ایک سائنسدان کے ساتھ چار دن


کینیڈا میں آج کل راتوں کو پورا چاند نظر آتا ہے۔ اور فضا چونکہ صاف ہے اس لیے اگر آپ شہر اور شاہراہوں کی روشنیوں سے دور نکل جائیں تو تارے بھی نظر آتے ہیں۔ مگر یہ وہ تارے نہیں جو دن کو نظر آتے ہیں۔ یہ تو ایک بات تھی اور دوسری بات ذرا سنجیدہ دلچسپ اور قدرے حیران کن ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ چاند اس وقت موجود ہوتا ہے جب آپ اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس وقت موجود نہیں ہوتا جب آپ اس کو دیکھ نہیں رہے ہوتے۔ عام طور پر یہ بات درست نہیں مانی جا سکتی کیونکہ عام فہم میں نہیں آتی۔ مگر 1930 میں سائنسدانوں کو یہی سوال درپیش تھا۔ یہ سوال جب آئن سٹائن کے سامنے رکھا گیا تو اس نے بھی اس کو غلط قرار دیا تھا۔ آئن سٹائن کا خیال تھا کہ کسی شے کے موجود ہونے یا موجود نہ ہونے کا اس کو دیکھے جانے سے کوئی تعلق نہ ہے۔

مگر اس پر تجربات جاری رہے۔ اور 1960 میں کوانٹم فزکس نے ثابت کیا کہ آئن سٹائن غلط تھا۔ کیونکہ کوئی بھی حقیقت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مشاہدے کے بغیر کسی حقیقت کا صرف امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس امکان کی پیمائش، سائنس کی ایک چھوٹی سی شاخ Probability Theory کرتی ہے۔ مگر سو فیصد یقین کے ساتھ صرف وہی حقیقت بیان کی جا سکتی ہے جس کا مشاہدہ ہو رہا ہو۔

یہ دلچسپ انکشاف ڈاکٹر محمد سہیل زبیری نے ٹورنٹو میں ایک نجی گفتگو میں کیا۔ ڈاکٹر زبیری اے اینڈ ایم یونیورسٹی ٹیکساس میں فزکس اور فلکیات کے امتیازی پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا غائبانہ تعارف ڈاکٹر خالد سہیل نے اس سال کے آغاز پر اس وقت کروایا تھا جب وہ مجھے اپنی اور ڈاکٹر سہیل زبیری کی مشترکہ تصنیف : مذہب، سائنس اور نفسیات کا ترجمہ کرنے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ ڈاکٹر زبیری نے فزکس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے وہ امریکہ سے پی ایچ ڈی اور فیلو شپ کرنے کے بعد واپس اپنی مادر علمی، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد چلے گئے جہاں سے 1974 ء میں انھوں نے فزکس میں ایم ایس سی کی تھی۔

قائداعظم یونیورسٹی میں انھوں نے 15 سال خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے یونیورسٹی میں پہلی بار پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا آپ کے زیر سایہ متعدد متعدد طلباء نے فزکس کے شعبہ کوانٹم آپٹکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مگر ان کی کوانٹم آپٹکس پر تصنیف کردہ کتاب دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں بطور نصابی کتاب رائج ہے۔ ان کی علمی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ انہی خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر زبیری کو صدر پاکستان کی طرف ہلال امتیاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

15 سالہ خدمات کے بعد 1999 ء میں ڈاکٹر زبیری دوبارہ امریکہ آ گئے۔ جہاں وہ فزکس اور فلکیات کے شعبہ میں امتیازی پروفیسر ہیں۔ 7 اگست کو، مذہب سائنس اور نفسیات، کی تقریب پذیرائی کے بعد راقم اور ڈاکٹر زبیری ڈاکٹر خالد سہیل کے مہمان تھے اور ہمارا قیام وہٹبی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر تھا۔ جس کو وہ درویش کی کٹیا کہتے ہیں۔ دونوں ڈاکٹر صاحبان تواتر سے محو گفتگو رہتے تھے اور ہم ہمہ تن گوش۔ یہ دونوں چونکہ بچپن کے دوست بھی ہیں اس لیے ان کی باتیں ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھیں۔

میرا خیال ہے۔ یہ صرف چند گھنٹے سونے کا وقفہ کرتے ہوں گے ۔ یا ڈاکٹر زبیری کچھ دیر وقفہ لے کر اپنی شریک حیات کو دن کی روداد فون پر سناتے تھے۔ اونتاریو میں ڈاکٹر خالد سہیل نے ادبی سر گرمیوں کو زندہ رکھا ہوا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ کینیڈا کی مصروف ترین زندگی میں سے فیملی آف دی ہارٹ کے لوگ وقت کیسے نکالتے ہوں گے ۔ ہر روز کسی نہ کسی ادیب مصنف ادب پسند صاحب کی طرف کھانے کی دعوت تھی۔ ایک نشست میں ڈاکٹر زبیری نے کوانٹم مکینکس اور فلکیات کے تناظر میں کائنات کی تخلیق، اس کی ہیئت، کیا اناسن اشرف المخلوقات ہے اور یہ کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے؟ یہ آگاہی دی:

جدید ترین سائنسی علم کی مطابق یہ کائنات 13.8 ارب سال قبل ایک (عظیم دھماکے ) ”بگ بینگ“ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ اس سے قبل زمان و مکاں ایک نقطہ نما شے میں مرکوز تھے اور یہ شے اس وقت بلند درجہ حرارت رکھتی تھی۔ ’بگ بینگ‘ کے نتیجے میں کائنات پھیلنا شروع ہو گئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ ٹھنڈی بھی ہوتی گئی۔ سب سے پہلے ایٹم بننے شروع ہوئے پھر مالیکیول بنے، اس کے بعد ستارے، سیارے اور پھر کہکشائیں وجود میں آئیں۔

سائنسداں اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کائنات اب بھی پھیل رہی ہے۔ مگر اس کے پھیلنے کی رفتار، ان کے معلوم کردہ مادے اور توانائی کے فارمولے سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمیں صرف 5 فیصد کائنات نظر آتی ہے۔ باقی 95 فی صد کائنات ہم سے پوشیدہ ہے۔ ہم کو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ اس سے وہ یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ کائنات میں ”سیاہ مادے“ اور ”سیاہ توانائی“ کا وجود بھی ہے۔ مگر لمحہ موجود تک اس کی ہیئت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کیا جا سکا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے کمرے میں بھوت گھس آئے ہوں۔ کمرے کی اشیاء اپنی جگہ پر حرکت کر رہی ہیں مگر وجہ معلوم نہیں کی جا سکتی۔ سیاہ مادے پر تحقیق فزکس اور آج کی سائنس کا تازہ ترین موضوع ہے جس پر بہت کام ہو رہا ہے۔

ہر دم پھیلتی کائنات کا تصور بڑا دلفریب اور پر اسرار ہے۔ اس تصور سے جو تصویر بنتی ہے اس میں کائنات محدود ہے اور ہم اگر چاہئیں تو اس کے کنارے تک جا سکتے ہیں۔ مگر علم فلکیات ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کائنات محدود تو ہے مگر بے کراں بھی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟

اس بات کو میں ایک مثال سے واضح کر تا ہوں : ایک بڑے گول غبارے میں جب ہوا بھری جا رہی ہو تو وہ بیک وقت محدود بھی ہو گا، لا محدود بھی اور پھیل بھی رہا ہو گا۔ کوئی بھی جاندار کیڑا (حشرات الارض) جو صرف دو سمتی پیمانے کو جانتا ہے وہ یہی سمجھے گی کہ اس کا کنارہ موجود ہے حالانکہ اگر وہ غبارے کی سطح پر چلنا شروع کر دے تو وہیں پہنچ جائے گا جہاں سے چلنا شروع کیا تھا۔ اگر غبارہ پھیل بھی رہا ہے تو اس کیڑے کو اس کا ادراک نہیں ہو گا۔ جب تک وہ ایک تیسری سمت جس میں سے ہم دیکھ رہے ہیں، نہ سمجھ سکے۔ دوسرے الفاظ میں کائنات کو سمجھنے کے لئے اس سے باہر نکلنا ضروری ہے۔

یہاں ایک اور بات سمجھنی ضروری ہے کہ ”بگ بینگ“ نظریے کی عمر ستر سال سے بھی کم ہے۔ بگ بینگ نظریے کے وجود میں آنے سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور یہ کہ ایک کائنات بے پایاں حجم رکھتی ہے۔

انسانی تکبر کا ایک مظاہرہ یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ جو اس کو معلوم ہے وہی دنیا کا سب سے بڑا اور قابل یقین سچ ہے۔ لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ سائنس ترقی کر جاتی ہے اور نئے نظریات پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کو سمجھ آتی ہے کہ وہ کس قدر غلطی پر تھا۔ کون جانے آنے والی صدیوں میں ہم بھی یہی کچھ کر رہے ہوں۔

کائنات کی پیدائش اور پھیلاؤ کے کلیے کو سامنے رکھیں تو کئی اور سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا 14 ارب سال قبل جب ہماری کائنات ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی تو کیا تھا؟

کیا کوئی اور کائنات تھی جو نقطہ آغاز میں سمٹ آئی اور ایک بڑے دھماکے کی وجہ بنی جس سے ہماری کائنات پیدا ہو گئی؟

ہماری کائنات کا مقدر کیا ہے؟ کیا کسی مقام پر اس کا پھیلنا کبھی بند بھی ہو گا؟ اور دوبارہ سکڑنا شروع کر دے گی اور اسی حالت میں چلی جائے گی، جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا؟ کیا اس وقت ایک اور بگ بینگ ہو گا؟ آنے والے ان اوقات میں وقت کی مقدار کا کیا ہو گا؟ ان سوالوں کے جوابات ہمیں کچھ سائنسی ماڈل دیتے ہیں۔ یہ ماڈل کوانٹم مکینکس کی مدد سے بنتے ہیں۔ کوانٹم مکینکس بذات خود ایک حیرت کدہ ہے۔ کوانٹم مکینکس یہ انکشاف کرتی ہے کہ ایک کائنات نہیں ہے بلکہ لامحدود کائناتوں کا وجود ممکن ہے۔

اور ایک کائنات دوسری کائنات کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہاں پہنچ کر ایک اہم سوال جنم لیتا ہے :اس بحر بے کراں جیسی کائنات کے وجود کا آخر مقصد کیا ہے؟ بطور بنی نوع انسان ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات ہم زمین کے باسیوں کے لئے بنائی گئی ہے۔ ایسا دعوٰی کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اپنی حیثیت ہی کیا ہے اور کائنات کی ترتیب میں ہمارا کردار کیا ہے۔

ذرا تصور کیجیے، ہماری کہکشاں اپنے اندر کھربوں ستارے رکھتی ہے جن میں سے سورج ایک معمولی ستارہ ہے۔ اور کائنات کے اندر اس طرح کی کھربوں کہکشائیں موجود ہیں؟ اس بات کی کوئی سائنسی توجیح نہیں ملتی کہ یہ کائنات محض ہمارے لئے بنائی گئی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم اس پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے۔ یا ہمارا وجود کائنات کو متاثر کر سکتا۔ موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ہماری رفتار کی ایک حد ہے جو روشنی کی رفتار ہے۔ کوئی چیز روشنی سے زیادہ تیزی سے حرکت نہیں کر سکتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو قریب ترین ستارے تک پہنچنے میں بھی چار سال لگیں گے۔ لہٰذا ہماری کم مائیگی کہ ہم کسی قریبی ستارے کی سیر پر بھی نہیں جا سکتے۔ اگر یہ سب تماشا ہمارے لئے ہوتا تو ہم میں یہ صلاحیت تو ہونی چاہیے تھی۔

ایک اور امکان بھی موجود ہے کہ کائنات کا وجود ہی نہ ہو۔ اور جس کو ہم کائنات سمجھ رہے ہیں یہ ہمارے دماغ کا بنایا ہوا افسانہ ہو۔ کچھ ایک خواب ہو اور ہم پر حقیقت اس وقت منکشف ہو جب ہم نیند سے جاگ جائیں۔ یہاں میں نے غالب کا یہ شعر پڑھا:

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

ان متجسس اور پریشان کن خیالات کی اساس اس ارتقاء پذیر اور محدود علم پر ہے جو ہمیں موجودہ وقت تک حاصل ہوا ہے۔ اس کی بنیاد پر ہم کسی طور اس پوزیشن میں نہیں کہ اٹھائے گئے سوالات کا کوئی مستند جواب دے سکیں۔ اشرف المخلوقات کا متکبرانہ دعویٰ رکھنے کے باوجود ہماری حیثیت زمین پر رینگنے والے کیڑے سے زیادہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments