پاکستانیوں کو انارکی مبارک ہو


انارکی، بنانا ریپبلک، فسطائیت، نوآبادیاتی نظام جیسے الفاظ ہم ہر روز سنتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ اصطلاحات اپنے پیچھے صدیوں کی تاریخ رکھتی ہے۔ اور ان الفاظ کو سمجھنے والے جب یہ لفظ سنتے ہیں تو وہ پوری تاریخ ان کے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی اس وقت انارکی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ اگرچہ انارکی پسند افراد اس کے کچھ مثبت پہلوں بھی بیان کرتے ہیں۔ جیسے معروف برطانوی انارکسسٹ لکھاری کولن وارڈ کے مطابق تو انارکی کا لفظ عام طور پر منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی افراتفری، انتشار، دنگا فساد وغیرہ لیکن بقول ان کے اس کا منفی کام سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ انارکی کا مقصد و مطلب کسی بھی سماج میں قائم انسانی درجہ بندی کا خاتمہ ہے یعنی ایک ایسا نظام جس میں چھوٹے بڑے غریب مالدار حاکم محکوم کمزور اور طاقتور کا کوئی تصور نہ ہو۔

اور وہ نظام انسانی برابری کی بنیاد پر چل رہا ہوں۔ لکھنے اور سننے کی حد تک تو یہ ایک بہترین فلسفہ اور نظریہ حیات ہے مگر بد قسمتی سے اس نظریے کے حامی جدید دنیا میں بھی اس کا کوئی کامیاب مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یعنی دنیا میں ایسا کوئی انسانی معاشرہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ہے جس میں نظم و ضبط نہ ہو جس میں قاعدہ قانون نہ ہو جس میں نوکر اور افسر نہ ہو جس میں غریب اور مالدار نہ ہو جس میں کمزور اور طاقتور دونوں موجود نہ ہو۔ اور جس میں انسانی اور سماجی درجے نہ ہو۔

پاکستانی سیاست میں منافقت کی انتہا دیکھئے کہ وہ عمران خان جنھوں نے عمر بھر اس بات پر سیاست کی کہ میں ملک میں ایک ایسا نظام لانا چاہتا ہوں جو طاقتور کو بھی غریب کی طرح سلاخوں کے پیچھے ڈال سکے۔ اور ملک میں یکساں نظام انصاف ہو۔ بجا سہی۔ لیکن کیا عمران خان صاحب ہمیں بتا سکتے ہیں کہ کمزور اور غریب تو درکنار کیا ایک مڈل کلاس سرکاری نوکر، دکاندار یا عام آدمی ملک کے سب سے معتبر تفتیشی ادارے ایف آئی اے کو جواب دینے سے انکار کر سکتا ہے؟

بالکل نہیں مگر آپ نے انکار کیا کیونکہ آپ طاقتور ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں اب تک کسی عام آدمی تو درکنار کسی بھی فوجی یا سیاسی رہنماء نے عوامی سطح پر کسی جج کا نام لے کر اسے دھمکی دی ہے۔ بالکل نہیں، نواز شریف اور مشرف جیسے طاقتور بھی اشاروں کنایوں میں بات کرتے تھے مگر آپ جلسہ عام میں پولیس افسران کے ساتھ ساتھ ایک خاتون جج کا نام لے کر انہیں دھمکیاں دیتے ہیں۔ اور اس چاق و چوبند عدلیہ کو سانپ سونگھ جاتا ہے جو پوسٹنگ ٹرانسفر کے آئینی حق کے استعمال پر بھی وزیر اعظم کے خلاف سوموٹو لینے کا جواز پیش کر سکتی ہے۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ آپ لاڈلے اور طاقتور ہیں۔ ابھی پانچ سال پہلے کی بات ہے دو تہائی اکثریت کے حامل تیسری مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے ملک کے سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ کو نہ صرف وزیر اعظم کے عہدے سے غیر قانونی انداز میں ہٹایا گیا بلکہ انہیں اپنی سیاسی پارٹی کی صدارت سے بھی ہٹا دیا۔ ان کو گرفتار کیا گیا۔

انہیں ان کی بیٹی اور درجنوں ساتھیوں کو آپ نے جیلوں میں ڈالا، کیا ان میں کسی نے اپنی گرفتاری کے خلاف عوام کو اکٹھا کر کے قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی؟ نہیں کیونکہ وہ ملک میں انارکی پھیلانے کی بجائے قانون کے مطابق پاکستان کی عدالت اور عوام کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔ مگر آپ نے گرفتاری سے بچنے کے لئے معصوم کارکنوں کو ڈھال بنانا شروع کیا۔ سینکڑوں لوگوں کو بنی گالا بلا کر مزاحمت کی راہ اپنائی۔

عمران خان صاحب، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اس ملک کو انارکی میں مبتلا کر دیا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد جب آپ کے پاس صرف ایک صوبے کی حکومت تھی تو آپ نے اپنے درجنوں دوستوں، یوٹیوبرز اور سیاسی ساتھیوں سمیت وہاں ڈیرے ڈالے اور اپنے دور اقتدار میں نو سو ارب قرض دار بنانے والے غریب صوبے کے سرکاری خرچ پر کھانے پینے بلکہ پینے پلانے، رہائش اور ہوائی سفر تک کے مزے اڑائے۔ یہ تو شکر ہے کہ پنجاب میں آپ لوگوں کو حکومت ملی اور پختونخوا کی جان کسی حد تک چھوٹ گئی۔ اب آپ نے ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا۔ شہباز گل کی اڈیالہ جیل سے ہسپتال منتقلی والے تنازع کے بعد بارہ لیگی رہنماؤں پر پنجاب میں مقدمے بنانا انارکی کی بد ترین شکل ہے۔

جب خود کو عالم اسلام کا لیڈر کہنے والے اور وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر براجمان رہنے والے شخص کی ذہنی سطح یہ ہو کہ وہ گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے سرکاری ملازمین کے نام لے لے کر دھمکیاں دیتا پھرے۔ اس سے زیادہ اس ملک کی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ اور انارکی و انتشار کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے لوگ براجمان رہنے سے ان عہدوں کی عزت و توقیر ہی ختم ہو گئی۔ سیاسی و انتظامی درجہ بندی تو رہنے دیجئے، نفرت کے پجاریوں نے سماجی اور معاشرتی ڈھانچے کو نیست و نابود کر دیا۔

آج سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ہر گھر میں بیٹا باپ کو، بیوی شوہر کو، بہن بھائی کو اور شاگرد استاد کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ معزز سمجھے جانے والے ماڈرن گھرانوں کی بہو بیٹیاں سر عام جلسوں میں ناچتی ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں، بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کی حد ملاحظہ کیجئے کہ نوجوان لڑکی سرعام میڈیا کے ذریعے عمران خان کو اپنے بیڈ روم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ مگر ثناء خوان تہذیب مشرق خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

مغرب میں پرورش پانے اور وہاں کی تہذیب سے مستفید ہونے والے عمران خان پاکستان میں جس قسم کی تبدیلی چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی والوں کو مبارک ہو۔ ایک طرف آزادی ماڈرن ازم اور لبرل ازم میں تمام حدود کو پھلانگ چکے ہیں مگر سیاسی مفادات کے لئے منافقت کی انتہا دیکھئے کہ دوسری طرف یہی لیڈر ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کے دعویدار ہے۔ اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکہ کی سازش قرار دیتے ہیں مگر دوسری جانب اسی امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر کے پرائیویٹ فرم کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ایک ہی تقریر میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے احسانات تعاون اور مدد کا ذکر کرتے ہیں مگر اس کے بعد اسی اسٹیبلشمنٹ پر لعن طعن شروع کر کے انہیں مجبور کرتے ہیں کہ باقی سب چور ہیں لہذا مجھے دوبارہ تخت نشین کرایا جائے۔

بد قسمتی سے پاکستان تباہی کے ایک ایسے کنارے پر کھڑا ہے کہ آگے دریاں پیچھے کھائی ہے۔ عمران خان کو اگر تمام تر غیر قانونی اقدامات کے باوجود گرفتار نہیں کرتے ہیں تو وہ ریاستی اداروں قانون اور عوام کا مزید ستیاناس کر دیتے ہیں، اگر گرفتار کرتے ہیں تو وہ نہ صرف مزید ہیرو بن جائے گا بلکہ ان کے جذباتی کارکنوں کی جانب سے کسی حد تک نقص امن کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ اس لئے دفاعی اور سیاسی قیادت کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس ملک کو تباہی سے بچانے کے چند فیصد امکانات ابھی باقی ہے اسے ختم مت کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments