پچیس سال بعد: رقاصہ کے قتل سے فنڈنگ تک جرم و سزا
جنگ عظیم جاری ہے۔ توپوں کی گھن گرج ہے گولہ باری ہو رہی ہے مکانات جل رہے ہیں ہر طرف تباہی کا سماں ہے۔ جنگی جہاز آسمان پر چیلوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ فوجی گاڑیاں بھاگی پھرتی ہیں لیکن اس ماحول میں بھی فوجی افسران اپنی رنگینیوں میں مصروف ہیں اس ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے۔ ایک رات ایک رقاصہ کو بلا یا جاتا ہے لیکن بعد میں اسے پراسرار طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے اور قتل اس بہیمانہ طریقے سے کیا جاتا ہے کہ دیکھ کر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔
یہ رقاصہ بھی وارسا میں جرمن ایجنٹ ہے۔ اس قتل پر تین جرنیلوں پر شک کیا جاتا ہے لیکن جنگ کے زمانے میں اتنے بڑے جرنیلوں کے خلاف انکوائری کیسے ہو اور کون کرے پھر بھی جرمن آرمی کے میجر گوریو کو اس واردات کی تفتیش پر مامور کیا جاتا ہے۔ زندگی کے کینوس پر فلم چل رہی ہے۔ جن تین جرنیلوں پر شک کیا جا رہا ہے ان میں سے دو جنرل ہٹلر کو قتل کرنے کے منصوبہ میں ملوث ہیں۔ جنرل لیگبر اور جنرل کہلن برگ جو کہ اس کا چیف آف سٹاف تھا اور جنرل ٹانز جو ان دونوں سے زیادہ خطرناک تھا میجر گوریو کی تفتیش سے بھانپ گیا کہ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے یہ دیکھ کر اس نے ساتھیوں سے مشورہ کر کے میجر گوریو کو اچانک ترقی دلا کر پیرس بھجوا دیا جس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ وارسا میں کیس کی تفتیش رک گئی جب یہ تینوں افسران 1944 ء میں دوبارہ پیرس میں اکٹھے ہوتے ہیں۔
پیرس اس وقت ایڈولف ہٹلر کو قتل کرنے کی سازش کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ جس میں کہلن برگ بھی اس منصوبے میں ملوث تھا جبکہ لیگبر کو اس کا علم تھا لیکن وہ خاموشی سے نتیجہ کا انتظار کر رہا تھا اور رنگ رلیوں میں مشغول تھا۔ جبکہ جنرل ٹانز اس منصوبے سے لا علم تھا اور ہٹلر کا بے پناہ وفادار تھا۔ 19 جولائی 1944 ء کی شب اس کا ڈرائیور ایک رقاصہ کو اس کے لئے لے آیا جسے جنرل ٹانز نے اسی رات ذبح کر دیا اور شاطرانہ طور پر اپنے ڈرائیور کو اس میں ملوث کرنے کی کوشش کی لیکن ساتھ ہی خوفزدہ کر کے اسے موقع سے فرار ہونے کا چانس بھی دے دیا ڈرائیور نتائج سے گھبرا کر بھاگ گیا پھر کبھی دکھائی نہ دیا جب مسٹر گوریوجو اب لیفٹیننٹ کرنل تھا اور پیرس میں موجود تھا اس کو جب اس دوسرے قتل کا علم ہوتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طریقہ واردات بھی بالکل پہلے قتل جیسا ہے تو وہ دوبارہ اپنی تفتیش کا آغاز کر دیتا ہے اور مکمل انکوائری کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جنرل ٹانز ہی دونوں خواتین کا قاتل ہے لیکن یہ وقت بہت خطرناک تھا کیونکہ اگلے روز 20 جولائی کو ایڈولف ہٹلر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
جب تفتیشی افسر اپنی تفتیش مکمل کر کے اپنی معلومات کی بنا پر جنرل ٹانز کو اس دوہرے بہیمانہ قتل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اسی اثنا میں اطلاع آتی ہے کہ ہٹلر قتل ہونے کی سازش سے بچ گیا ہے اس پر ٹانز کرنل گوریو کو اس الزام پر قتل کر دیتا ہے اور یہ بہانہ بناتا ہے کہ کرنل گوریو ہٹلر کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث تھا۔
بیس سال بعد 1965 ء میں انٹرپول کے انسپکٹر مورینڈ کی توجہ ہیمبرگ میں اس رقاصہ کے قتل کی طرف مبذول ہوتی ہے وہ اس پرانے کیس کو دوبارہ اٹھاتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ مسٹر گوریو 1942 میں جس کیس کی تفتیش کر رہے تھے اس کا اس کیس سے بھی گہرا تعلق ہے۔ جنگ ختم ہو چکی تھی اور کرنل ٹانز جنگی جرائم کے تحت سزا بھگت کر واپس آ گیا اور اس کے اعزاز میں ڈنر دیا جا رہا ہے اس میں مورینڈ جنرل ٹانز کے ڈرائیور کو لے آتا ہے جو رقاصہ کے قتل کا چشم دید گواہ تھا اور جرم ثابت کرنے کے لئے ٹانز کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے جو رقاصہ کے قتل کا عینی شاہد تھا۔ جنرل ٹانز کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جو بیس سال سے بچتا آیا ہے اب بچ نہیں سکے گا۔ شکنجہ قریب آتے دیکھ کر جنرل ٹانز کمرے میں جا کر اپنے آپ کو گولی مار دیتا ہے۔
اکبر ایس بابر جو بنیادی طور پر سول انجینئر ہیں ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ وہ تحریک انصاف کے بانی رکن ہیں اور انہیں بلوچستان میں پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ جب بلوچستان میں پارٹی کا پہلا جلسہ کیا گیا تو ان کے پاس اتنے پارٹی فنڈ نہیں تھے کہ تشہیری مہم کے لئے پینا فلکس کے بینرز بنواتے اور جب پارٹی کے لوگ عمران خان کے استقبال کے لئے ائر پورٹ پہنچے تو وہ ریلوے سٹیشن سے رکشہ لے کر ائرپورٹ آ گئے کیونکہ وہ ہوائی سفر کی بجائے بذریعہ ٹرین کوئٹہ پہنچے تھے۔
لیکن جب آہستہ آہستہ بیرون ملک سے فنڈز کی بارش ہونے لگی تو اکبر ایس بابر کو میجر گوریو کی طرح شک ہوا کہ فارن فنڈنگ میں کافی گھپلا ہو رہا ہے تو اس نے عمران خان کو سات صفحات پر مشتمل لیٹر لکھا کہ فارن فنڈنگ میں بڑے بڑے پیمانے پر خردبرد ہو رہی ہے ملازمین کے جعلی اکاؤنٹس کھولے جا رہے ہیں امریکہ میں کمپنیاں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں اور فنڈ ذاتی اکاؤنٹس اور ریئل اسٹیٹ میں لگایا جا رہا ہے جس میں پارٹی چیئرمین اور فنانس بورڈ ملوث ہے فنانس بورڈ نے بھی چار ملازمین کے نام پر کھاتے کھلوائے ہوئے ہیں اور بورڈ چیک لے کر ساری رقوم خود نکلوا لیتا ہے۔
لیکن عمران خان نے ان کی کسی بات پر توجہ نہ دی۔ تفتیش جاری رہی جس طرح طاقتور جرنیلوں نے تفتیشی افسر کو ترقی دلا کر منظر سے ہٹا کر پیرس بھجوا دیا تھا عمران خان نے اسی طرح اکبر ایس بابر کے فارن فنڈنگ پر اعتراضات سن کر اسے پارٹی سے نکال دیا یہ علیحدہ بات ہے کہ اس نے ہائی کورٹ کے سنگل اور ڈبل بنچ میں کیس لڑ کر مقدمہ جیت لیا اور اب تک پارٹی ممبر ہے اس کا جرم صرف پارٹی کو شفاف طریقوں سے چلانے کا عزم تھا۔ جب اس کی کسی طور شنوائی نہ ہوئی تو اس نے الیکشن کمیشن میں درخواست دے دی۔
جب الیکشن کمیشن میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو توقع تھی کہ جس طرح عمران خان کا صادق اور امین کا امیج بنایا گیا تھا وہ دو تین پیشیوں میں فارن فنڈنگ کا ایک ایک ڈالر کا حساب پیش کر دے گا اور اس نے فارن فنڈنگ کی رقوم کا اتنے شفاف طریقے سے حساب رکھا ہو گا کہ اکبر ایس بابر کو شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا لیکن دنیا حیران ہوئی جب خان اعظم نے کیس کا سامنا کرنے کی بجائے اسے الجھانے کے لئے اس قدر تاخیری حربے استعمال کیے جسے کوئی معقول ذہن قبول کرنے کو تیار نہیں تھا کہ ایک صالح اور پاکیزہ آدمی جس نے اکیسویں صدی کی ریاست مدینہ قائم کی تھی وہ پیسوں کے معاملے میں اس قدر بودہ اور خائن نکلے گا اور اسی کیس نے ان کی ایمانداری اور دیانتداری کا بت پاش پاش کر دیا جب تاخیری حربے کام نہ آئے تو عمران خان نے الیکشن کمیشن کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا کہ چیئرمین الیکشن کمیشن اس کے خلاف متعصب رویہ رکھتا ہے اور کبھی انصاف پر فیصلہ نہیں دے گا۔
ان سب منفی کارروائیوں اور تاخیری حربوں میں آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ الیکشن کمشنر پر عمران خان کے تابڑ توڑ حملوں کے پیچھے اس کا خوف تھا کہ اب سارے گھپلے منظر عام پر آ جائیں گے اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے بڑی جرات مندی اور ثابت قدمی سے اتنے لمبے عرصے کے بعد کیس کا فیصلہ سنا دیا جس میں ثابت ہوا کہ فنڈز کے بارے عمران خان کے سرٹیفکیٹ بھی جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اس میں آٹھ اکاؤنٹس ظاہر کیے گئے عمران خان کے اپنے نام پر اپنی درخواست پر کھلوائے گئے دو اکاؤنٹس بھی چھپائے گئے مزید تیرہ اکاؤنٹس چھپائے گئے 34 غیر ملکی شہریوں سے فنڈ لیے عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سمیت 351 کاروباری اداروں سے ممنوعہ فنڈ لیے ۔
بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئزرلینڈ اور فن لینڈ سمیت کئی ملکوں سے یہ فنڈ وصول کیے لیکن اس طرف تماشا یہ کہ اس میں صرف پارٹی آرڈر کے قانون کی صریحاً خلاف ورزی نہیں کی گئی بلکہ جن افراد اور اداروں سے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کے لئے چیرٹی کے نام پر یہ رقوم لی گئیں ان فنڈز کو انہوں نے پی ٹی آئی کے سیاسی مقاصد اور سیاسی مخالفین کی ٹرولنگ پر سوشل میڈیا میں بھرتی کیے گئے ہزاروں افراد پر اور للوں تلوں پر خرچ کیا گیا فنانشل ٹائمز کی سٹوری نے بھی اس کی تصدیق پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔
بڑی محنت اور چابکدستی سے اداروں نے مذہبی شخصیات اور صحافیوں کے ساتھ مل کر جس دیانتداری، ایمانداری، شفافیت اور جرات کا جعلی بت تراشا تھا وہ کہاں تک وقت اور صداقت کا مقابلہ کرتا آخر 25 سال بعد وہ بت حقائق کے سامنے پاش پاش ہو گیا۔ مسٹر گوریو تو تفتیش کرتے ہوئے حقائق تک پہنچے انہیں قتل کر دیا گیا لیکن شکر کریں اکبر ایس بابر ابھی زندہ ہے کیونکہ جس کے خلاف اس کا مقدمہ تھا وہ بہت طاقتور تھا۔ اس شخص نے بے شمار اداروں کا پریشر برداشت کیا کہ وہ کیس کو واپس لے لے لیکن وہ اپنی دھن میں ثابت قدم رہا اور الیکشن کمیشن نے بھی حقائق کو سامنے رکھ کر دستاویزی ثبوت کے ساتھ انصاف پر مبنی فیصلہ کر کے ایک نئی روایت قائم کر دی راجہ سکندر اور اس کے ساتھیوں نے جس جرات مندی سے انصاف کا بول بالا کیا ہے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔
ڈسکہ الیکشن میں بھی جس طرح برسراقتدار پارٹی کے غیر قانونی اقدام کا ساتھ نہیں دیا تھا جب ریاست مدینہ کے سربراہ کی اشیرباد سے تمام ریٹرننگ افسران کو اغوا کر لیا گیا تھا اور راجہ سکندر اس وقت بھی حاکم وقت کی دہشت سے مغلوب نہیں ہوا تھا اور اس کے کارندوں کی خلاف قانون سرگرمیوں کے خلاف فیصلہ دے کر ایک تاریخ رقم کی تھی آج بھی راجہ سکندر اور کمیشن کے ممبران نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے لئے وہ قابل تعریف ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جرم ثابت ہونے پر جنرل ٹانز نے تو خودکشی کر لی تھی لیکن اس سارے گھپلوں کا کیپٹن کہتا ہے کہ ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ہمارے خلاف کسی اقدام سے پہلے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف کیس شروع کیا جائے جیسے ایک قاتل کہے کہ ملک میں جہاں جہاں قاتل پکڑے جائیں پہلے ان کا فیصلہ کیا جائے تو پھر میرے خلاف کوئی اقدام کیا جائے۔ لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ جرم 20 سال پہلے ہوا ہو یا 25 سال پہلے اور پھر اس پر آپ نے ایمانداری، دیانتداری اور اپنی مقبولیت کے کتنے ہی پردے ڈال رکھے ہوں آپ کو ایک دن اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قضا کا تیر جھوٹ کے بت میں پیوست ہو کر رہتا ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ بت کے پجاریوں کے لئے حقائق تسلیم کرنے میں بہت دشواری ہو وہ واقعات کا سامنا نہ کر سکیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).