اٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے اختیار


لفظ ہیں کہ معنویت کھوتے جاتے ہیں، گنتی ہے کہ بھولتی جاتی ہے، تحریر ہے کہ بے اثر ہوئی جاتی ہے۔ دماغ کی عجیب حالت ہوتی جاتی ہے، کوئی واقعہ سنتے ہیں تو سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ گمنام رستوں اور تاریک راہوں پہ مرنے والے، ڈوبنے والے، قتل کر دیے جانے والے، غائب کر دیے جانے والے۔ محض ایک گنتی ہوتے جاتے ہیں، بڑے بڑے سانحے محض واقعات۔ کہ ایک کے بعد ایک ایسے فاسٹ فارورڈ چلتا ہے کہ ٹھہرنے اور سوچنے کا موقع بھی نہیں دیتا۔

قتل و غارت گری، مذہبی منافرت اور عقیدوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ پہلے بات بحث اور مناظروں تک تھی، آگے بڑھی تو غلط سلط تحریروں کو اپنی مرضی کا جامہ پہنا کر دوسرے عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کی قتل و غارت گری شروع ہوئی۔ تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن موجودہ تاریخ کے نشان گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں تک جاتے ہیں۔

سپاہ وجود میں آئے، جیش بنے۔ فلاں کا جو غدار ہے موت کا حقدار ہے۔ طالب آئے، داعش آئی۔ مختلف باتوں سے فلسفہ اخذ کر کے مخالف فرقے کے لوگوں موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ حکومتیں پشت پناہی کرتی رہیں، عدالتیں بھی خاموش رہیں اور ان کے فیصلے بھی۔

ترکھانوں کے منڈے کی چارپائی جس گھر میں لائی گئی تھی اسی گھر کا فرزند کسی اور ترکھانوں کے منڈے کے ہاتھوں مارا گیا، شہباز بھٹی کے خون کے چھینٹے جہاں اڑے ایک یادگار وہاں بنتی ہے دوسری کینیڈا میں جہاں ایک پھولوں والا پارک اس کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔

سوات میں اسلام آباد کے دروازے پر دستک دیتے کون گڈ یا بیڈ کہیں جن کا پہلے بھی آپریشن کیا گیا اب پھر ناسور لیے پھرتے ہیں۔ بلوچستان ہے تو مسنگ پرسنز کا شور تھمتا نہیں کبھی کسی کی دہشت گردوں کی شکل میں لاش ملتی ہے تو بتایا جاتا کہ مسنگ نہیں تھا پہاڑوں پہ تھا۔ سندھ میں کٹی پہاڑی، عزیر بلوچ، راؤ انوار کے قصے ہیں، پنجاب سے مذہبی عفریت پیدا کی گئی جو براستہ فیض آباد، گالیوں، دھمکیوں اور قتل و غارت کی فضا گرماتی رہی۔ ہزارہ اور احمدی تو ہیں ہی اچھوت جب چاہے، جو چاہے، جیسے چاہے۔

مشال خان کے ہاتھوں کی ہڈیاں اس لئے سلامت نہیں رہنے دی جاتیں کہ سوال کرتا ہے، جنید حفیظ کسی کوٹھڑی میں ہے کہ جواب دیتا ہے۔ سوال ہوتا ہے کہ سلمان تاثیر کو مارنا درست تھا؟ بڑے جوش سے جواب ملتا ہے ”بالکل“ ، پوچھا جاتا ہے اس نے کہا کیا تھا؟ لجاحت بھرا جواب ملتا ہے ”یہ تو ہمیں معلوم نہیں“ ۔

دوسرے فرقے والے تو واجب القتل تھے ہی اب بات آگے بڑھ چکی۔ اسی سال مارچ میں مدرسے کی لڑکیوں کی عزیزہ کو خواب آتی ہے کہ مدرسے کی معلمہ نے توہین مذہب کی ہے۔ وہ اپنی رشتہ دار انہی لڑکیوں کو بتاتی ہے یہ اگلے دن اپنی ہی معلمہ کو بیچ بازار ذبح کر دیتی ہیں۔ اب خواب پر تو پابندی نہیں۔

پنجاب کے ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھا جاتا ہے کہ پورے ضلعے سے احمدیوں کو یہاں سے نکالو اور ربوہ دھکیل دو، ربوہ میں دیوانہ پہنچتا ہے، بس سٹاپ پہ مرشد کا نعرہ لگانے پر اصرار کرتا ہے، نہ لگانے پر خنجر نکالتا ہے اور جنت کما لیتا ہے۔ خیبر پختونخوا سے سکھوں اور احمدیوں کی خبر ہر دوسرے تیسرے ہفتے آتی ہے۔ سیاستدان، سائنسدان، دانشور، اینکر، ناول نگار، شاعر، مولوی، شرابی، مخبوط الحواس، فراڈیا، ذخیرہ اندوز، قبضہ مافیا۔ ہر کوئی مذہب کی دیا سلائی پکڑے سب کچھ خاکستر کرنے کو تیار ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر پر ریوالور اس لئے خالی کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی کی نوکری پکی نہیں کی۔ ماڈل کا گلہ بھائی اس لئے دبا دیتا ہے کہ مشہور مفتی اس کی غیرت جگا دیتا ہے۔ خیر غیرت کے نام پر بھی ایک لمبی داستان ہے اور یہاں بھی سہارا مذہب بنتا ہے۔

عارف والا کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب وطن کا دفاع کرتے ہوئے 1971 کی جنگ میں ”مارے“ جاتے ہیں۔ ان کا جرمنی مقیم بیٹا گزشتہ ہفتے پاکستان آتا ہے۔ وہ آنے تک یہی سمجھتا رہا تھا کہ میرے والد بھی دوسرے فوجیوں کی طرح وطن کی حفاظت کرتے شہید ہوئے تھے۔ اس لئے اپنے گھر کے باہر والد کے نام کے ساتھ شہید لکھوا کر تختی لگا دیتا ہے۔ اسے تو غلط فہمی تھی خیر علاقے کے لوگوں کو تو یقین تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے پھر شہید کیسے ہو گیا۔ پکڑا جاتا ہے اور اچھی طرح ”سمجھا“ دیا کہ شہید صرف مسلمان ہوتے ہیں تم احمدی / قادیانی نہیں ہو سکتے خواہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہی جان دی ہو۔

آپ کچھ نہ بھی کریں تو نہ جانے کس کو آپ سے متعلق کوئی خواب آ جائے، کون سا سوال کس کی طبع نازک پر گراں گزر جائے، کون سا جواب کوئی برداشت نہ کرپائے، کون سی جھوٹی سچی بات کسی بزرگ ہستی کی طرف منسوب کر کے اپنا مطلب نکال لیا جائے، کس قربانی پہ کس کی اجارہ داری ہو، کون سے لفظ کس کا کاپی رائٹ ہو۔

ملک مختلف لوگوں سے ہوتا ہے، تنوع مختلف رنگوں سے ہوتا ہے، مباحثہ مختلف سوچوں سے ہوتا ہے، مذاکرہ مختلف فکروں سے ہوتا ہے۔ مگر یہاں دلیل، اختلاف، رائے، بحث کو علاقہ نہیں، گھٹن زدہ، لہولہان پاکستان مجسم شکل میں آنکھوں کے سامنے ہے۔

اٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے اختیار
میں نے دیکھا جب وطن اپنا کفن پہنے ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments