ہائے وہ لوگ۔۔۔۔ خوش کلام سے لوگ


ڈاکٹر اختر شمار محبتیں بانٹنے والے ایک خوبصورت شاعر ہیں۔ انہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ قدرت کے اپنے اصول اور قاعدے ہیں جن سے کسی کو مفر نہیں۔ بعض اوقات خصوصا موت کے معاملے میںاس کے فیصلے انسان کو اچانک حیران کر دیتے ہیں۔ بہر حال موت برحق ہے آج نہیں تو کل سب نے اس کا ا یندھن ہو کر رہنا ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار جو کہ اعلیٰ پائے کے شاعر، ادیب، ماہر تعلیم، کالم نگار، افسانہ نگاراور ایک مخلص انسان تھے۔

جانے کس دیس جا بسے اختر

ہائے وہ لوگ خوش کلام سے لوگ

لوگ لوگوں کے لیے شعرکہتے ہیں اختر شمار کا یہ شعر انہی پر صادق آتا ہے۔ وہ ایک مخلص اور گداز دل رکھنے والے شخص تھے۔ وہ محبتیں بانٹتے اور سمیٹتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ان کی محبت پر ایک معرف زمانہ غزل ہے:

محبت بھی مصیبت ہے کریں کیا

مگر اپنی ضرورت ہے کریں کیا

ہمارے پاس اس لمحہ نہیں ہے

اسے فرصت ہی فرصت ہے کریں کیا

تجھے کھونے کا ڈر اپنی جگہ ہے

تجھے پانے کی حسرت ہے کریں کیا

مسلسل دیکھنے سے مت خفا ہو

یہی اپنی عبادت ہے کریں کیا

ہمیں مرنا پڑا خوش فہمیوں میں

اسے ہنسنے کی عادت ہے کریں نکی

کوئی ماحول راس آتا نہیں ہے

جہاں جائیں اذیت ہے کریں کیا

ہم اس سے بچ کے چلنا چاہتے ہیں

مگروہ خوبصورت ہے کریں کیا

ہمیشہ سچ نکل جاتا ہے منہ سے

کچھ ایسی ہی طبیعت ہے کریں کیا

ستم دل پر نہ کوئی ہم بھی سہتے

مگر اس کی حکومت ہے کریں کیا

انہوں نے اپنی ساری زندگی تدریس کے ساتھ جوڑ دی اس سلسلے میں مصر کی جامعہ عین شمس اور جامعہ الازہر میں بھی پانچ چھ سال تک پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان کا آبائی گاﺅں پنڈی کے قریب چکری سہال تھا۔ جب والد صاحب کا بہ سلسلہ روز گار ملتان تبادلہ ہوا تو آپ اپنی فیملی سمیت حسن آباد آن بسے۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے ایک دو ملازمتیں بھی کیں، ایک سکول میں کلرکی اور پولیس کے محکمے میں بھی دل نہ لگا کیوں کہ تخلیقی ادب کی بے چینی نے ایک جگہ رکنے نہ دیا۔ شعرو شاعری کا شغل انہیں ان کے استاد بیدل حیدری سے فیضیابی کے بعد لاہورمیںلے آیا۔ ان کے حلقہ احباب کی تعداد وسیع ہے جن میں کئی ایک کے ساتھ معاصرانہ چشمک رہی۔ کئی ایک پر خاکے لکھ کر ان کو ناراض بھی کر لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک یہ اچھی عادت تھی کہ ناراض شدہ دوستوں کو خود ہی منا بھی لیتے تھے۔ اطہر ناسک مرحوم، باقی احمد پوری، مدثر بٹ، سعد اللہ شاہ، ڈاکٹر جواز جعفری، ناصربشیر، گل نوخیز اختر، عرفان صادق، نوشی گیلانی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، صوفیہ بیدار، آفتاب خان، راجہ نیر اور ڈاکٹر تنویر حسین ان کے مزاج کو خوب سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی فیملی لائف میں تو بہت پر سکون تھے مگر میدان سخن میں کچھ بے چیناں ساری زندگی ان کے ہم رقاب رہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب پرائڈ آف پرفارمنس کے حق دار تھے جو ان کو ان کی زندگی میں نہ مل سکا۔ لاہور میں کئی دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لکھنے پڑھنے والے ان کے دوست بنے۔ کچھ ان کے پرانے دوست جو دوسرے شہروں میں رہتے ہیں، نے بھی اپنے اپنے مقام پر شہرت پائی جن میں رضی الدین رضی، شہزاد سلیم، قمر رضا شہزاداور تابش الوری جیسے معروف شاعر بھی شامل ہیں۔ لاہور میں اختر شمار ادبی مسائل کے بڑے محازوں پر ڈٹے رہے۔ ان کے بجنگ آمد نے شہرت کے ڈونگرے ان کے دامن میں لا جمع کیے۔ ان کا شمار اردو ادب کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زد عام ہیں۔ ان کے عہد میں یہ شرف صرف اختر شمار، فرحت عباس شاہ، عباس تابش، منصور آفاق اور وصی شاہ کے حصے میں آیا ہے کہ ان کی حیات میں ہی ان کے اشعار عوامی درجہ اختیار کر لیں۔ ان کی 30 سے زائد کتب منصئہ شہود پر آ چکی ہیں

اختر شمار کا تخلیقی سفر چار دہائیوں پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بی اے ملتان سے کیا اور ایم اے اردو اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور سے کیا۔ انہوں نے تدریسی فرائض کا آغاز قصور کالج سے کیا۔ اس کے بعد جی سی کالج لاہوراور پھر تا دم آخر ایف سی کالج یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے متمکن رہے۔ انہوں نے ”حیدر دہلوی :احوال و آثار“ کے عنوان سے خواجہ محمد زکریا کی نگرانی میںپی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ اسی کی دہائی کے اواخر میں انہوں نے مختلف رسائل اور اخبارات میں کام کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی انجمن ترقی اردو کراچی سے بھی خاص یاد اللہ رہی۔ ابھی تک ان کے تخلیقی کام پر مختلف یونی ورسٹیوں سے پانچ چھ تحقیقی مقالہ جات رقم ہو چکے ہیں۔ ان کی پیدائیش پاک پتن شریف میں ہوئی اور تدفین ان کے آبائی گاﺅں چکری سہال میں ہوئی۔

ان کی تصانیف میں روشنی کے پھول، کسی کی آنکھ ہوئے ہم، ابھی آغاز محبت ہے، جیون تیرے نام، ہمیں تیری تمنا ہے، آپ سا کوئی نہیں، تمہی میری محبت ہو، دھیان، عاجزانہ، اکھیاں دے وچ دل، میلہ چار دیہاڑے، پنجابی ادب رنگ، برتری ہری ایک عظیم شاعر، میں بھی پاکستان ہوں، ہم زندہ قوم ہیں، لاہور کی ادبی ڈائری، موسی سے مرسی تک، جی بسم اللہ وغیرہ ہیں۔ ان کی کلیات ” اختر شماریاں “ کے نام سے چھپی تھی۔ انہوں نے حمد، نعت، سلام، منقبت و مناجات، غزل، نظم، گیت، ترانے، دوہڑے وغیرہ جیسی معتبر اصناف میں بسیرا کیا۔ وہ نو محرم الحرام 8 اگست 2022 کو دار فانی سے باسٹھ سال کی عمر میں رخصت ہوئے۔ وہ عارضہ جگر میں مبتلا تھے۔ بڑے صابر آدمی تھے اتنے سیلف میڈ کہ کبھی اشد ضرورت کے وقت بھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتے وہ ”ہمیشہ اوپر والاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے“ والی حدیث پر عمل پیرا رہے۔ اکثر غریب ادیبوں کی چپکے سے مدد کر دیتے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی پھر ان سے کبھی صلے کے متمنی نہیں رہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے بہت جدوجہد کی ان کے اندر صوفیانہ خو اور آرزو تھی۔ ان کا شعری سفر تو ان کی تقریبا ساری زندگی پر محیط ہے مگر ان کی گفتگو اور نثری تحریروں میں اپنے مرشد (جو کہ ہری پورکے باسی ہیں) سے والہانہ، دلبرانہ، صوفیانہ، بے باکانہ اور بے لوث عقیدت ٹپکتی تھی۔ ان کے کالموں میں اشفاق احمد کی طرح ایک بزرگ یا بابا جی ہوتے تھے جن سے زندگی کو سدھارنے کاسلیقہ ملتا۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی زندگی میں سب سے زیارہ حرف کا پاس تھا شاعری انہیں اپنی جان سے بھی عزیز تھی مگر آپ یہ جان کر انگشت بدنداں ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے شعر سے بھی زیادہ پیار اپنے مرشد پیر جی سے تھا۔ جب کبھی ان کے مرشد کا تذکرہ چھڑ جاتا تو ڈاکٹر صاحب کا رنگ پہلے بھی سرخ سفید تھا، وہ مزید سرخ ہو جاتا چہرے پر عقیدت کا نور پھیل جاتا اور پلکوں پر محبت کے دیپ جل اٹھتے۔ اس سچی لگن کا نتیجہ یہ تھا کہ اپنی وفات سے چند ہی دن قبل وہ باقاعدہ مرشد کے ڈیرے کا طواف کرنے گئے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے پیر و مرشد سید شبیر حسین شاہ رحمت اللہ علیہ سے وصال کے راز و نیازکرنے گئے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد کا منظر اس کی تصدیق کرتا ہے کہ جب ان کو ان کے آبائی قبرستان چکری سہال میں دفن کر دیا گیا تو دوسرے تیسرے دن بعد وہ ہری پور کے احباب، ان کے پنڈی کے احباب اور ان کے بڑے صاحبزادے تیمور خان کے خواب میںڈاکٹر صاحب آکے کہتے ہیں کہ وہ پنڈی کی آرام گاہ میں خوش نہیں ہیں وہ ہری پور اپنے پیر کے پاس جانا چاہتے ہیں۔ یوں یہ بات آن دی ریکارڈ ہے کہ ان کی دوبارہ قبر کشائی کی گئی ان کے جسد خاکی کو وہاں سے نکال کے ہری پور لے جا کر تیسرا جنازہ پڑھا یاگیا۔ کسی ہستی سے والہانہ جڑت کو ادبی زبان میں عشق کا نام دیا گیا اور سچے عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پارسائی، حیا داری اور خود انحصاری کی زندگی بسر کی۔ ان کا کبھی کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا کیوں کہ وہ ہر شخص کو اس کے مقام کے مطابق جگہ دیتے اور ایک بڑی یونی ورسٹی میں ہوتے ہوئے بھی جہاں کبھی نہ کبھی کسی کا بھلے ہلکا اور کمزورسا ہی سہی، اسکینڈل لوگ ضرور بنا دیتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں بھی سرخرو ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ اپنے جونیئرز کی بہت ہی احسن طریقے سے راہنمائی فرما دیتے۔ تمام بڑے شاعر غم دوراں اور غم جاناں کا شکار رہے ہیں۔ اختر شمار کی شاعری بھی ان دونوں کے کرب سے لبریز ہے۔

تجھے میں مل نہ پایا وقت رخصت

جیوں گا جب تلک یہ غم رہے گا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دیکھے کسی کو ایک جھلک اور اس کے بعد

پہروں کسی کو بیٹھ کے سوچا کرے کوئی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کاغذ پہ یہ اشعار ہیں یا خون کے چھینٹے

یا رنگ پہ آیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فن کار کا دکھ ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک جیسے تھے سبھی اس شہر میں

مجھ کو سب سے مختلف ہونا پڑا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہاں رکے ہیں اب بھی یزیدوں کے ظلم و ستم

ہمارے سامنے کشمیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی کہانی ہے

ڈاکٹر اختر شمار بنیادی طور پر ایک استاد تھے اور اپنے بعد آنے والوں کی حوصلہ افزائی اپنے فرائض کا حصہ گردانتے تھے۔ ہمیشہ کہتے کہ پڑھانے والے میں اور کوئی خوبی ہو نہ ہو اسے استاد اچھا ہونا چاہیے کیوں کہ وہ قوم کی نسلوں کے معمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اختر شمار خود بھی ایک اچھے مدرس تھے۔ ان کے تلامذہ ان کی کلاس کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ انہیں اپنے سبجیکٹ پر مکمل گرفت تھی۔ وہ ادب، ادیب اور اپنے گردو پیش میں معاصرانہ چشمک کے معاملات سے بھی خوب واقف تھے۔ ایک مرتبہ کسی ادبی تقریب میں وہ ایک خوبرو شاعرہ کے پاس کھڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر از راہ تلذت، دو عورتیں ان کے پاس آئیں اور تقریبا ً پورا گھنٹہ انہیں سمجھاتی رہیں کہ یہ نئی نئی لڑکیاں یوں ہی ادب میں شوقیہ آ جاتی ہیں ادب سے ان کا دور کا بھی واستہ نہیں ہوتاجب ان کا ٹھرک پورا ہو جاتا ہے تو جلد یا بہ دیر ادبی منظر نامے سے غائب ہو جاتی ہیں، ڈاکٹرصاحب !متذکرہ شاعرہ سے بچ کے رہیے گا۔ ڈاکٹرصاحب حسب عادت مسکرائے اور انہیں باور کرایا کہ جو آپ سمجھ رہی ہیں ایسا کچھ نہیںوہ میری پڑھی لکھی کولیگ اور صاحب دیوان شاعرہ ہے۔ اس پر وہ دونوں خائف ہو کر چلتی بنیں۔ ڈاکٹر صاحب سوجھ بوج کے آدمی تھے اور زمانے کی اونچ نیچ کو برابر سمجھتے تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب تخلیق کار اور ایک مجلسی آدمی تھے۔ ان کے پاس ہمہ وقت کوئی نہ کوئی شاعر ادیب ضرور ادب و فن پر گفتگو کر رہا ہوتا۔ آخری کچھ مہینوں سے وہ اپنے پرانے دوستوں منصورآفاق، شفیق احمد خان اورڈاکٹر غافر شہزاد کے پاس کافی وقت گزارنے لگے۔ یونیورسٹی سے اٹھتے تو ان کا دوسرا مسکن مجلس ترقی ادب تھا۔ جہاں ہفتہ وار بڑے مشاعرے کے ساتھ ساتھ دیگر اصناف اورسینئر ادیبوں کے ساتھ شامیں ہوتیں، اکثر میں ڈاکٹر صاحب شرکت فرماتے۔ وہاں کچھ دیگر دوستوں سے بھی ان کی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ وہیں وہ اپنے پرانے دوست صابر رضا اور محمود پاشا سے بغلگیر ہو کر بے انتہا خوش ہوئے۔ انہیں اس بات کا بھی ملال تھا کہ سوشل میڈیا نے ادیب اورتخلیق کارکو نقصان پہنچایا ہے اب لوگ محنت کی بجائے شہرت پر یقین رکھتے ہیں یہ سستی اور جعلی شہرت اور رات و رات وائرل ہونے کی خواہش پڑھنے لکھنے کے عمل اورحقیقی ہنر کی مسابقت کو بڑی تیزی سے برباد کر رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شعرکو لکھ کر میدان میں رکھ دینا چاہیے اس میں جان ہو گی تو زندہ رجائے گا۔ وہ مشاعرے میں پہلا مصرع پڑھتے تو سامعین اگلا مصرع دھرا دیتے۔ ان کے چند اشعاردیکھیے:

ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا

اور اس کے بعد فقط آندھیوں کو آنا تھا

میں گھر کوپھونک رہا تھا بڑے یقین کے ساتھ

کہ تیری راہ میں پہلا قدم اٹھانا تھا

وگرنہ کون اٹھاتا یہ جسم و جاں کے عذاب

یہ زندگی تو محبت کا اک بہانہ تھا

یہ کون شخص مجھے کرچیوں میں بانٹ گیا

یہ آئینہ تو مرا آخری ٹھکانہ تھا

پہاڑ بھانپ رہا تھا مرے ارادے کو

وہ اس لیے بھی کہ تیشہ مجھے اٹھانا تھا

بہت سنبھال کے لایا ہوں اک ستارے تک

زمیں پر جو مرے عشق کا زمانہ تھا

ملا تو ایسے کہ صدیوں کی آشنائی ہو

تعارف اس سے بھی حالاں کہ غائبانہ تھا

میں اپنی خاک میں رکھتا ہوں جس کو صدیوں سے

یہ روشنی بھی کبھی میرا آستانہ تھا

میں ہاتھ ہاتھوں میں اس کے دے نہ سکا تھا شمار

وہ جس کی مٹھی میںلمحہ بڑا سہانا تھا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں

مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں

اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی

اس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے

تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دشمنی کر مگر اصول کے ساتھ، مجھ پہ اتنی سی مہربانی ہو

میرے معیار کا تقاضا ہے، میرا دشمن بھی خاندانی ہو

اپنے پیر و مرشد کے نقش قدم پر وہ اللہ رسول اور ان کی آل سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ نبی آخر الزماںﷺ سے ان کی عقیدت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی ان کا یہ شعر دیکھیے:

میں گزرتا تو وہاں جاں سے گزرتا چپ چاپ

یہ ہوا کیسے مدینے سے گزر جاتی ہے

ڈاکٹر صاحب ایک مخلص پاکستانی اور محب وطن تھے۔ سماج میں پنپنے والی خرافات کا بھی ان کے دل پر ایک بوجھ تھا۔ وہ کہتے ہیں:

ریزہ ریزہ ہونے لگا ہوں میں ہر پل

کھا جائیں گے مجھ کو پاکستان کے دکھ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف

تیرے لیے میں پاﺅں پہ اپنے جم کے کھڑا تھا ایک طرف

ایک اک کر کے ہر منزل کی سمت ہی بھول رہا تھا میں

دھیرے دھیرے کھینچ رہا تھا تیرا رشتہ ایک طرف

دونوں سے میں بچ کر تیرے خواب و خیال سے گزر گیا

دل کا صحرا ایک طرف تھا آنکھ کا دریا ایک طرف

آگے آگے بھاگ رہا ہوں اب وہ میرے پیچھے ہے

اک دن تیری چاہ میں کی تھی میں نے دنیا ایک طرف

دوسری جانب اک بادل نے بڑھ کر ڈھانپ لیا تھا چاند

اور آنکھوں میں ڈوب رہا تھا دل کا ستارہ ایک طرف

وقت جواری کی بیٹھک میںجو آیا سو ہار گیا

اختر اک دن میں بھی دامن جھاڑ کے نکلا ایک طرف

ڈاکٹر صاحب عادتاً ذرا زود رنج بھی رہتے تھے کہ ان کو ا نکا جائز مقام نہیں ملا۔ ہمیشہ انہیں حفظ مراتب کا خیال رہتا۔ وہ بہت حساس انسان تھے۔ اس کے باوجود بھی سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔ اکثر کہتے کہ زندگی مختصر سی ہے ہم نے اور کتنا طویل جینا ہے لہذا دوریاں اور کدورتیں ختم ہونی چاہیں۔ ان کا ایک شعر اس خیال کی غمازی کرتا ہے:

مت کسی کا گلہ کرو بھائی

سب پہ راضی رہا کرو بھائی

بہر حال ڈاکٹر صاحب نے اپنی تدریسی، صحافتی اور ادبی و تخلیقی زندگی کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ ان کی اچانک وفات نے ان کے سب چاہنے والوں کوغمزدہ کر دیا ہے۔ اجل کو کون روک سکتا ہے۔ آخر میں ان کے دوستوں کی طرف سے ان کا اپنا ہی ایک شعر ہے:

میں کیا کہوں کہ کیسی تھی وہ شام الوداع

میں دیکھتا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلایا نہیں اسے

وقت نے تو یہی سکھایا شمار

آج ہے آج، کل نہیں کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments