بارشوں کا روگ (افسانہ)


ساون کا موسم موج میں ہے۔ رات کا وقت ہے اور ہر طرف اندھیرا اور اندھیرے میں سناٹے کا راج! آسمان کی چھت کو بادلوں نے ڈھانپ لیا ہے۔ دوڑتے بادلوں میں گرج چمک۔ گرج کی آواز کے شور سے ماحول میں پھیلی ہوئی خاموشی میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ سارا دن بارش تھی۔ لگتا ہے اس وقت بھی بارش برسنے کو ہے۔ چھوٹا سا گاؤں جو مسلسل موسلا دھار بارشوں کے پانی میں گھرا ہوا ہے۔ رضیہ نے جس وقت سے سنا ہے کہ گاؤں کے قریب بہتے سیم نالے میں بڑی طغیانی ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قریبی گاؤں کے لوگ کسی محفوظ جگہ پر منتقل ہوجائیں۔ کسی وقت بھی سیم نالے کے بند میں شگاف پڑ سکتا ہے اور قریبی گاؤں سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں۔

اس وقت سے رضیہ کے ذہن میں خوف کا طوفان برپا ہے۔ بچے کو چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتے سوچ میں گم ہو جاتی ہے۔ سیلاب کی آفت کے ڈر کی خاردار تاریں اس کے ذہن کو رگڑ رہی ہیں۔ ایسا محسوس کرتی ہے جیسے اس کی سوچ زخمی ہو گئی ہو اور اس کا ذہن لہولہان ہو گیا ہو۔ جیسے خون اس کے حلق میں سے ٹپک رہا ہو اور اس کا منہ خون آلود ہو گیا ہو۔ بجلی غائب ہے اور کچے مکان کی کھڑکی پر لالٹینیں جل رہی ہے جس کی ہلکی روشنی صحن پر پڑ رہی ہے۔

رضیہ گھر کے آنگن میں چار پائی پر بیٹھی زخمی سوچ سے سوچ رہی ہے کہ ایک طرف بارش آنے کو ہے اور دوسری طرف اگر رات کے وقت سیم نالے کا بند ٹوٹ گیا تو کیا ہو گا؟ منصور کا باپ اسلام آباد میں نوکری کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ اسے چھٹی لے کر آنا چاہیے تھا۔ قریب پڑی دوسری چارپائی پر بے پرواہ سوئے ہوئے سسر کی طرف دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ بے پرواہ سوئے ہوئے بابا بخشے کو کہا بھی تھا کہ منصور کے باپ کو فون کر کے بلا لو مگر نہیں مانا۔ اگر سیلاب آیا تو عمر رسیدہ بابا بخشے کیا کر سکے گا سیلاب میں؟ میں تیرنا نہیں جانتی۔ اکلوتے دودھ پیتے بیٹے منصور کا کیا ہو گا؟ خودکلامی میں بڑبڑاتی ہے۔

”پروردگار تو ہی پناہ میں رکھ“
جیسے ہی بڑبڑا کر کہتی ہے تو گرج چمک کے ساتھ زوردار بارش شروع ہو جاتی ہے۔ بخشے جاگ کر کہتا ہے :
”رضیہ بیٹی جلدی کرو چارپائیاں اندر کرو“
”جی بابا۔ لو۔ منصور کو سنبھالو“

”ٹھیک ہے مجھے دو منصور“ بخشے منصور کو لے کر اندر جاتا ہے اور رضیہ چارپائیاں اندر کرتی ہے اور روتے ہوئے منصور کو بخشے سے لیتی ہے۔ اسے دودھ پلاتے بخشے کو کہتی ہے :

”بابا چھت ٹپک رہی ہے“
”بارش شدید ہے بیٹی! زحمت بن گئی ہے۔ اللہ اسے رحمت بنائے۔“
”بابا!“
”جی بیٹی“
”ہم غریب لوگ گھر نیچے اور قبرستان اوپر کیوں بناتے ہیں؟“
”کیسی باتیں کر رہی ہے۔ اللہ اللہ کرو کہ آفت ٹل جائے۔“
”بابا مجھے ڈر لگتا ہے یہ بارشیں روگ بن جائیں گی۔ میری بات نہیں مانی۔“
”کون سی بات نہیں مانی؟“
”کہ دن کو گھر چھوڑ کر چلیں۔ ہم ایک دوسرے کی کیوں نہیں مانتے؟“
”مایوسی کفر ہے اسلام میں۔“
”مانتی ہوں بابا مگر اسلام نے زندگی بچانے سے بھی نہیں روکا۔ گھر بن جاتے ہیں زندگی دوبارہ نہیں ملتی۔“
”سارا گاؤں بیٹھا ہے۔ صرف ہم نہیں۔ اللہ کارساز ہے۔ “ صبح ہوتے ہی چلیں گے۔ ”
”اگر صبح تک موقع ہی نہ ملے تو؟“
*کیا ہو گیا ہے تجھے؟ خیر مانگو۔ اللہ بڑا عظیم ہے۔ ”
”بیشک اللہ عظیم ہے بابا!“
”بس دعا کرو کہ خیر ہو جائے۔ صبح چھوڑ دیں گے گاؤں۔“
پر یہ گاؤں میں شور کیوں ہے بابا؟ رضیہ گھبرا کر کہتی ہے۔
”دیکھتا ہوں۔“ بخشے باہر جاتے ہوئے کہتا یہ تو رضیہ اسے کہتی ہے :
”دھیان سے جاؤ بابا پاؤں پھسل نہ جائے۔“
بخشے باہر جاتا ہے اور جاتے ہی آنگن سے آواز دیتا ہے :

”رضیہ! لگتا ہے سیم نالے کا بند ٹوٹ گیا ہے۔ پانی نے گاؤں کو گھیر لیا ہے۔ گاؤں والے نکل رہے ہیں۔ پانی ہمارے گھر کے صحن میں داخل ہو گیا ہے۔ جلدی کرو آؤ۔ نکل چلیں۔“

”کیا؟“ رضیہ سے چیخ نکل جاتی ہے اور منصور کو بانہوں کے سہارے مضبوطی سے سینے سے لگا کر نکلتی ہے۔ باہر آ کر بخشے کو کہتی ہے :

”بابا اوپر بارش نیچے سیلاب کیسے نکل پائیں گے۔ خشکی پر سمندر آ گیا ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔“
”وقت ضائع مت گرو۔ آؤ مسجد کی طرف سے نکلتے ہیں۔“ بخشے بے بسی میں سے کہتا ہے۔
”میں تیر نہیں پا سکوں گی بابا۔ یہ بارشوں کا روگ بہا کر لے جائے گا۔“
”اللہ پر بھروسا رکھو۔ وقت ضائع مت گرو۔ میرا سہارا لو۔“

رضیہ مڑ کر ایک بار گھر کو دیکھتی ہے اور پھر بخشے منصور کو پکڑ کر کاندھے پر بٹھاتا ہے۔ رضیہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہے۔ دونو پانی میں کود پڑتے ہیں پانی کا بہاؤ دریا کی طرح ہے۔ پہلے پانی قمر تک پھر اور زیادہ بڑھتا جاتا ہے۔ جب پانی سر سے گزرتا ہے تو بخشے ایک ہاتھ اور پاؤں ہلا کر تیرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں بخشے کا پاؤں پھسل جاتا ہے تو منصور پانی میں گر کر ڈوب جاتا ہے اور پھر منصور کو بچانے کی کوشش میں رضیہ کا ہاتھ اس سے چھوٹ جاتا ہے۔

رضیہ غوطے کھانے لگتی ہے اور چیخ کر کہتی ہے، ”میرا لخت جگر منصور! بابا منصور کو بچاؤ میری خیر ہے۔“ بخشے کوئی جواب نہیں دیتا اور منصور کے ساتھ ڈوب جاتا ہے۔ دونوں کی چیخیں فضا میں گونج اٹھتی ہیں تو رضیہ پھوٹ کر روتی ہے اور کہتی ہے ”میں نے کہا تھا نہ بابا کہ بارشوں کا روگ ہمیں بہا کر لے جائے گا۔“ اور پھر ہاتھ پاؤں چلاتے غوطے کھاتی ہے کہ ایک موٹا سا درخت کا تنا اس سے ٹکراتا ہے تو اس سے لپک کر خوف میں سے اس پر چڑھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے آنسو سیلاب میں جذب ہو جاتے ہیں۔ اوپر سے بارش نہیں جیسے آسمان اس کی حالت زار پر رو رہا ہے۔ اس کی چیخیں بارشوں کا روگ بن کر آسمان کو چھو گر آسمان میں دراڑیں ڈالتی ہیں۔ اور پھر رضیہ زندگی اور موت کی کشمکش میں درخت کے تنے کے ساتھ چیختی چلاتی لہروں میں تیزی سے بہتی چلی جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments