اگر دل رکھیں گے تو دل لگی ہوگی!


یونیورسٹیاں تعلیم کے ساتھ ساتھ، علم، ادب، انسانیت اور محبت کی نرسریاں ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی کا زمانہ تھا، یہ وہ دور تھا، جب سندھ کی یونیورسٹیوں میں خاص طور پر جام شورو کے پس منظر میں رومانوی شاعری کی دنیا پر حلیم باغی کا قبضہ برقرار تھا، حالاں کہ سندھ یونیورسٹی کے طلبہ شیخ ایاز، استاد بخاری، آکاش انصاری، ابراہیم منشی، سرویچ سجاولی اور حسن درس کے گیت گنگناتے تھے، لیکن تمام طلبہ حلیم باغی کے جام شورو کے حوالے سے لکھے گئے اشعار تعویذ کی طرح باندھ کر رکھتے تھے۔

اس زمانے میں سندھی ڈپارٹمنٹ کے کاریڈور میں معمول کے مطابق چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے حلیم باغی، حسن درس سمیت کچھ سینئر شعراء کو ہم یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات اپنے اشعار سنا رہے تھے، کہ نوابشاہ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نے اپنے پرس میں سے ایک کاغذ نکا ٹکڑا نکال کر رخسانہ پریت کا ایک شعر پڑھا۔ اس شعر کے الفاظ کچھ یوں تھے :

سوچیو سینی اندر پٿر رکجی،
دل جی رکبی تھ، دل لڳی ٿیندی
ترجمہ: سوچا سینے پر اک پتھر رکھ لیں،
اگر دل رکھیں گے تو دل لگی ہوگی

اس لڑکی کے شعر پڑھنے کے بعد حسن درس چلا اٹھے، ”حلیم باغی! ، تمہارا توڑ آ گیا۔ تم کہتے ہو کہ جو جام شورو سے گزرتا ہے، وہ پتھر بن جاتا ہے، لیکن رخسانہ پریت تو سینے میں دل کی جگہ پتھر رکھنے کا مشورہ دے رہی ہے! کیوں کہ دل کی سنیں گے تو دل لگی ہوگی۔ میری رخسانہ پریت سے شعر کے ذریعے یہ پہلی ملاقات تھی۔ ہم جب سندھ یونیورسٹی کے طالب علم تھے، تب سندھ کے بہت سارے نوجوان شعراء یونیورسٹی آ کر اپنی یادیں تازہ کیا کرتے تھے۔

ان کا ٹھکانہ زیادہ تر سندھی ڈپارٹمنٹ کا کاریڈور ہوا کرتا تھا، جس کے کونے میں کرسیاں ڈال کر ہم ادبی نشستیں منعقد کیا کرتے تھے۔ رخسانہ پریت کا یہ شعر سننے کے بعد ہماری گفتگو کا موضوع ”دل دینا اور لینا“ کے کاروبار پر بحث مباحثہ کرتے گزرا۔ اختتام پر سب کی رائے اس طالبہ کی طرف تھی، جس نے رخسانہ پریت کا یہ ”دل لگی“ والا شعر سنا کر جیسے محفل لوٹ لی تھی۔ رخسانہ پریت کا ایک اور شعر ہے کہ:

”پریت آ ڳالھہ ڪئی گھری جو،
محفل ۾ ڇڪتاڻ وڌی آھی۔ ”
ترجمہ: پریت جو بات کی ہے گہرائی کی
محفل میں کشمکش ہے بڑھ گئی

شاعری اور ادب پڑھنے کی دلچسپی نے مجھے رخسانہ پریت کے دوسری شاعری تک پہنچایا۔ جب 1998 ء میں سندھی شاعری کا ان کا پہلا کتاب منظرعام پر آیا تو میں کتاب کے پہلے خریداروں میں شامل تھا۔ میرے لیے دلچسپی کا سبب یہ بھی تھا کہ ہم جہاں پروان چڑھے، جس آب و ہوا میں سانس لیا، اس میں ایک طرف شادیوں میں گیت گانے والی بہت بڑی شاعرہ مائی مرکھاں شیخن کا ماحول سجا ہوا تھا تو دوسری جانب حاجراں پھلن، مریم آریسر، ممتاز نظامانی، مائی بھاگی، اور سندھ رانی جیسے بہت سے مزاحمتی، ادبی کردار موجود تھے۔

اور ان کے ساتھ ساتھ عوامی تحریک جیسی جماعت کا ماحول تھا، جس کی پوری قوت عورتوں کی آزادی، ان کے دکھوں، تکلیفوں اور ان کی جدوجہد کی جانب تھا۔ ہم کورس کے ساتھ ساتھ میران کی شاعری، قرٔۃالعین حیدر، سارا شگفتہ، امرتا پریتم، پروین شاکر سمیت عورت ادیبوں اور شعراء کو بھی پڑھتے تھے۔ اس لیے مجھے سچ مچ رخسانہ پریت کی شاعری پڑھ کر وہ حیرانی ہوتی تھی کہ کوئی نوجوان سندھی شاعرہ ایسی پابند شاعری بھی کرتی ہے! ؟ جس کے خیالوں کی پرواز اتنی اونچی ہے، جو اسے صف اول کے شعراء میں لا کر کھڑا کرتی ہے۔ اس کی شاعری میں درد، تڑپ، احساس و جستجو کمال کی نظر آئی۔ اپنی زندگی کے بارے میں وہ ایک شعر میں یوں کہتی ہیں کہ:

ھیجن تی ہریل ناھیون،
نثھڻ ۾ عمر گزری،
پاڇن ۾ پلیل ناھیون۔
ترجمہ: نازنخروں کے عادی نہیں،
کڑی دھوپ میں عمر گزری،
سایوں میں پلے نہیں ہم۔

یا پھر پیاس اور تڑپ کا ایک منظر اس شعر میں عیاں نظر آتا ہے :
ڪڪری تہ وسی وئی آھی،
بس پیاس پسی ڪانھی،
ھر چیز پسی وئی آھی۔
ترجمہ: بادل کا دھبہ تو برس گیا ہے،
بس پیاس گیلی نہیں ہوئی
ہر چیز گیلی ہو گئی ہے

رخسانہ پریت جب پیار، محبت اور عشق پر لکھتی ہیں تو مجھے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اردو شاعری میں پروین شاکر نے پروا کیے بغیر اپنے جذبوں کا اظہار کیا ہے، اسی طرح سندھی شاعراؤں میں پھر رخسانہ پریت نے کیا ہے۔

چؤ پیار ملی ویندو،
ملندو تہ ڪڏھن ملندو،
جوڀن تہ ہلیو ویندو۔
ترجمہ: کہو پیار مل جائے گا،
ملے گا تو کب ملے گا،
جوبھن تو چلا جائے گا۔
یا پھر دوسری جگہ لکھتی ہیں کہ:
آھی شام کان اوسیئڙو،
پیو ساٿ ڏئی ڏیئڙو،
متان سمجھین ایئن پیارا،
جلندو پیو ہڪئی جیئڙو،
ھر ڪنھن جا ایندا وارا،
تون ایئن نہ ڪر پیارا!
ترجمہ: ہے شام سے خدشہ،
دے رہا ہے ساتھ دیا،
نہ سمجھنا ایسا پیارے،
جلتا رہے گا ایک ہی جیا،
ہر کسی کی آئیں گی باریاں،
تم ایسے نہ کر و پیارے۔

جہاں حسن، سوچ اور پیار کے احساس اس کی شاعری میں رچے بسی نظر آئیں گے، وہاں وہ ایک دھرتی کی ایسی شاعرہ بھی نظر آئیں گی، جو سندھ کی تکلیفوں پر نہ صرف مزاحمتی شاعری کے ذریعے عملی جدوجہد کے ذریعے ہر وقت میدان پر نظر آئیں گی۔ میں کیوں کہ شاعر نہیں ہوں، اس لیے مجھے بحر، وزن، ردیف، قافیے وغیرہ کی کوئی معلومات نہیں، لیکن خیال، تصور، سوچ، نفاست اور سچائی ایسی چیزیں ہیں، جو ہر پڑھنے والا اپنی پسند کی شاعرہ یا اس کے شاعری سے پرکھ لیتا ہے۔

بے جا نمائش، میڈیائی کوریج، اسٹیجوں اور شہر سے کوسوں دور رہنے والی رخسانہ پریت اپنے دور تو کیا، پر ہر دور کی بہترین شاعرہ ہیں، جس نے اپنی ذات میں ادب، سندھ، خاندان اور اپنے ڈاکٹری شعبے کے ساتھ ایک جیسی وفا کی ہے۔ تنازعات، بے جا جھگڑوں اور فضول اختلافات رکھنے کے بجائے انھوں نے ہمیشہ سندھ اور سچائی کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی بسر کی ہے، اس لیے سندھ کے بڑے ادیب، لکھاری اور شعراء اپنی کتابوں اور اپنے کام پر رخسانہ پریت سے رائے لکھوانا پسند کرتے ہیں۔ الطاف شیخ، ادل سومرو، امر سندھو سمیت بہت سے ادیبوں اور لکھاریوں کے لیے ان کے لکھی گئی رائے انتہائی غیر جانبدار اور وزندار سمجھی جاتی ہے۔ ان کے فیس بک کی وال کو دیکھا جائے تو سندھ کے ہر نوجوان شاعر اور شاعرہ کا شعر رخسانہ پریت کی رائے کے لیے ٹیگ ہوا نظر آئے گا۔

ان کی شاعری میں دکھ، تکالیف اور درد کے دریا رواں دواں نظر آتے ہیں۔ رخسانہ پریت کے شاعری میں کمال کی موسیقی گردش کرتی ہے۔ تصور اور خیالوں کی اڑان ہے۔ ان کی سالگرہ کے موقعہ پر یہ تحریر رقم کرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ رخسانہ پریت نے اپنی شاعری کو اپنے ہاں چھپاکے کیوں رکھا ہے؟ صرف تین کتاب کے بعد باقی کتاب مارکیٹ میں کیوں نہیں لاتیں؟ حالانکہ اس نے بہت لکھا ہے، ان کے غزل، نظم اور گیت آواز کا روپ دھار کر سندھ کے ہر علاقے میں کیوں نہیں پہنچیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ مطالعے کی دھار تیز کرنے والے پتھر پر رکھتے ہوئے وہ شاعری کا سفر جاری رکھیں گی تو ایک نہ ایک دن وہ سندھ کے مایہ ناز شعراء کی فہرست میں شمار کی جائیں گی۔ اس وقت رخسانہ پریت سندھ کی سب سے بڑی شاعرہ کہا جاتا ہے، کچھ اہل قلم لوگ لکھتے ہین، رخسانہ پریت سندھ کی پروین شاکر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments