جنریشن گیپ


 

آئی پیڈ اور موبائل کے دور میں پیدا ہونے والی جنریشن کیا جانے کہ ہم بچپن میں کتابوں بھرے بستے کے ساتھ تختی، قلم اور دوات ساتھ لے کر جاتے تھے۔ اس کے بعد فاؤنٹین پین کا زمانہ آیا، اس کے لئے بھی سیاہی کی دوات درکار ہوتی تھی اور سیاہی چوس یا بلاٹنگ پیپر بھی چاہیے ہوتا تھا، اب موجودہ نسل کیا جانے کہ یہ کیا بلا تھی۔ خوشخطی پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ پھر بال پین کا زمانہ آیا۔ اس کی وجہ سے جہاں آسانیاں پیدا ہوئیں یعنی سیاہی کی دوات نہیں رکھنی پڑتی تھی، وہیں تنقید بھی ہوتی تھی کہ اس کے استعمال سے بچوں کی لکھائی خراب ہو جائے گی، اس لئے بہت سے اسکولوں میں بچوں کو بال پین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ایسی بہت ساری تبدیلیاں جن میں سیاست، اقدار، ثقافت سب ہی شامل ہیں، جنریشن گیپ کا سبب بنتی ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے حالیہ تاریخ میں جو مختلف جنریشنز یا نسلیں سامنے آئی ہیں، ان کا ذکر ہو جائے۔

سب سے پہلے تو ’کھوئی ہوئی جنریشن‘ یا گمشدہ جنریشن کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو پہلی عالمی جنگ کے فورا بعد جوان ہوئے۔ اس سے ماہرین نفسیات کی مراد یہ تھی کہ بچپن میں ان لوگوں نے جو تباہ کاریاں دیکھی تھیں، ان کی وجہ سے وہ بے سمتی اور بھٹکنے والی کیفیات کا شکار تھے۔ زیادہ گہرائی میں جا کے اس کا مفہوم سمجھیں تو یہ نسل ’کھوئی ہوئی‘ اس لئے تھی کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد اسے لگتا تھا کہ ان کے والدین کی قدامت پسند اخلاقیات اور سماجی قدریں عالمی جنگ کے بعد بے معنی ہو گئی ہیں۔ یہ لوگ بزرگوں کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے کہ اب جنگ ختم ہو گئی ہے، اب سب کچھ معمول پر آ گیا ہے اور زندگی پہلے جیسی ہو جائے گی۔ اس لئے نوجوان روحانی بیگانگی کا شکار ہو گئے تھے۔ ان میں ارنسٹ ہیمنگوے اور ٹی ایس ایلیٹ اور دیگر نوجوان ادیب اور شاعر بھی شامل تھے۔

عظیم ترین جنریشن کی اصطلاح ان امریکیوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جو عالمی کساد بازاری یا گریٹ ڈپریشن کے دور میں پلے بڑھے اور جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ حصہ لیا۔

ان کے بعد بے بی بوم جنریشن سامنے آئی۔ بے بی بوم سے مراد 1946 سے 1964 میں شرح پیدائش میں اضافہ اور ان سالوں میں پیدا ہونے والی نسل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کی مشکلات اور بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے اکثر نوجوانوں نے دیر سے شادیاں کیں اور بہت سے شادی شدہ جوڑوں نے بچوں کی پیدائش میں تاخیر کی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب اقتصادی خوشحالی کا دور شروع ہوا ( 1950 کا عشرہ اور 1960 کے عشرے کا اوائل) تو اس کے ساتھ شرح پیدائش میں اضافہ ہوا جس کا اثر پورے معاشرے پر پڑا۔

جنگ کے بعد کے سالوں میں لوگ شہروں کو چھوڑ کر مضافات میں جا کر رہنے لگے۔ مکانات، اسکولز اور شاپنگ مالز بڑی تعداد میں بننے لگے۔ اس عہد کے بچوں نے جوان ہو کر بالوں، لباس اور میوزک کے نئے اسٹائل اپنائے۔ تب ہی ویت نام کی جنگ کے خلاف سیاسی ایکٹو ازم بھی سامنے آیا۔ اسی اور نوے کے عشرے میں جب وہ خوشحالی کے ساتھ پختہ عمر کو پہنچے تو ان کی خریداری کی عادتوں نے بہت سی کنزیومر انڈسٹریز کی راہ متعین کی۔ جنریشن گیپ کی اصطلاح پہلی مرتبہ 1960 کے عشرے میں ہی استعمال کی گئی۔

1965.1985 کے دوران پیدا ہونے یا پلنے بڑھنے والوں کو جنریشن ایکس کہا جاتا ہے جو سیاسی اور سماجی طور پر بے بی بومرز جو ویتنام اور ریگن ادوار میں پلے بڑھے تھے اور اوباما عہد کے Millennials کے درمیان سینڈوچ بنی۔

ابھی تک ہم نے امریکہ اور مغرب کے حوالے سے بات کی لیکن مراکش کی ایک یونیورسٹی کے طلبا نے عرب ممالک میں جنریشن گیپ پر تحقیق کی ہے۔ دنیا کے دیگر نوجوانوں کی طرح عرب نوجوان بھی انفارمیشن اور ڈیجٹل ٹیکنالوجی کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ 77 فی صد نوجوان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ (یو این 2012 ) ۔ اسی لئے وہ دنیا کے دوسرے نوجوانوں جیسی معلومات رکھتے ہیں ؛ 2011 کو نوجوانوں کا عالمی سال قرار دیا گیا تھا اور جب تک عرب نوجوانوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ نوجوان عرب معیشتوں کا اثاثہ ہیں لیکن روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح بلند ہے۔ ورلڈ بینک کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے 25.2 فی صد عرب لڑکے اور 47.5 %لڑکیوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ تعلیم کا معیار بھی پست تھا۔

نوجوانوں کے بارے میں تحقیق کا دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کے فیصلوں، ترجیحات اور ان کے رویوں کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے کنگسلے ڈیوس نے 1940 میں تیزی سے رونما ہونے والی سماجی تبدیلی کی بات کی تھی۔ اس کے بعد جنریشن گیپ پر بے تحاشا تحقیق ہوئی۔ مختلف اسٹڈیز سے معلوم ہوا کہ نسلوں کے درمیان باہمی تعلق کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ گیلپ نے 2009 میں پاکستان میں نئی نسل اور بزرگوں کے درمیان اخلاقی اقدار، مذہب اور سیاست کے بارے میں اختلاف رائے کا تجزیہ کیا تھا۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بہت کم تعداد ایسی تھی جو پرانی نسل کے فیصلوں سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح 2013 میں ہونے والی ایک تحقیق سے والدین کے آمرانہ روئیے اور بچوں کی عزت نفس کے درمیان تعلق کی وضاحت ہوتی ہے جس سے خاندان کے ٹائپ اور ابلاغی مہارت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ چین میں 2010 میں دو محققین نے نسلوں کے درمیان فرق کے بارے میں ایک ماڈل بنایا تھا جس سے پتہ چلا کہ روایتی اقدار سے جدید اقدار کی طرف تبدیلی کی کیا اہمیت ہے اور کون سے عوامل اس فرق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ نئی نسل ٹیکنالوجی کے معاملے میں پرانی نسل پر سبقت لے گئی ہے۔ ڈیجٹل انقلاب کے حوالے سے یہ بات ساری دنیا کے نوجوانوں پر صادق آتی ہے۔

اس مضمون کے آغاز میں ہم نے بلاٹنگ پیپر یا سیاہی چوس کا ذکر کیا تھا، تو علی گڑھ ہاسٹل میں سالوں گزارنے والے کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو بلاٹنگ پیپر خریدنے کے بہانے والدین سے کئی سو روپے منگوا لیا کرتے تھے۔ اب سادہ لوح گاؤں میں رہنے والے والدین کو کیا پتا کہ صاحبزادے انہیں بے وقوف بنا رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد نئی اور پرانی نسل میں لباس اور ہیئر اسٹائل کے حوالے سے بھی فرق پیدا ہوا اور نظریاتی اختلافات بھی پیدا ہوئے۔

اسی طرح چند سال پہلے جب عورت مارچ کا آغاز ہوا تو دائیں بازو والوں نے آسماں سر پر اٹھا لیا، انہیں تو خیر ایسا کرنا ہی تھا مگر پرانی فیمنسٹس کو بھی ان کی بات سمجھنے میں وقت لگا، جلد ہی بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور وہ نئی نسل کے ساتھ آن کھڑی ہوئیں۔ ظاہر ہے یہ جنریشن گیپ تھا۔ گزشتہ ادوار کی نسل کے پاس اظہار کا وہ طریقہ نہیں تھا، یا ان کے پاس وہ ذخیرہ ء الفاظ نہیں تھا جو نئی نسل استعمال کر رہی تھی حالانکہ موقف دونوں کا ایک تھا۔ پرانی نسل نے بھی ریپ کے خلاف مہم چلائی تھی لیکن ”میرا جسم، میری مرضی“ کا نعرہ نئی نسل نے لگایا۔ ان کا مطلب بھی یہی تھا کہ عورت کی مرضی کے بغیر کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا، اسے ریپ نہیں کر سکتا مگر لوگوں نے اس کا کچھ اور ہی مطلب نکالا۔

ہمارے زمانے میں تو مائیکرو ویو اوون گھروں میں استعمال ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ہم ”اپنا کھانا خود گرم کرو“ کیسے کہتے۔ خیر یہ سب تو شہروں میں رہنے والوں کی باتیں ہیں۔ اصل مسئلہ دیہی عورتوں کے مسائل حل کرنا، انہیں تعلیم، صحت اور تولیدی صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹرکچر بنانا اور ایگرو بیسڈ صنعتوں کا قیام بھی ضروری ہے۔ الیکٹرانک چینلز اور سوشل میڈیا نے دیہی لڑکیوں میں بھی اپنے حقوق کا شعور پیدا کیا تو ہے لیکن ابھی تک تو بات پسند کی شادی اور پھر خاندان کے مردوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے آگے نہیں بڑھی۔ دو نسلوں کے درمیان جنریشن گیپ کی بات تو بعد میں ہو گی پہلے دونوں اصناف ایک دوسرے کو انسان تو سمجھیں۔ جنریشن گیپ اپنی جگہ لیکن انسان سب برابر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments