میرا ڈوبتا بلوچستان


میرا بلوچستان ڈوب رہا ہے۔ اس کے باسی بے یار و مدد گار بے بسی کی تصویر ہو چکے ہیں۔ ان کے گھر یا تو منہدم ہو چکے ہیں یا رہنے کے قابل نہیں۔ ان کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ ان کی روزمرہ زندگی کا واحد ذریعہ مال مویشی بھی سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں۔ جبکہ سیلاب زدگان کی مدد کے ذمہ داران ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور اقتدار کے لیے رسہ کشی میں مصروف ہیں۔

اگرچہ سیلاب نے ملک میں تباہی مچا رکھی ہے لیکن بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ صوبے میں 26 میں سے 18 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ 30 سالوں میں اوسط بارش 55 ملی میٹر رہی ہے۔ موجودہ بارشوں کا تناسب 200 ملی میٹر کے لگ بھگ ہے جو کہ 300 فیصد اضافہ ہے۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کے اعداد و شمار پی ڈی ایم اے کے لگانے گئے اندازے سے کہیں زیادہ ہیں۔ جس کے مطابق صوبے بھر میں 576 سکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث تعلیمی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ صوبے میں 18 ڈیم ٹوٹ چکے ہیں ملک میں سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد 650 ہے جن میں سے 225 بلوچستان میں مر چکے ہیں۔ مزید براں، 40000 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ جن میں سے 22000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

صوبے میں 70000 ایکڑ پر محیط فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ 1,07,377 مویشی مر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ دریائے بولان کے قریب اور زیارت میں 24 انچ کی گیس پائپ لائن کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث کئی علاقوں کو گیس کی سپلائی بند ہو گئی ہے۔ 18 پل غربت کے علاوہ صوبے میں 690 کلومیٹر سڑکیں بہہ چکی ہیں۔ روتو ڈیرو۔ گوادر موٹروے (M 8 ) ، کوئٹہ۔ ڈیرہ اسماعیل خان قومی شاہراہ (N 50 ) ، قلعہ سیف اللہ۔ ملتان قومی شاہراہ (N 70 ) ، اور کوئٹہ۔ کراچی قومی شاہراہ کے ساتھ ساتھ ریل کے ذریعے صوبے کا دوسرے صوبوں سے رابطہ معطل ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ساتھ مل کر ایک ماہ قبل متاثرین کو 5 لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس رقم میں بعد کمی کی گئی کیونکہ ایک حالیہ ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ملک بھر میں 15 لاکھ گھروں کو 25 ہزار کی ادائیگی کی جائے گی۔

دوسری طرف وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے فلڈ ریلیف فنڈ قائم کیا ہے۔ جبکہ حکومت بلوچستان نے فلڈ ریلیف فنڈز کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک دن کی کٹوتی کا اعلان بھی کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلڈ ریلیف فنڈ کے قیام اور سرکاری ملازمین کی ایک دن کی تنخواہ میں کٹوتی سے سیلاب کے متاثرین زخموں پر مرہم لگے گا؟ اس کا جواب واضح طور پر نہیں ہیں۔ ریاست یا صوبہ بہترین اور جامع پالیسیوں سے چلائے جاتے ہیں نہ کہ بے فائدہ فیصلوں اور چمکدار نعروں سے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیلاب کی ان تباہیوں کے باوجود پالیسی ساز اور مجاز حکام ابھی اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں۔

وہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر کے اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے آنے والے خطرے پر قابو پانے پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ڈیموں کا پھٹ جانا، سڑکوں کا اکھڑنا، سرکاری عمارتوں کی تباہی اور پلوں کا گرنا انجینئروں، بیوروکریسی اور تعمیراتی اداروں کی نا اہلی اور بدعنوانی کی عکاسی کرتا ہے۔ 5 سال سے بھی کم عرصے میں ڈیمز کیسے پھٹ گئے؟ کوئی پوچھنے والے نہیں۔ صوبے میں بد ترین گورننس اپنے عروج پر ہے۔

بلوچستان ڈوب چکا ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ ہو گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ریلیف کے دعوے صرف اعلانات تک محدود ہے۔ جبکہ تمام ذمہ داران ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں۔ بلوچستان کے لوگ التجا اور سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ انسان اور پاکستان کے شہری نہیں؟ کیا حکام اس چیخ و پکار پر توجہ دیں گے؟ کیا وہ ان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے؟ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ کیونکہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا حکمران اور پالیسی ساز گونگے اور بھرے یو چکے ہیں۔ جب تک سیلاب ان کے سیمنٹ سے بنے مضبوط گھروں کو تباہ نہیں کر دیتا اور ان کے اپنے بچے مدد کے لیے نہیں پکارتے، یہ طاقت اور اقتدار کی پجاری، بھوکی اشرافیہ گہری نیند میں سوتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments