کیا آپ جذباتی طور پر غیر حاضر رہتے ہیں؟


ایک دن جب میری ٹرینیڈاڈ کی مریضہ نورما نے مجھ سے کہا کہ اس کا تیس سالہ بیٹا پول اپنے نفسیاتی مسئلے کے حوالے سے مجھ سے مشورہ کرنا چاہتا ہے تو میں نے اسے اپائنٹمنٹ دے دی۔

اپنے انٹرویو کے دوران جب میں نے پول سے پوچھا کہ میں اس کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں تو وہ کہنے لگا

’ میری شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں۔ میں اپنی بیوی سے محبت کرتا ہوں لیکن اسے مجھ سے ایک شکایت ہے۔ ہو سکتا ہے آپ مجھے اس کی شکایت سمجھا سکیں اور مجھے اس شکایت کو دور کرنے میں مدد کر سکیں؟‘

’وہ شکایت کیا ہے؟‘ میں متجسس تھا
’وہ کہتی ہے
YOU ARE EMOTIONALLY UNAVAILABLE
تم جذباتی عدم دستیابی کا شکار ہو ’

میں اپنے کلینک میں بہت سی ایسی عورتوں سے مل چکا ہوں جنہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا شوہر یا محبوب جذباتی طور پر غیر حاضر رہتا ہے۔

ایسی عورتیں شوہروں کی موجودگی میں بھی تنہا محسوس کرتی ہیں اور احساس تنہائی کا شکار رہتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر ان سے دل کی باتیں نہیں کرتے۔ وہ برسوں شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے بھی یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اجنبی ہیں۔ غیر ہیں۔ پرائی ہیں۔ اپنی نہیں ہیں۔

پول کے انٹرویو سے اگلے ہفتے میں نے ایک اور مریضہ کیتھی سے پوچھا
’کیا آپ کے شوہر جذباتی طور پر غیر حاضر رہتے ہیں؟‘
کہنے لگی ’ہاں‘
میں نے کہا ’کیا آپ اس جذباتی عدم دستیابی کی کوئی مثال دے سکتی ہیں‘
کیتھی کچھ دیر سوچتی رہی جیسے ماضی کے واقعات یاد کر رہی ہو۔ پھر کہنے لگی

’مجھے چند برس پیشتر کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ایک شام میں اپنے شوہر کے ساتھ چہل قدمی کر رہی تھی۔ ان دنوں میں آٹھ ماہ کی حاملہ تھی اور چلتے ہوئے مجھے زمین نہ دکھائی دیتی تھی۔ سیر کرتے ہوئے اچانک میرا پاؤں لڑکھڑایا اور زمین پر منہ کے بل گری۔ میرے سامنے کے دو دانت ہل گئے۔ میں نے شوہر سے کہا مجھے ہسپتال لے جاؤ۔

وہ ہسپتال تو لے گیا لیکن میرے پاس ایک بت بنا کھڑا رہا۔
نہ تو اس نے مجھے گلے لگایا نہ تسلی دی نہ ہمدردی کے دو الفاظ کہے۔

جب میں نے کہا مجھے گلے لگاؤ اور اس نے مجھے ایک بازو سے گلے لگایا تو اس وقت بھی وہ دوسرے ہاتھ میں سیل فون میں کوئی فلم دیکھ رہا تھا۔

اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ میرا شوہر جسمانی طور پر میرے ساتھ رہتا ہے لیکن جذباتی طور پر کسی اور دنیا میں بستا ہے۔

میں نے ایک اور مریضہ جوئین سے یہی سوال پوچھا تو کہنے لگی
میرا شوہر نہ اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور
نہ ہی میرے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔
وہ جذبات کے اظہار اور آنسو بہانے کو کمزوری کی نشانی سمجھتا ہے۔
ہماری شادی کو دس برس ہو گئے ہیں اس نے ان دس برسوں میں ایک دفعہ بھی نہیں کہا
تم خوبصورت ہو
تم بہت پیاری ہو
تم اچھے کپڑے پہنتی ہو
تم اچھا کھانا بناتی ہو
وہ سارا دن اپنے مرد دوستوں کے ساتھ کاروبار اور کمپیوٹر کی باتیں کرتا رہتا ہے۔

میری ایک اور مریضہ باربرا نے مجھے بتایا کہ کھانا کھانے کے دوران بھی اس کا شوہر ایک ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے سیل فون دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اسے شوہر کی موجودگی میں بھی لگتا ہے وہ اکیلے ڈنر کھا رہی ہے۔

ان انٹرویوز کے بعد میں سوچنے لگا کیا جذباتی عدم دستیابی کا مسئلہ صرف مردوں کا ہی مسئلہ ہے یا ہمارے ارد گرد ایسی عورتیں بھی ہیں جو جذباتی طور پر غیر حاضر رہتی ہیں۔

چنانچہ اس آگہی کے بعد جب میں نے عورتوں سے ان کی زندگی میں آنے والی دوسری عورتوں کے بارے میں سوال پوچھے تو مجھے پتہ چلا کہ نجانے کتنی عورتیں اور خاص طور پر مائیں اس نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں۔

ایک مریضہ نے کہا میری ماں
نہ مجھے پیار کرتی ہے
نہ گلے لگاتی ہے
نہ میرے جذبات کا خیال رکھتی ہے
مجھ پر ہمیشہ یا تنقید اور یا نصیحتیں کرتی رہتی ہے۔
میری ماں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتی ہے۔ اسے میری دنیا کی کوئی خبر نہیں۔
پتہ نہیں اس نے ماں بننے کا فیصلہ کیوں اور کیسے کیا۔ اسے ماں نہیں بننا چاہیے تھا۔

میں نے اس مریضہ سے کہا کہ وہ ورجینیا وولف کی ڈائری پڑھے جس میں ورجینیا وولف نے اپنی ماں کے بارے میں لکھا ہے

MY MOTHER COULD NOT HUG ME
SHE HAD NO EMOTIONAL ARMS
میری ماں مجھے گلے نہ لگا سکتی تھی
وہ جذباتی بازوؤں سے محروم تھی۔

میں نے سوچا ورجینیا وولف نے جذباتی طور پر غیر حاضر ماؤں کے لیے جذباتی بازوؤں کی ایک خوبصورت ترکیب ایجاد کی ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی عورتوں کو ماں نہیں بننا چاہیے کیونکہ ایسی عورتیں بچوں سے محبت کرنے اور انہیں جسمانی و جذباتی طور ہر گلے لگانے سے قاصر ہوتی ہیں۔ وہ جذباتی طور پر معذور ہوتی ہیں۔

جن بچوں سے ان کے ماں باپ۔ خالہ ماموں۔ چچا پھوپھی۔ نانی نانا۔ دادی دادا۔ اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں گلے لگاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ قدرت کا منفرد تحفہ ہیں ایسے بچے جوان ہو کر اپنے دوست اور شریک حیات سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جن سے ان کے بزرگ محبت کا اظہار نہیں کرتے وہ جوان ہو کر منیر نیازی کی یہ نظم گنگناتے رہتے ہیں ؎ مجھے تم سے محبت ہے

بس اتنی بات کہنے کو
لگے بارہ برس مجھ کو
بعض دفعہ ایسے مردوں اور عورتوں کو زندگی کے کسی موڑ پر کسی ماہر نفسیات کی مدد کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
۔ ۔

نوٹ: جب میں نے اپنی دانشور دوست ثمر اشتیاق کو بتایا کہ میں اس موضوع پر کالم لکھ رہا ہوں تووہ کہنے لگیں کہ وہ بھی اسی موضوع پر ایک دلچسپ کتاب پڑھ رہی ہیں۔

THE EMOTIONALLY ABSENT MOTHER
BY JASMINE CORI
………………………….

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments