شاہ سوار شاہ


اس دن ایسی گرمی تھی کہ گلیوں میں کتے اور آسمان میں کوے تک نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن شاہ سوار شاہ کو اپنی حویلی کے آنگن میں کپڑے دھوتی ممتاز صاف نظر آ رہی تھی۔ وہ پچھلے دو منٹ سے کمرے کی جالی دار کھڑکی کے پار کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ تیسرے منٹ میں وہ باہر نکلا، چوتھا منٹ پورا ہونے سے پہلے ہی ممتاز اس کے کمرے کے اندر دیوار کی طرف چہرہ کیے جھکی کھڑی تھی اور سوار شاہ گاؤں کے مراثی صوبیدار خان کی گھر والی کے ساتھ وہی کر رہا تھا جو اس سے پہلے بھی کئی بار کر چکا تھا۔ دسویں منٹ میں سوار شاہ اپنی چارپائی کے بان پر ٹھنڈے پانی کا تریڑا مار کے لیٹ گیا پیڈسٹل فین سے آتی ہوا اس کے سینے کے بال اور دیوار پر لٹکتے میسی فرگوسن ٹریکٹر کے پرانے کیلنڈر کو ایک ساتھ اڑا رہی تھی۔ اور ممتاز آنگن میں نلکے کی ہتھی اتنے زور سے چلا رہی تھی جیسے پاتال کا سارا پانی کھینچ لینا چاہتی ہو۔

”ہولے چلا بے غیرت کیوں سب کی نیند خراب کرتی ہے“

کسی کمرے میں سوتی سوار شاہ کی بیوی کی زور دار آواز کان میں پڑتے ہی ممتاز کا ہاتھ نلکے کی ہتھی سے کھسک کر پانی کی بالٹی میں چلا گیا اور اس نے سوار شاہ کا کرتہ اپنی کلائیوں کی طاقت سے ایسے نچوڑا کہ اس کے ہاتھ کے پشت کی رگیں پھول گئیں اور کرتے کا ایک بٹن ٹوٹ کر نیچے گر گیا۔ ممتاز نے وہ بٹن اٹھا کر اپنے کان کے کواڑ میں پھنسایا اور سارے کپڑوں کو آنگن میں لٹکتی تار پر پھیلا دیا۔ نلکے کے آس پاس جمع پانی کو جھاڑو سے اکٹھا کر کے نالی کا راستہ دکھانے تک سورج کی آگ لٹکتے کپڑوں کا سارا پانی پی کر انہیں خشک نہیں بلکہ گرم کر چکی تھی۔ چند لمحے بعد وہ حویلی کے برآمدے میں بیٹھی کرتے کا بٹن ٹانکتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی کہ اگلی بار وہ شاہ سوار شاہ کو کہے گی کہ اسے جو کرنا ہے کرے کوئی منع نہیں بس اتنی مہربانی ہو کہ چارپائی یا فرش کا استعمال کر لیا کرے۔ کم از کم بندہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں تو دیکھ سکے۔ یہ خیال اس کے دماغ میں ہر بار آتا تھا لیکن زبان تک آتے آتے دم توڑ دیتا۔ اس کے پاس گاؤں کے سب سے طاقتور آدمی کے سامنے بولنے کی ہمت تھی نہ اجازت۔ عورت ذات اور میراثی ذات ہونے کی وجہ سے وہ اس سے ڈرتی بھی تھی کیوں کہ وہ زبان کم اور ہاتھ بہت زیادہ چلاتا تھا۔ اس کے لڑکپن میں اس کا باپ جب اسے اپنے کمی کمینوں پر ظلم کرتے دیکھتا تو ہمیشہ مسکرا کر بس یہی کہتا

” اللہ کا بخش ہو بہشتن کو۔ بڑا جلالی شاہ پیدا کر کے مری ہے“

بڑے شاہ کی شہ نے شاہ سوار شاہ کو ایسا بدمست سانڈ بنا دیا تھا جو عورت کو صرف اس کی گردن سے نیچے ہی دیکھا کرتا۔ شاہ سوار شاہ کو کھیتوں اور اپنے کمرے میں روندی گئی ایک بھی عورت کی شکل یاد نہیں تھی۔ بٹن ٹانکتی ممتاز دل کی بات کو دل میں اور سارے کپڑوں کو صندوق میں رکھ کر اپنے گھر کی طرف نکل گئی۔

تین چار دن بعد صوبیدار خان تونسے شریف کا میلہ بجا کے گھر لوٹا۔ آتے ہی اس نے کندھے پر لٹکتی شہنائی کا ریشمی غلاف کھولا۔ اور اس سے گلابی نمک کا بڑا سا ڈلا ممتاز کے سامنے رکھتے ہوئے بولا

” دو دن پہلے پیر پٹھان کے دربار پر ایک ملنگ نے میری شکل دیکھتے ہی بتا دیا کہ بے اولاد ہوں۔ اس نے اسی وقت تمہارے لئے ایک خاص دعا کی اور پھر اس ڈلے پر دم کر کے کہا کہ اپنی گھر والی کو کہو دس دن تک سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد اس کو چاٹے تو اللہ کے حکم سے اسی نمک کی طرح گلابی بیٹا ہو گا ہمارا“

ممتاز نے نمک کا ڈلا اس کے ہاتھ سے لے کر گھر کی چار دیواری کے باہر اچھال دیا۔ اس سے پہلے کہ صوبیدار خان دمدار نمک کی توہین پر اس کی سرزنش کرتا ممتاز ہونٹوں پر ایک شریر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولی

” اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے پتھر چاٹنے سے پہلے ہی ہماری دعا سن لی ہے“

اپنا پیر بھاری ہونے کی خبر دیتے وقت ممتاز غیر ارادی طور پرایک ہاتھ اپنے پیٹ پر پھیر رہی تھی۔ خوشی اور شکر گزاری کے جذبات میں ڈوبے صوبیدار خان نے اسی وقت اپنے کانپتے ہاتھوں سے شہنائی نکالی۔ بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے کی دھن اس کے کچے گھر کی دیواروں سے نکل کر سارے گاؤں میں پھیل گئی۔

رات کو اچانک ممتاز کی آنکھ کھلی اور وہ لیٹے لیٹے تونسہ شریف کی دربار پر صوبیدار خان کو ملنے والے ملنگ کی دعا اور شاہ سوار شاہ کی سواری کے وقت کا حساب لگانے لگی۔ اتفاق سے دونوں وقت ایک ہی نکلے۔ ممتاز کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے اپنے ساتھ سوتے اس صوبیدار خان کے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں جس نے بچے کی خواہش میں علاقے کا کوئی مزار کوئی دربار نہیں چھوڑا تھا۔ کسی اور کے بچے کا باپ بننے والا اپنے چہرے پر زمانے بھر کی معصومیت لئے سکون کی نیند سو رہا تھا

اللہ اللہ کر کے وقت پورا ہوا اور تونسوی ملنگ کی دعا کے عین مطابق ممتاز نے ایک گلابی بیٹے کو جنم دے کر اس کا نام شاہ سوار رکھ ڈالا۔ صوبیدار خان نام سن کر گھبرا گیا۔

”پاگل ہو گئی ہو کیا؟ خدا کے لئے اس کا نام تبدیل کر۔ کوئی بشیر، نذیر یا پھر غلام فرید رکھ لے لیکن اتنا بھاری نام مت رکھ

ہم شاہ سوار شاہ کا دیا کھاتے ہیں اگر اس کو پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہو گا۔ مراثیوں کے لئے اتنے وزنی نام اچھے نہیں ہوتے ”

صوبیدار خان کے لہجے سے خوف ٹپک رہا تھا

” تو پھر تیرے باپ نے تیرا اتنا وزنی نام کیوں رکھا ہے؟ اصلی فوجی صوبیدار کے بوٹ کا وزن بھی تجھ سے زیادہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی چاچے نے تیری عزت کے لئے تجھے بھاری نام دیا۔ خبردار جو تو نے میرے بیٹے کا نام بدلنے کا سوچا۔“

ممتاز کی دھمکی اور دلیل صوبیدار کو لاجواب کر گئی۔ اس نے ننھے شاہ سوار کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس کے کان میں شہنائی کے ہلکے ہلکے سر پھونک دیے۔

وقت اور ممتاز کے شاہ سوار کا قد تیزی سے بڑھنے لگا۔ وہ ابھی پانچ سال کا تھا لیکن اپنی عمر سے دگنا نظر آتا تھا۔ صوبیدار خان نے اپنے ہاتھوں سے اس کے لئے ایک چھوٹی سی شہنائی بنائی تھی جسے شاہ سوار بہت جلد سیکھ گیا۔ اب وہ کبھی کبھی باپ کی شہنائی پر بھی سر صاف کرنے لگا تھا۔ بچے کی تیز بڑھوتری نے ممتاز کو تھوڑا وہمی بنا دیا تھا۔ اس لئے وہ اسے گھر سے بہت کم کم نکالتی کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ لیکن جسے نظر لگنی ہوتی ہے وہ خود ہی نظروں میں آ جاتا ہے۔ جون کی ایک نہ ختم ہونے والی سناٹے بھری دوپہر میں کہیں دور سے آتی آوازیں شاہ سوار کی آنکھ کھول گئیں اور کسی کٹی پتنگ کے پیچھے بھاگتے بچوں کا شور اسے اپنے گھر سے نکال کے باہر لے گیا۔ چند لمحوں بعد وہ بھی انہی بچوں کے ساتھ ڈور لوٹنے کی دوڑ میں نہ صرف شامل ہو چکا تھا بلکہ سب سے آگے بھی نکل گیا۔ اس نے پتنگ کو زمین پر آنے سے پہلے ہی اچک کر سب بچوں پر ایک فاتحانہ نظر ڈالی۔ لوٹ کا مال اپنے گھر کی طرف لے جانے کے لئے اس نے واپسی کا ایک قدم اٹھایا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے حیران ہو کر اس سے پوچھا

” کہاں جا رہا ہے اوئے؟ یہ زوار شاہ کی پتنگ ہے۔ “
”اب میری ہے میں نے لوٹی ہے“ شاہ سوار نے اسے آنکھیں دکھائیں

”اوئے بھاگ کے زوار شاہ کو بلا۔ اسے بتا کہ صوبیدار کا بیٹا بدمعاشی کر رہا ہے“ ۔ پہلے لڑکے نے دوسرے کو حکم دیا اور دوسرا یہ خبر زوار شاہ تک پہنچانے بھاگ کھڑا ہوا۔ باقی سب نے شاہ سوار کو چاروں طرف سے گھیر لیا تاکہ لٹیرا بھاگنے نہ پائے۔

جانے والے قاصد نے چند لمحوں کے واپس آ کر ہانپتے ہانپتے زوار شاہ کا پیغام اپنے ساتھیوں تک پہنچایا ”زوار شاہ نے گالیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے پکڑ کے لے آؤ“

مالک کا حکم پاکر سب شاہ سوار پر ایک ساتھ ایسے حملہ آور ہوئے کہ اس کے ہاتھ میں موجود پتنگ کی دھجیاں اڑ گئیں۔ انہوں نے اسے قابو کیا اور لے کر ٹیوب ویل کی طرف چل پڑے۔ ایک بچے کے ہاتھوں میں پتنگ کی بجائے اس کی باقیات دیکھ کر دس سالہ زوار شاہ نے شاہ سوار کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس کے باپ دادا ان کم ذاتوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اس مارپیٹ میں شاہ سوار نے بھی زوار شاہ کا منہ نوچ لیا۔ اصل قیامت تو اس وقت آئی لیکن جب زوار شاہ کو معلوم ہوا کہ وہ جس میراثی بچے کو مار رہا ہے وہ اس کے باپ کا ہم نام ہے۔ اس انکشاف پر ایک بار پھر شاہ سوار کو قابو کر کے اٹھایا گیا اور بچوں کا یہ گروہ زوار شاہ کی قیادت میں ڈیرے کی طرف چل دیا۔

صوبیدار اور ممتاز بھاگے بھاگے ڈیرے پہنچے تو دونوں اپنے شاہ سوار کو جامن کے پیڑ سے بندھا دیکھ کر دہل گئے۔ شاہ سوار شاہ نے کوئی سوال جواب کیے بغیر اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا جو صوبیدار کو دھکے دیتا دیتا جامن کے دوسرے پیڑ تک لایا۔ صوبیدار پیڑ کے تنے سے بغل گیر ہوا آدمی نے مخالف سمت سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کے اسے جکڑا۔ شاہ سوار شاہ ڈنڈا لئے اپنی جگہ سے اٹھا اور صوبیدار کے پچھواڑے پر پل پڑا۔ صوبیدار کی چیخوں نے سارا گاؤں سر پر اٹھا لیا۔ صوبیدار کو اس طرح درخت کی طرف چہرہ کیے مار کھاتے دیکھ ممتاز کو شاہ سوار شاہ کے کمرے کی وہ دیوار یاد آ گئی جس کی طرف اس نے بھی کئی بار چہرہ کیا تھا۔ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ شاہ سوار شاہ کتنا بزدل آدمی پہ ظلم کرتے وقت مظلوم کی آنکھوں میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔ صوبیدار مار کھا کھا کے تھک گیا لیکن جلالی شاہ مارتے مارتے نہیں تھکا۔ جب صوبیدار بے ہوش ہو گیا تو اس کا ہاتھ بھی رک گیا۔ شاہ سوار شاہ مست سانڈ کی طرح چلتا اپنی چارپائی کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے ایک کامے نے اسے آتا دیکھ جلدی جلدی چارپائی کے بان پر ٹھنڈے پانی کا تریڑا مارا۔ شاہ سوار ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر لیٹ گیا۔

” چھوٹے بدذات کا کیا کرنا ہے زوار شاہ؟“ اس نے بھاری آواز میں بیٹے سے پوچھا

”سب سے پہلے تو اس کا نام تبدیل کرنا ہے ابا۔ آپ کا نام رکھ کے بہت گرمی دکھا رہا تھا مجھے۔ سارا گال چیر دیا حرامی نے۔ نہ صرف نام بدلنا ہے بلکہ اسے میری نوکری میں بھی دینا ہے۔ میں اس کی ساری گرمی نکالوں گا“ زوار شاہ نے ایک ہی سانس میں کہا

”میں نے اسے تیری نوکری میں دیا اب تم اسے نیا نام دو“ شاہ سوار شاہ نے فوراً فیصلہ سنایا
”آج سے اس کا نام شوکا ہو گا ابا“ زوار شاہ نے اعلان کیا

اس دن کے بعد ممتاز کا شاہ سوار شوکا بن کے زوار شاہ کی نوکری میں آ گیا۔ وہ سارا دن زوار شاہ کے ساتھ رہتا یا پھر ڈیرے کے کام کرتا رہتا۔ اس نے شہنائی بجانا چھوڑ دیا۔ اگلے دس سال میں صوبیدار نے دس ہزار بار اسے باپ دادا کے فن کی طرف لوٹنے کی ترغیب دی لیکن شوکے کے اندر تو جیسے سر مر ہی گئے تھے۔ وہ اس دن کے بعد ایسا چپ ہوا کہ مانو پیدائشی گونگا ہو۔

اس دن اتنی گرمی تھی کہ گلیوں میں کتے اور آسمان میں کوے تک نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن اپنی گھوڑی پر سوار زوار شاہ ان جنگلی سوروں کے شکار پر نکلا ہوا تھا جو پچھلے کئی دن سے اس کی فصلوں کا ستیا ناس کر رہے تھے۔ شوکا ہاتھ میں ایک لمبی چھری لئے گھوڑی کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ اس کے ذمے شکار ہونے والے ہر سور کی دم کاٹنا تھا تاکہ زوار شاہ گاؤں واپس جا کے اپنے باپ کو ثبوت دے سکے کہ آج اس نے کتنے سور مارے۔ شوکے کے بائیں کندھے پر لٹکتے جھولے میں اب تک مارے گئے تین سور کے بچوں کی دمیں تھیں اور دائیں کندھے پر لٹکتے دوسرے جھولے میں پانی کی بوتل اور کھانے پینے کا سامان تھا۔ اچانک شوکے کو محسوس ہوا کہ کوئی دبے پاؤں اس کے تعاقب میں آ رہا ہے۔ وہ پیچھے دیکھے بغیر ایک درخت کی اوٹ میں میں چھپ گیا۔ اس کا خدشہ درست ثابت ہوا اس نے اوٹ سے گردن نکال کر دیکھا کہ ایک مادہ سورنی اس راستے پر آ رہی ہے جس پر کچھ دیر پہلے وہ موجود تھا۔ سورنی کی لال سرخ آنکھیں آگے جاتے زوار شاہ پر تھیں۔ اللہ جانے شوکے کے ذہن میں کیا بات آئی کہ اس نے اپنے پاس سے گزرتی سورنی کی دم پر بجلی کی تیزی کے ساتھ چھری کا وار کر دیا۔ سورنی چلائی اور اپنی پوری رفتار سے زوار شاہ کی طرف بھاگی اس سے پہلے کہ آگے جاتا زوار شاہ سنبھلتا سورنی کے درانتی جیسے دانت گھوڑی کی ران کے آر پار ہو گئے۔ زوار شاہ اچھل کر زمین پر آیا اور اپنی بارہ بور سیدھی کر کے ایک فائر کھول دیا جو خطا گیا۔ جتنی دیر میں وہ دوسرا کارتوس ڈالتا قریب کی جھاڑی سے نر سور نکلا اور اپنے دانت زوار شاہ کے پیٹ میں گھسا کے اسے اچھال دیا۔ سور اور سورنی جتنی تیزی سے آئے تھے اتنی ہی تیزی کے ساتھ اپنے بچوں کا انتقام لے کر وہاں سے بھاگ بھی گئے۔

”شوکا حرامی۔“ اپنے ہی خون میں لت پت زوار شاہ نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت اکٹھی کر کے شوکے کو آواز دی۔ شوکا درخت کی اوٹ سے باہر نکلا اور آ کے زوار شاہ کے سامنے بیٹھ گیا۔

”پانی“ زوار شاہ نے اپنے کٹے پیٹ سے نکلتے خون پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ لیکن شوکے نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا وہ بددستور اس کے پیٹ سے ابلتے خون کو دیکھ رہا تھا

”پانی پلا شوکے“ ۔ زوار شاہ نے حکم دیا
”پہلے میرا نام بتا۔ تو مجھے میرا نام دے میں تجھے پانی دوں گا“ شوکے نے فرمائش کی
شوکا۔ زوار شاہ پھنکارا
نہیں۔ شوکا مسکرایا
شوکا۔ زوار شاہ کی آواز میں پھنکار مدھم پڑنے لگی
نہیں۔ شوکا نے مسکرا کر پانی کی بوتل جھولے سے نکالی اور اسے دکھائی
شاہ سوار۔ زوار شاہ نے بوتل پر نظر جماتے ہوئے ڈوبتی آواز میں جواب دیا

ڈوبتی نبض والے زوار شاہ کی زبان سے اپنا نام سن کر شاہ سوار کی آنکھوں میں چمک آئی اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور سارا پانی ایک ہی سانس میں ایسے پی گیا جیسے صدیوں کا پیاسا ہو۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments