تفتیش نہ کیا جائے لیکن انہوں نے نیوٹرلز، میر جعفر و صادق کی رٹ ختم نہ کی تو وہ بھی قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے شہباز گل کی قابل اعتراض گفتگو کو ٹی وی پروڈیوسر نے کٹ نہیں کیا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی نے مختلف طریقوں فوج کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ سانحہ لسبیلہ کے تناظر میں سوشل میڈیا پر منفی مہم اور شہباز گل کا بیان تو انتہا تھی جس کے بعد بھی حکومت اور ریاستی اداروں کی خاموشی نا قابل معافی تھی۔ کبھی عسکری قیادت کو میر جعفر قرار دیا جاتا ہے تو پھر اگلے روز یو ٹرن لے کر کہا جاتا ہے کہ وہ شہباز شریف کو کہا گیا ہے۔

کبھی نیوٹرل کو جانور قرار دیا جاتا ہے جب فوج میں بغاوت اور ملک کے اداروں کے خلاف جنگ پر اکسانے کی کوشش کی گئی تو قانون حرکت میں آ گیا وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل اور اے آر وائی کی انتظامیہ نے ’ملی بھگت کے ساتھ ایک سازش تیار کی اور شہباز گل نے اسی سازش کے تحت تحریر شدہ بیان ٹی وی پر فون کال کے دوران دہرایا۔‘ شہباز گل پاکستان کے پہلے شخص نہیں جن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا ہے۔

ماضی میں کئی قد آور شخصیات کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج ہوئے ہیں لیکن ان کا شہباز گل کے مقابلے میں بڑا قد کاٹھ ہے۔ مریم نواز کے خلاف پولیس نے 2020 ء میں ”بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ نواز شریف او مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں کے خلاف درج اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے اپنی تقاریر میں فوجی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ’مقدمے میں کہا گیا تھا۔ کہ‘ نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے کی گئی تقاریر میں کھلے عوام کو فوج کے خلاف بغاوت کی ترغیب دی تھی۔

تاہم کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوئی ایف آئی آر تاحال درج ہے لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی لیکن شہباز گل کی گفتگو اس حد تک قابل اعتراض تھی کہ فی الفور گرفتاری عمل میں آ گئی مخدوم جاوید ہاشمی کو 2003 میں“ قومی قیادت کے نام فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر کے لیٹر ہیڈ پر لکھا گیا تھا۔ خط پڑھنے کے جرم میں 23 سال کی قید ہو چکی ہے۔ 4 سال جیل کاٹنے کے بعد 2007 ء میں سپریم کورٹ نے مخدوم جاوید ہاشمی کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

فروری 1951 میں 13 فوجی افسروں اور چار سویلین کو جن میں میجر جنرل اکبر خان، شاعر فیض احمد فیض او میجر اسحاق شامل تھے۔ کو گرفتار کر کے راولپنڈی سازش کیس کے نام سے کیس چلایا گیا۔ میجر جنرل اکبر خان کو 12 سال قید کی سزا سنائی گئی جب کہ دوسرے تمام فوجی افسروں کو بھی سزائیں سنائی گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے بغاوت کا یہ مقدمہ کیا رخ اختیار کرتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments