آزادی دادی


اس کا ہمیشہ سے دادی سے یہی جھگڑا ہوتا تھا، دادی اسے سمجھاتی تھیں کہ بیٹا یہ ملک ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ لاکھوں شہیدوں کا لہو ہے اس کی بنیادوں میں، اس آزادی کی قدر کرو جبکہ وہ اپنی بات پر اڑا رہتا کہاں دادی، کیا رکھا ہے اس ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، رشوت، امیر امیر تر، غریب غریب تر، ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں تو ڈگری لیتے ہی باہر جانے کی کوشش کروں گا تاکہ وہاں جاکر آزادی سے نوکری کروں، خوب کماؤں، کچھ نہیں رکھا اس ملک میں۔ امی ابو دادی پوتے کی بحث سن کو مسکراتے ہوئے سنتے رہتے۔

دادی سوچ میں غرق ہو جاتیں، تھا بھی یہی سچ، احمد کمال اپنی بیوی کے ساتھ لٹ پٹ کر سنہ 52 میں کھوکھراپار کے راستے ریت کے صحرا سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوئے اور کوٹری میں عارضی قیام کیا، نئی جگہ نئے لوگ، سب نے محبت سے استقبال کیا، دونوں میاں بیوی کم عمر تھے، ماں باپ نے فسادات کے ڈر سے دونوں کی شادی کردی تھی، چچا تایا کی اولاد کچھ چھان بین اور خرچہ بھی نہیں کرنا پڑا، قیام پاکستان کی خبر ملتے ہی ہر شہر میں فسادات شروع ہو گئے، جہاں ہندو آبادی زیادہ تھی وہاں تو مسلمانوں کی حالت ابتر تھی۔

تایا ریلوے میں ملازم تھے، روز ہی آ کر ایسی اندوہناک خبریں سناتے کے سب کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے وہ بتاتے کہ جب ٹرین کے ڈبے ڈھلتے ہیں تو خون اور پانی مل کر اسٹیشن کی زمین کو سرخ کر دیتا ہے اور کٹے پھٹے انسانی اعضا چیل کوئے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہ ان شہیدوں کا لہو تھا جنھیں پاکستان جانے کی سزا دی جا رہی تھی۔ اپنے پرکھوں کی زمین ہی رہنے والوں پر تنگ کردی گئی تھی۔ اپنے لیے الگ ملک اور آزادی کی اتنی بڑی سزا۔ آخر چچا تایا نے ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

بچوں کو دو دو جوڑے پہنا دیے، کہ زاد سفر زیادہ نہیں لے جا سکتے تھے، بھرا پرا گھر آنکھوں میں بسا کر رات کے اندھیرے میں خاموشی سے پاکستان جانے کے لیے ریل گاڑی میں سوار ہوئے، لیکن کیا خبر تھی کہ پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے ان کے خاندان کے لہو کی بھی ضرورت تھی۔ کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ بلوائیوں نے حملہ کر دیا، ٹرین کے ڈبے میں گھس کر گاجر مولی کی طرح ان کے خاندان کو کاٹنا شروع کر دیا۔ احمد کمال کے تایا نے حمیدہ کا ہاتھ احمد کمال کے ہاتھ میں دیا اور اس افراتفری میں انھیں دوسرے دروازے سے چلتی ٹرین سے دھکا دے کر اللہ کی امان میں دیا۔

پاکستان پہنچنے کی داستان بہت دردناک تھی لیکن اللہ کو انھیں پاک سرزمین پر پہنچانا تھا۔ کوٹری میں زندگی کی مشکلات سے گزر کر کسی کے بتانے پر کراچی کی جانب رخت سفر باندھا، کراچی میں احمد کمال کو ایک دفتر میں نائب قاصد کی نوکری ملی، نوکری کے دوران احمد کمال نے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کی اور اسی دفتر میں ایک اچھے عہدے پر پہنچ گئے، حمیدہ نے ہر حال میں ان کا ساتھ دیا۔

احمد کمال اور حمیدہ ہر سال 14 اگست کو یوم آزادی بہت پر جوش انداز میں مناتے اور اپنے شہید خاندان کے لیے قرآن خوانی کے ساتھ تمام شہدا کی فاتحہ پڑھواتے، پاس پڑوس میں کھانا تقسیم کرتے۔ اسی دوران انھیں اللہ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا، جس کا نام احمد کمال آزاد کمال رکھا کیونکہ وہ آزاد ملک میں پیدا ہوا تھا اور اعجاز کمال آزاد کمال کا بیٹا تھا لیکن اس کے خیالات کچھ باغی اور سب سے مختلف تھے، وہ ملک کے حالات سے مایوس تھا۔

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی دادی پوتے میں روز ہی بحث ہوتی، وہ دادی سے کہتا ”، دادی پاکستان میں کوئی پاکستانی نہیں، سب سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان ہیں، ہمیں تو لوگ ہندستانی کہتے ہیں کیونکہ ہم اردو بولتے ہیں اور ہمارے دادا ہندوستان سے آئے تھے۔ ہمیں اس زمین کا بیٹا نہیں سمجھتے، میرا تو کئی دفعہ دوستوں سے جھگڑا ہو چکا ہے، جب بھی میں کہتا ہوں ہم پاکستانی ہیں تو وہ ذات اور صوبے کی بات کرتے ہیں، کوٹا سسٹم کی وجہ سے مجھ سے کم نمبر لینے والے کا داخلہ اچھے کالج میں ہو گیا، ہم سے ڈومیسائل کا پوچھا جاتا ہے۔

پڑھائی کر کے نکلوں گا تب بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، میں نے تو پکا ارادہ کر لیا ہے باہر جانے کا، وہاں جاکر سیٹ ہو کر آپ سب کو بھی بلا لوں گا۔ وہاں سکون سے رہیں گے، کل ہی میرے دوست سے موبائل چھینے ہوئے اسے زخمی کر دیا وہ بے چارا ہسپتال میں ہے۔ کتنا غیر محفوظ ہے یہ ملک۔ اس نے چپکے چپکے خاموشی سے اعلیٰ تعلیم کے لیے اسٹوڈنٹ ویزے کے لیے اپلائی بھی کر دیا تھا۔

جبکہ دادی اسے آزادی کی قدر سمجھاتی رہتیں شکر کرو تم آزاد ملک میں رہتے ہو، کشمیریوں کو دیکھو بھارت کیسے ظلم کر رہا ہے، فلسطین میں اسرائیل کے مظالم بتاتیں، خود ہندوستان میں مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔ اللہ کا کرم ہے قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کی بدولت آزاد ملک میں رہ رہے ہیں۔ غیر ملک میں تو دوسرے درجے کا شہری بنکر رہنا پڑے گا چاہے وہاں کی قومیت مل جائے۔

اس سال بھی پہلی اگست سے ہی دادی نے جشن آزادی کی تیاریاں شروع کر دیں، محلے کے بچوں کو جمع کر کے جھنڈیاں لگوائیں، ہر گھر کو سجوایا۔ بچوں کے ماں باپ کو بھی اس کام میں شریک کیا۔ ساتھ ساتھ گنگناتی رہتیں ”اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے“ ۔ محلے بھر میں دادی ”آزادی دادی“ کے نام سے مشہور تھیں وہ اپنے اس نام اور پہچان سے بہت خوش تھیں۔ آج بھی انھوں نے ساری تیاریاں مکمل کرلی تھیں رات بارہ بجے قومی ترانہ اور پرچم کشائی ہونی تھی، پورا محلہ جمع ہو کر جشن آزادی منانے کے لیے جمع تھا اپنے اپنے پرچم کے ساتھ، ساڑھے گیارہ بج گئے ”آزادی دادی“ اب، تک باہر نہیں آئیں تھیں سب منتظر تھے۔

ہمیشہ وہ سبز لباس سفید دوپٹے میں وہیل چیئر پر اعجاز کے ساتھ اس تقریب میں شریک ہوتیں، آج کافی دیر ہو گئی کیا بات ہے آزاد کمال دیکھنے کے لیے کمرے میں گئے، اعجاز ہاتھ میں فائل اور وہیل چیئر لیے دادی کو خوشی خوشی نیند سے جگا رہا تھا۔ اٹھیں دادی سب انتظار کر رہے ہیں اپنی آزادی دادی کا، آپ کو خوشخبری بھی سنانی ہے لیکن دادی پر سکون سو رہی تھیں ایک ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا تھا، آزاد کمال نے آگے بڑھ کر ماں کے چہرے پر سفید چادر ڈال دی اور زور سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، اعجاز کے ہاتھ سے اسٹوڈنٹ ویزے کے پیپرز گر کر ہوا میں بکھر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments