انسانی جذبات اور احساسات کی ڈائری


کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر میری زندگی میں کتابیں نہ ہوتیں تو زندگی کتنی بورنگ اور بے معنی سی ہوتی اور میں صرف ایک ہی زندگی اور اپنی عمر کے واقعات تک محدود تجربات کو ہی دنیا سمجھتا رہتا۔ کتابیں ہم پر کتنا بڑا احسان کرتی ہیں ہمیں سوچنے، واقعات کو مختلف نظر سے دیکھنے اور ماضی اور ہمارے حال کے اردگرد بے شمار چیزوں کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ یعنی کتاب پڑھنے والا انسان ایک ہی وقت اور زندگی میں کئی زندگیوں کے تجربات کو محسوس کر سکتا ہے۔

سلام ہے ان عظیم لکھاریوں کو جنہوں نے اپنا خون، پسینا اور دن رات ایک کر کے اتنی مشکل مگر اہم موضوعات، واقعات اور زندگی کے براہ راست تجربات کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا۔ کبھی سوچتا تھا کہ یہ لکھاری اتنی موٹی موٹی کتابیں کیوں لکھتے ہیں خاص طور پر ان واقعات کو جو ان کی اپنی زندگی اور دور میں پیش آئے؟ یہ تو اپنی زندگی گزار چکے ہیں؟ انہیں اب کیا مصیبت آن پڑی؟ یہ کیوں اپنے تلخ تجربات، واقعات اور مشاہدات کو قلم بند کر رہے ہیں؟ اب دل کہتا ہے شاید اس لئے کہ یہ ہی علم و شعور اور لکھاری کا قرض ہے جو وہ اپنے قلم کی طاقت سے اپنے قاری کو واپس لوٹ کر اپنے فرائض کی ادائیگی کرتا ہے ویسے ہی جیسے ایک فوجی جوان سرحد پر اپنے لوگوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان دیتا ہے۔

2002 کے آخر میں ہم پنجاب، گاؤں سے کراچی میں مستقل طور پر آ کر قیام پذیر ہوئے۔ کراچی اس سے قبل صرف گرمیوں کی چھٹیوں میں آنا ہوتا ہے جو ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ مگر اب کی بار صورتحال بہت مختلف تھی۔ کراچی بالکل نئی دنیا تھی خصوصی طور پر میرے لئے، کالج میں جا کر یہ احساس اور بھی خوشگوار ہو گیا لیکن کراچی نے گزشتہ 20 سالوں میں میری زندگی کو ایک نئی جلا بخشی۔

کراچی کے حالات، ماحول اور سیاست پر گھر میں بہت کم گفتگو ہوتی لیکن دوستوں اور خصوصاً کورنگی میں کالج کی وجہ سے اے پی ایم ایس کی بدولت حالات حاضرہ اور مجموعی صورتحال سے بخوبی واقف رہتا تھا۔ گھر والوں کی طرف سے سختی سے تاکید تھی کسی بھی سیاسی جماعت کے طلبہ ء گروپ میں شامل نہیں ہونا، واقعی اس سے محفوظ رہنا ایک معجزے سے کم نہیں۔

خیر یہ تمہید باندھنے کا مقصد گزشتہ دنوں معروف صحافی، شاعر اور مصنف جناب عثمان جامعی کے ناول ”سرسید، سینتالیس اور سیکٹر انچارج، (نوشابہ کی ڈائری) ناول“ پڑھنے کا موقع ملا۔ 180 صفحات پر مشتمل یہ ناول اردو ادب اور کراچی، شناخت اور لسانی اور سیاسی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس ناول کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں سب سے ہم چیز ”شناخت“ ہے جس کے بغیر انسانی وجود مکمل نہیں ہوتا ہے۔ عثمان جامعی صاحب نے جس کمال مہارت کے ساتھ انسانی احساسات، براہ راست زندگی کے تجربات اور تاریخی واقعات کو عوامی جذبات کے ذریعے بیان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے سیاسی تاریخ کو ”عوامی تاریخ“ کا زاویہ دے کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے، خاص طور پر اس سارے سیاسی اور لسانی پس منظر میں پسے ہوئے اور مظلوم طبقے ”عورت، بزرگ اور بچوں“ کی نظر سے دیکھنے کا خوبصورت عکس اس ناول کی عظمت اور حقیقت پسندی کو انمول بنا دیتا ہے۔

عثمان جامعی نے مذہب، زبان، کلچر، علاقے اور سیاسی مفادات کی جنگ میں انسانی وقار اور انسانی احساسات کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔ انسان کے ہاتھوں انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں انسانیت کو زندہ رکھا ہے، کسی کو صحیح اور غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہ ظلم کس طرح انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں نہایت سادگی اور ایمانداری سے بیان کیے ہیں۔ انہوں نے کئی ایسے ایسے کاٹ دار جملہ لکھیں ہیں جو انسانی سوچ کو وسعت دیتے ہیں، معصوم نوشابہ کے سپنے، شمن دادا اور نوشاد چچا کے فکر انگیز تجزیے، ذیشان کے جذبات اور سارنگ کے خواب یہ سب ہم جیسے لوگوں کی ترجمانی تو شاید نہ سہی مگر اظہار ضرور کرتے ہیں۔ یہ ناول کراچی، بلکہ سندھ اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس کے چند جملے قابل ذکر ہیں۔

”رہنے کے لئے گھر بناؤ پھر زندہ رہنے کے لئے چھوڑ دو۔ کیا ہمارا گھر بس ایسے محلے میں ہونا چاہیے جہاں سب ہر طرح ہمارے جیسے ہوں، زبان، مذہب، مسلک سب یکساں، اف، ایسی بستی کے بارے میں سوچ کر بھی کتنی بے زاری ہوتی ہے جہاں سب ایک سے ہوں، جہاں کوئی ذرا الگ لہجے میں“ باجی نشابہ ”کہنے والا نہ ہو۔“ (صفحہ 42 )

”یہ سیاست بھی کیا گھن چکر ہے، فلسفہ، کرکٹ، مذہبی مباحث اور سیاست کی یہ پیچیدگی ہی تو انھیں ایسا دل چسپ بنا دیتی ہے کہ لوگ ان کے ہو کے رہ جاتے ہیں، اس جادو نگری میں کسی کے ہاتھ الہ دین کا چراغ لگ جاتا ہے اور کوئی ہاتھ بھی کٹوا بیٹھا ہے۔ سیاست تو وہ بلا ہے کہ ہم اس میں پڑیں نہ پڑیں یہ کسی بھی بہانے ہمارے پیچھے پڑ جاتی ہے۔“ (صفحہ 123 )

”ہم کراچی والوں کے لئے چین سکون بھی کسی عیاشی سے کم نہیں اور تعیشات بہت جلد اپنا عادی بنا لیتے ہیں۔“ (صفحہ 150 )

”میں سوچتی ہوں ایک اجنبی معاشرے میں زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے، شہاب بھائی نے اس کا عجیب جواب دیا،“ اپنوں میں ایک دن اجنبی ہو جانے سے بہتر ہے اجنبیوں کے ساتھ زندگی گزار دی جائے۔ جانتے ہیں غیروں میں ہیں، پھر جو ملے احسان لگتا ہے، نہ ملے تو حق تلفی کا احساس نہیں ہوتا۔ ”(صفحہ 176 )

میرپور خاص کی نوشابہ کی ڈائری سے شروع ہونے والا یہ ناول کسی ہالی وڈ کی فلم سے کم نہیں، پیار محبت کی کہانی، روزمرہ انسانی واقعات، گلی محلے کی گفتگو، عام انسانوں کے مسائل اور اقدار کے حصول کی جنگ کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ناول کو اس سے کہیں پذیرائی حاصل ہونی چاہیے، یہ ناول صرف سیاسی واقعات ہی نہیں بلکہ ان سے رونما ہونے والے اثرات اور عام انسانوں کی زندگی پر اس کے اثرات کا بخوبی احاطہ کرتا ہے۔

اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہی آپ کو احساس ہو گا کہ مصنف نے کس قدر شاہکار ناول لکھا ہے۔ شاید اس کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ان حالات کو وہ ہی لوگ بہتر سمجھتے ہیں جو اس کرب سے گزرے ہیں یا اس صورتحال سے کسی طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بہر حال عثمان جامعی اس شاندار کاوش پر مبارکباد کے مستحق ہیں ان کی یہ تخلیق اردو ادب میں ایک منفرد اور مختلف اضافہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ میں سوچتا ہوں اگر یہ کتاب انگریزی یا کسی اور یورپی زبان میں لکھی جاتی تو بیسٹ سیلز نگ بک ہوتی۔ ناول میں حالات و واقعات کی بہترین اندازہ میں منظر کشی کی گئی ہے۔

یہ ناول کراچی کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے مایوس نہیں کرتا ہے بلکہ جس خوبصورتی کے ساتھ عثمان جامعی صاحب نے اس کا اختتام کیا ہے وہ کئی نئی شروعات کا سفر ہے۔ ”سارنگ کے لہجے میں کتنا اعتماد کتنی امید تھی۔ کھڑکی سے آتی صبح کی دھوپ میں اس کی آنکھیں یوں روشن تھیں جیسے ان میں پورا سورج اتر آیا ہو۔“ (صفحہ 180 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments