کولیکٹیو الوژن (اجتماعی وہم)۔


بھائی صاحب مجھے اس مشکل میں نہ ڈالیں۔ آپ کو میرا جواب معلوم ہے۔
تم مجھے ہاں میں جواب دو۔ اپنے سگے بھائی پر دوسروں کو ترجیح دے رہی ہو۔

آپ میرے ماں جائے ہیں۔ میرے بڑے ہیں۔ اگلے ہفتے لڑکے والے منگنی کی رسم کرنے آنے والے ہیں۔ میری پوزیشن کا اندازہ کریں۔ ہم زبان دے چکے ہیں۔ پچھلے چار ماہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمارے عم زاد کا بیٹا ہے۔

تم اپنے اکلوتے بھائی کو ناں کہہ رہی ہو؟ ساری زندگی بہنوں کو پالتے رہے ہیں۔ اور تم خون کے رشتوں پر کسی اور کو ترجیح دے رہی ہو۔

اگر مجھے پہلے آپ کے ارادے کا پتہ ہوتا تو ہم رشتہ کرنے کے بارے میں ضرور سوچتے۔

سوچتے؟ کیا کمی ہے ہمارے بیٹے میں؟ سگے بھائی کی اولاد ہے۔ خود چل کر تمہارے گھر آئے ہیں۔ پانچ پانچ بیٹیاں ہیں تمہاری۔ تم لوگوں کا ہی بوجھ کم کرنے کا سوچتے ہیں اور تم لوگوں کا مزاج ہی نہیں مل رہا۔

دیکھئے بھابھی، ہم رشتہ طے کر چکے ہیں۔ ہمارے اور ہماری بیٹی کے لئے دعا کریں۔ اب یہ وقت مناسب نہیں کہ ہم ایسی باتیں کریں۔

تم گھر آئی برادری کا بھی لحاظ نہیں کر رہی۔ آنے والوں سے ہم خود بات کر لیتے ہیں۔ وہ ہم بہن بھائی کی رضا مندی دیکھ کر خود پیچھے ہٹ جائیں گے۔ ویسے بھی ہمارا حق زیادہ ہے۔ وہ ہمارے خاندان سے ہیں لیکن ہم سے بڑھ کر تو نہیں۔ ساتھ آئے بہن اور بہنوئی بھی دباؤ ڈالنے لگے۔

بھائی جان ہماری مجبوری سمجھیں، ہمارے جڑے ہاتھ دیکھیں۔ ہم زبان دے چکے ہیں۔ پھر لڑکا بھی ماشاءاللہ قابل ہے۔ اخلاق، کردار کی گواہی تو آپ بھی دیتے ہیں۔ خاندان بھی سلجھا ہوا ہے اور لڑکے کا اپنا گھر بھی ہے۔ پھر اتنی چاہ سے انھوں نے رشتہ مانگا ہے۔ ہماری بیٹی کم ذمہ داریوں کے ساتھ بہتر زندگی شروع کر سکتی ہے۔ باقی اللہ مالک ہے۔

تو کیا ہمارا بیٹا لولا، لنگڑا یا بھینگا ہے۔ ہم نے سوچا، چلو اس رشتے داری سے آگے اولادیں ملتی رہیں گی۔ بہن بھائی کا تعلق مزید مضبوط ہو جائے گا۔ لیکن یہاں تو مزاج ہی نہیں مل رہے۔ کیا ہماری ہی ذمہ داری ہے کہ سب کا خیال کرتے پھریں۔ یہاں تو کسی کو قدر ہی نہیں۔

(درمیانی میز پر تواضع کے لوازمات سجے پڑے ہیں جس کو کسی نے ہاتھ ہی نہیں لگایا۔ اٹھا اٹھا کر سب کو پیش کرنے پر بھی کسی نے ایک چیز نہ پکڑی، نہ چکھی۔ )

تو پھر تم لوگ ہمیں انکار کر رہے ہو؟

بے بسی، تناؤ، دباؤ اجنبیت بھرے ماحول میں بہنوئی نے کہا کہ جی اس سلسلے میں ہماری طرف سے معذرت ہے۔ اس مرحلے تک آ کے بلا جواز ایک اچھے بر کا انکار میرے لئے ناممکن ہے۔ میں اپنے قول کا پابند ہوں۔

دیکھ لو پھر ساری زندگی کے لئے ہم بہن بھائی دوبارہ نہیں مل سکیں گے۔ جینا مرنا یہیں ختم۔ پھر کبھی میری دہلیز تک نہ آنا بھلے کچھ بھی ہو جائے۔ اور جس جس نے تمہارا ساتھ دیا، وہ بھی میرے لئے مر گیا۔ یہ کہتے ہی بھائی صاحب، بھابھی، ساتھ آئی دو بہنیں اور ان کے شوہر بھی اٹھ گئے۔ رکنے کی ساری درخواستیں نامنظور ہوئیں۔ التجائیں کرتی ساری آوازیں گھر کے آنگن میں ہی منجمد ہو گئیں۔ اور آنسوؤں کی زبان کو کسی نے نہ دیکھا، نہ سمجھا۔ پیچھے بہن پریشانی سے بے ہوش ہو گئی اور باقی افراد نڈھال۔

اگلے کچھ ہی گھنٹوں میں ساری بہنیں بھائی کی حامی بن گئیں اور کئی اور قریبی رشتے دار بھی ان کے ساتھ کندھا ملا کے کھڑے ہو گئے۔ کسی کو بھائی کی خفگی کا ڈر تھا۔ کسی کو مراعات کے ختم ہونے کا۔ کسی کو اکیلا رہ جانے کا خوف۔ کسی کو لعنت ملامت سننے کا اندیشہ۔ کسی کو پرائے پھڈے میں خود کو بدنام کرنے سے بیزاریت۔ کسی کو ساری برادری کی مخالفت سہنے کا ڈر۔

ورنہ سب کو پتہ تھا کہ لڑکی والوں کا انکار بجا تھا۔ ہونے والا رشتہ اس آپشن سے کہیں بہتر ہے۔ بھائی کا بیٹا ابھی تک کچھ نہیں کرتا تھا۔ بلکہ ساری اولادیں شادی، غیر شادی شدہ وہی پال رہے تھے۔ دونوں بہن بھائیوں کے گھریلو ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اور اسی طرح لڑکے اور لڑکی کے مزاج کا بھی۔ تعلیمی تفریق اور ذہنی بلوغت اور حساسیت کے معیار اس کے علاوہ تھے۔ اور سب سے بڑی بات کہ آج تک کبھی اس بہن اور بہنوئی کو وہ عزت بھائی کے گھر نہیں ملی تھی، جس کے کوئی بھی عزیز مستحق ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں پہلے سے طے شدہ رشتے اور منگنی کی تقریب کے اتنا قریب پہلے رشتے کو توڑنے اور نئے رشتے کی پیشکش کرنا اخلاقاً معیوب ہے۔

لیکن ان سارے حقائق سے اوپر ایک اور حقیقت جو سب کے سامنے تھی کہ اگر سچ کا ساتھ دیا تو برادری سے خارج ہونا پڑے گا۔ خاندان کی شناخت اور مدد کا اختتام۔ اس لئے جو اجتماع کا فیصلہ، وہی سچ ہے۔ باقی سب جھوٹ اور غیر ضروری ہے۔ اس لئے سب کہتے رہے کہ بہن، بہنوئی نے بڑا غلط کیا۔ لڑکے پر ذمہ داری پڑتی تو خود ہی بر سر روزگار بھی ہو جاتا۔ ذہنی مطابقت بھی پیدا ہو ہی جاتی کہ لڑکیوں کو تو سمجھوتہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ زبان سے پھرنا پڑتا تو کیا ہوتا؟ کیا آج سے پہلے کوئی رشتہ نہیں ٹوٹا؟

جب میں نے یہ واقعہ سنا تھا تو مجھے ڈاکٹر ٹوڈ روز کی کتاب کولیکٹیو الوژن یاد آئی تھی جو اسی سال فروری میں شائع ہوئی۔ وہ خود ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ کے تھنک ٹینک میں سے رہے ہیں۔ اور آج کل پوپولیس ادارے کے صدر ہیں۔ اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ انسان چونکہ ایک معاشرتی حیوان ہے۔ اس لئے اس کا سب سے بڑا ڈر اس کا اکیلا پن ہے۔ اجتماعیت میں اس کو اپنی بقا ملتی ہے۔ اور اسی خوف کے زیر اثر وہ نہ صرف سچ کا ساتھ دینے سے گھبراتا ہے بلکہ یہی چیز اس سے غلط فیصلے کرواتی ہے۔ سب کا ساتھ دینے کے چکر میں وہ حق کا ساتھ دینا بھولتا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اکثریت کی رائے ضروری نہیں ہے کہ درست بھی ہو۔ خاندان، برادری اور معاشرے کا ڈر اس سے بہت سی ایسی باتیں منگواتا ہے جو کہ راست نہیں ہوتیں۔

آج سے دو چار مہینے پہلے جب میں نے پہلی دفعہ اس بارے میں پڑھا تھا تو اپنے ارد گرد پیش آنے والی ایسی بہت سی مثالیں سامنے آنے لگیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے مشاہدے میں بھی ایسا کچھ لازمی ہو گا۔ اور جیسے ہی محرم شروع ہوا۔ یوں لگا کولیکٹیو الوژن کی ایک عملی مثال مجسم ہو گئی ہو۔ کوفہ والوں کی آخری وقت کی خاموشی۔ امام حسین علیہ السلام کے رفقاء کا پیٹھ پھیرنا۔ یزید کی فوج کا نا چاہنے کے باوجود ظلم و بربریت کی انتہا کر دینا وغیرہ وغیرہ۔

اور مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ ابھی بھی ہمارے ہاں واقعہ کربلا کولیکٹیو الوژن کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مذہبی تفرقوں اور دھڑوں میں بٹے ہیں۔ اور اس کے انکار کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments