کیا ہم کوئی غلام ہیں؟


میرا ایک رشتہ دار ٹوکیو، جاپان میں مقیم ہے۔ ہر پانچ چھے مہینے بعد فون پر بات چیت ہو جاتی ہے۔ جب بھی گفتگو ہوتی ہے، وہ ہمیشہ مجھے بتاتا ہے کہ پچھلے ہفتے بہت شدید زلزلہ آیا تھا اور ہم سب نے کلمے پڑھ لئے تھے۔

کہنے لگا میرا گھر بھی زلزلہ کی وجہ سے لہرایا لیکن جاپانیوں نے اس طرح عمارتیں بنائی ہیں جو چھوٹے اور درمیانی درجہ کے زلزلے برداشت کر جاتی ہیں۔ ہر گھر میں زلزلہ کی ناگہانی آفت سے بچنے کے لئے مکمل آلات اور بستہ رکھا ہوتا ہے جس میں بیٹری، ٹارچ، دوائیاں، بسکٹ اور اسی طرح کی کئی چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔

خدا پر تو ہمارا ایمان ہے ہی لیکن اگر میں جاپان کی بجائے کسی اور ملک میں ہوتا تو نہیں بچتا۔ اس نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔

فون رکھنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ جاپان تو ایک غلام ملک ہے جہاں ساٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ جہاں امریکی فضائیہ بھی ہے اور جہاں کا سب سے مقبول کھیل امریکہ کا بیس بال ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک غلام ملک ہوتے ہوئے بھی وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت رکھتا ہے۔

نہ جانے ان غلاموں نے ہونڈا، ٹویوٹا، پیناسونک، سونی، مٹسوبیشی، ہٹاچی، اولمپس، توشیبا اور سینکڑوں دیگر جاپانی کمپنیاں کہ جن کے نام میں لکھنے پر آ جاؤ تو تحریر کا دامن چھوٹا پڑ جائے گا، کیسے ایجاد کر لیں۔ اور ہم جیسی آزاد قوم نے کیا ایجاد کیا؟ انڈے والا برگر؟

نہ جانے اس غلام جاپانی قوم نے کیسے زلزلہ پروف عمارتیں بنا لیں اور ہم اب تک ہر سال مون سون کی بارشوں میں اپنی غریب عوام کو اور ان کے مویشیوں کو محفوظ مقام تک منتقل تک نہ کر پائے۔

اس سال پاکستان میں ساڑھے تین سو بچوں سمیت تقریباً ایک ہزار افراد اس سال بارشوں کی نذر ہو گئے۔ ہر سال یہی ہوتا آیا ہے اور اگلے سال بھی یہی ہو گا۔ کسی غریب کسان کے مویشی جان سے گئے تو کسی غریب کا گھر، کسی کا جہیز تو کسی کی عمر بھر کی جمع پونجی لیکن ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ابھی بھی ہمارے لئے سب سے بڑی خبر اور مسئلہ یہ ہے کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے کہ۔ نہی

جاپان میں لوگ بہت کم خدا کو مانتے ہیں۔ آبادی کا تقریباً تیس فیصد ملحد ہیں لیکن اس معاشرے میں محبت ہی محبت ہے۔ ہمارے معاشرے میں محبت کیوں نہیں ہے؟ کہیں ہم بہت زیادہ مذہبی تو نہیں ہو گئے؟ اوشو نے ہمارے معاشرے کے لئے صحیح کہا تھا کہ محبت کو انسانوں سے بڑھ کر ان پرندوں، جانوروں اور پودوں میں دیکھا جا سکتا ہے جن کا نہ کوئی مذہب ہے نہ تہذیب۔

مشہور کرکٹر محمد یوسف نے کہا ہے کہ یہ سیلاب کی تباہی خدا تعالٰی کی نافرمانی کی وجہ سے آتی ہیں لہذا ہم سب کو اللہ تعالٰی سے معافی مانگنی چاہیے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ تباہیاں اور عذاب صرف غریبوں اور لاچاروں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے۔ وزرا، مشیر، سیاستدان اور امیر لوگوں پر یہ عذاب کیوں نہیں اترتا۔

نہیں جناب، یہ اوپر والے کا عذاب نہیں ہے، یہ ہماری صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ یہ سب ان چیف سیکریٹریز اور بیوروکریسی کا کھیل ہے جو سیاستدانوں کی غلام ہے۔ جن کے آگے یہ سول سروسز کے افسران نوکروں کی طرح گھوم رہے ہوتے ہیں۔

یہ بھی مت کہیں کی قدرتی آفات سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ حالیہ بارشیں معمول کی مون سون کی بارشیں تھیں۔ اگر کوئی حقیقتاً سونامی یا کٹرینہ کی طرح کا طوفان آ جاتا تو ہم شاید صفحہ ہستی سے ہی مٹ جاتے۔

ایک وہ جاپان جو امریکہ کی کالونی کہلاتا ہے، دنیا کا بہترین ملک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا پاسپورٹ اس کے آقا امریکہ سے بھی بہتر رینکنگ رکھتا ہے۔ اس کے باشندے دنیا کی بہترین قوم تصور کیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟

کیوں کہ اس ملک میں ان کو امریکہ کی غلامی کا منجن بیچنے والا عمران خان، روٹی کپڑا اور مکان کا جھوٹا نعرہ دینا والا جاگیردار بھٹو، اقامہ رکھنے والے نواز شریف یا کرپشن میں لتھڑے ہوئے فوجی جرنیل نہیں تھے۔

اس ملک میں ایسے حکمراں تھے جنہوں نے ایٹم بم کھانے کے بعد اپنی قوم سے کہا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں، یا تو ہم روتے رہیں یا ہم اوزار اٹھا لیں۔ انہیں نے اوزار اٹھا لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments