ریفارمیشن – تحریک اصلاح کلیسا


قدیم رومن سلطنت کے شہنشاہ قسطنطین  کا 313 ع میں عیسائیت مذہب اختیار کرنے اور پھر 391 ع میں اس کے ایک جانشین تھیوڈوسس کا عیسائیت کو رومن سلطنت کا مذہب قرار دینے سے اس کا پھیلاؤ تیزی سے ہونے لگا یوں رومن چرچ کی اہمیت اور اثر بھی بڑھ گیا اس کے قواعد اور تنظیم میں تبدیلیاں کی گئیں۔

سقوط روم ( مغربی رومن سلطنت کے خاتمے ) کے بعد بتدریج اس کا دائرہ عمل اور طاقت بوجوہ بڑھتی گئی
600 ع کے لگ بھگ روم کے آرچ بشپ کو ”پوپ“ کا خطاب دیا گیا۔

9 ویں صدی سے پوپ کے زیر قیادت چرچ مغربی دنیا میں سب سے طاقتور اور بالا دست ادارہ بن گیا تھا۔ جو وہاں مذہبی زندگی کے ساتھ معاشرے، تہذیب اور سیاست سب پر پوری طرح اثرانداز تھا

مشرقی رومن (بازنطینی) سلطنت کے حکمرانوں نے تو 11 ویں صدی سے پوپ کی حاکمیت سے انکار اور بعض مذہبی نکات پر اختلافات کی بنیاد پر اپنا راستہ الگ کر کے یونانی ارتھوڈاکس چرچ ”کے نام سے الگ چرچ بنا لیا تھا۔ یوں بازنطین کی مشرقی عیسائی سلطنت پوپ اور لاطینی چرچ کے اثر سے آزاد تھی تاہم مغربی یورپ میں اپنے مرکز روم سے پوپ کی سربراہی میں کیھتولک چرچ کئی صدیوں تک پوری طرح حاوی تھا۔ اسی دوران کئی حوالوں سے کافی مفید رول بھی ادا کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ پوپ کے آمرانہ طرزعمل، چرچ عہدیداروں کی بدعنوانیوں اور دنیا داری، اقرباء پروری اور خود غرضانہ رویوں کے خلاف بے چینی بھی بڑھنے لگی تھی۔

اہل کلیسا کے طرز فکر اور طرز عمل کی درستگی کے لیے 14 ویں صدی میں انگلینڈ کے جان ویکلف اور بوہیمیا کے جان ہس نے اصلاحی تحریکیں چلائیں۔ مگر ان کو سختی سے کچل دیا گیا۔ اس کے علاوہ عیسائی انسان دوست لکھاری  ڈیسی ڈیریس اراسمس بھی چرچ کے طرز عمل کے نقاد رہے۔

مگر 16 ویں صدی کے ابتدا میں رومن چرچ کے لیے بڑا اور نتیجہ خیز چیلنج جرمن راہب اور مذہبی مصلح ”مارٹن لوتھر“ کی صورت میں سامنے آیا۔

”مارٹن لوتھر“ نے 31 اکتوبر 1517 کو وٹن برگ (جرمنی) کے چرچ پر 95 نکات پر مشتمل ایک احتجاجی اعلامیہ چسپاں کر دیا۔ اس کا فوری سبب تو پوپ کے ایک نمائندے پادری جان ٹیٹزل کا جرمنی میں معافی ناموں (indulfences ) کی فروخت بنا تھا، مگر لوتھر کے احتجاج کے دوسرے اور گہرے اسباب تھے بائبل کے مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ چرچ کے بہت سارے عقائد اور رسومات غلط ہیں۔

مارٹن لوتھر کے اس انقلابی اقدام سے چرچ کی اصلاح کی جس تحریک کا آغاز ہوا اس کو ”ریفارمیشن“ ( تحریک اصلاح کلیسا ) کہا جاتا ہے۔ اسی تحریک کے نتیجے میں چرچ کی تقسیم ہو گئی

اوائل میں لوتھر کا زور چرچ میں اصلاحات پر تھا لیکن اہل کلیسا، کی طرف سے اس کے احتجاج کو مسترد کرنے کے بعد اس نے ”پوپ“ کے اختیارات، چرچ کے عہدیداروں کی بدعنوانی اور بدکرداری کے علاوہ چرچ کے بہت سارے عقائد اور رسومات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا

لوتھر کی تعلیمات کے چند اہم نکات
ا) ایک یہ تھا کہ فرد اور خدا کے درمیان تعلق کسی مذہبی عہدیدار کے بغیر ہو سکتا ہے
ب ) دوسرا یہ کہ نجات صرف خدا پر ایمان سے مل سکتی ہے۔
پ ) چرچ کے تمام تعلیمات واضح طور بائبل کے مطابق ہونی چاہیے۔
ج) ہر کوئی اپنی طرف سے بائبل کو پڑھ سکتا ہے اس کی تشریح کے لیے کسی پادری کی ضرورت نہیں۔
د) بائبل کا عام زبانوں میں تراجم ہونی چاہیے تاکہ عام کو اس کی تعلیمات تک براہ راست رسائی ہو۔
ر ) خانقاہیت اور تجرد کی زندگی غلط ہیں

اوائل میں ”پوپ“ نے لوتھر کے احتجاج کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی تاہم جب اس کی سرگرمیاں بڑھتی گئیں اور ان کے خیالات پریس کے ذریعے تیزی سے پھیلنے لگے تو : پوپ ”نے اس کے خلاف ارتداد کا فتوی جاری کر دیا مگر مارٹن لوتھر کو جرمنی کے ایک شہری ریاست سیکسینی کے ریکٹر“ فریڈریک وائز ”نے حفاظت میں لے کر پناہ دی۔ پوپ اور کیتھولک چرچ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے اختلافات اس حد تک پہنچ گئے کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے لیے الگ چرچ قائم کیا۔ جس میں پوپ کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔ تعلیمات کی اساس کو بائیبل کو قرار دے کر غیر ضروری رسومات اور عقائد سے انکار کیا گیا۔

رومن کیتھولک چرچ کے مقابلے میں لوتھر کے چرچ اور اس کے پیروکاروں کا عمومی نام ”پروٹسٹنٹ پڑ گیا۔ جبکہ پوپ کی سربراہی میں قائم چرچ رومن کیتھولک رہا۔

مارٹن لوتھر کی اس اصلاحی تحریک کی پذیرائی کے کئی سیاسی۔ معاشی۔ سماجی اور فکری اسباب تھے
16 ویں صدی میں یورپ کے مختلف ممالک میں

1۔ قومی پرستی ابھر آئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہاں بادشاہتیں مستحکم ہو گئیں تھیں اور چرچ کی بالادستی کو چیلنج کر سکتی تھیں۔

2۔ جرمن ریاستوں کے حکمرانوں کو اس میں چرچ کے تسلط سے آزادی کے ساتھ اس کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا موقع نظر آیا۔

3۔ بہت سارے جرمن پوپ کی بے لچک اتھارٹی اور اس کے عائد کردہ مذہبی ٹیکسوں سے تنگ تھے
4۔ تاجر طبقہ رومن چرچ کے بعض احکامات اور پابندیوں کو اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا تھا

5چرچ اور اس کے عہدیداروں کے دنیا درانہ اور آمرانہ رویے کے باعث یورپی معاشرے میں اس کے خلاف عمومی مخالفانہ جذبات پنپ رہے تھے

6 اس کے ساتھ نشاۃ ثانیہ دور کے بالواسطہ اثرات کا بھی اس میں کافی کردار تھا۔ اس دور میں ”پیٹراک“ اور گیوانی ”جیسے انسان دوست لکھاریوں کا اہل کلیسا پر طنز و تنقید سے نئی فکر کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔ اس کا سیکولر اپروچ اور فرد کی اہمیت پر زور چرچ اتھارٹی کو چیلنج کرنے میں معاون رہا

7۔ چھاپہ خانے کی سہولت نے نئے خیالات پھیلانے میں اہم رول ادا کیا۔

8۔ عام افراد کے لیے چرچ میں تبدیلی کی اپنے معاشی اور سماجی وجوہات تھیں۔ بعض جرمن کسانوں نے لوتھر کا مذہبی اتھارٹی پر حملہ اپنے لینڈ لارڈز کے خلاف بغاوت کا ذریعہ سمجھا۔ ( ان کی بغاوت کو تاہم سختی سے کچل دیا گیا )

لوتھر کی ریفارمیشن تحریک کے زیر اثر یورپ کے مختلف ممالک میں چند ایک دوسرے ضمنی پروٹسٹنٹ گروپ بھی ابھر آئے۔

جن کے باعث بیشتر شمالی یورپ ( انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، نیدر لینڈ، سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور بہت ساری جرمنوں ریاستوں ) میں پروٹسٹنٹ مسلک پھیل گیا

ان گروہوں کے مابین اگرچہ کچھ فروعی اختلافات تھے مگر پوپ کے عہدے اور کیتھولک چرچ کے بعض عقائد اور رسومات سے انکار اور نجات کا انحصار خدا پر عقیدے اور صرف بائبل ہی کو خدا کی تعلیمات کا واحد ذریعہ سمجھنے کے نکات پر ان کا باہمی اتفاق تھا

ان دوسرے پروٹسٹنٹ چرچوں میں ایک انگلینڈ میں ہنری ہشتم کی قائم کردہ انگلیکن چرچ تھا اگرچہ ہنری ہشتم کو پروٹسٹنٹ کے بعض عقائد سے کسی حد تک فکری اتفاق بھی تھا تاہم الگ چرچ کے قیام کی اہم وجہ اس کو ”پوپ“ کی طرف سے دوسری شادی کی اجازت نہ دینا تھی۔

ایک پروٹسٹنٹ گروپ کا بانی سونگلی (Zwingli) تھا۔ جو لوتھر کے خیالات سے متاثر تھا۔ وہ ابتدائی عیسائیت کی طرف جانے کا داعی تھا۔ اس کے مطابق نجات صرف بائبل کے ذریعے ممکن ہے اور دوسری مذہبی رسومات کی قطعی ضرورت نہیں۔ وہ ذاتی جائیداد کے خلاف تھا۔ غریبوں کی مدد کا داعی تھا۔ اس نے 1525 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر ”زیورچ“ میں اپنا مرکز بنا لیا۔ اور وہاں مذہبی حکومت قائم کر لی۔ 1531 میں سوئس پروٹسٹنٹ اور کیتھولک میں جنگ کے دوران مارا گیا۔

کیلون چرچ۔ اس کا بانی فرانسیسی مذہبی عالم جان کیلون تھا۔ سونگلی کی موت کے بعد اس نے جینوا ( سوئٹزر لینڈ) سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ کیلون نے لوتھر کے بعض خیالات کو منظم کیا۔ اس کے علاوہ خدا، چرچ اور انسانی فطرت کے متعلق منفرد تصورات پیش کیے ۔ لوتھر کے برعکس اس کی تعلیمات میں تاجر طبقے کے لیے کئی سہولتیں تھیں کیونکہ اس نے منافع، دولت جمع کرنے اور تجارت کے لیے قرض لینا جائز قرار دیا تھا۔ یوں یہ طبقہ اس کا حامی تھا۔ اس کا عقیدہ ”قضا و قدر“ متوسط طبقے میں بہت مقبول ہوا

1541 میں اس نے جینوا ( سوئٹزر لینڈ ) میں معاشرتی اصلاح کے لیے اپنے نظریات پر مبنی مذہبی حکومت تشکیل دی

اس کے پیروکار جرمنی، فرانس، نیدر لینڈ، ہنگری، انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے بعض حصوں میں بھی تھے۔

کیلون کے تتبع میں اسکاٹ لینڈ کے ایک مذہبی مبلغ جان ناکس نے 1559 میں اسکاٹ لینڈ میں اس کا تجربہ کیا۔ یہاں اس پروٹسٹنٹ مسلک کے پیروکار  پریسبائٹیرین کہلائے جانے لگے۔

اسی طرح کئی دوسری جگہوں میں بھی چند ایک اور قومی یا علیحدہ پروٹسٹنٹ گروپ قائم ہوئے۔

کیھتولک چرچ کا ردعمل۔ کیتھولک چرچ اگرچہ اپنی کوششوں کے باوجود مذہبی اتحاد کو بحال نہ کر سکا تاہم اپنے پیروکاروں کو کیتھولک رکھنے کے لیے چرچ کی اصلاح کے لیے اقدامات کیے ۔ اس تحریک کو کیتھولک ریفارمیشن یا کاؤنٹر ریفارمیشن کہا جاتا ہے۔ جس کے باعث اس نے جنوبی یورپ۔ آسٹریا۔ پولینڈ، بیشتر ہنگری اور جنوبی جرمنی کے ریاستوں میں پروٹسٹنٹ اثرات سے کیھتولک مسئلک کا کامیاب دفاع کیا

کیتھولک چرچ نے ایک طرف مخالف تحریکوں کے نظریات کو رد کیا اور ان کو روکنے کے لیے تشدد، سختی اور سنسر شپ کی پالیسی اختیار کی۔ اور دوسری طرف چرچ میں کچھ اہم اصلاحات بھی کیے ۔ سوسائٹی آف جیزوٹس نامی تنظیم میں تربیت یافتہ مذہبی اساتذہ کے زیر نگرانی پورے یورپ میں سکول کھولے اور تبلیغ کے لیے مبلغ ( مشینری ) تیار کیے ۔ جس کے باعث نہ صرف یورپ کے بعض ممالک میں کیتھولک عقیدے کو برقرار رکھا بلکہ یورپ سے باہر کی دنیا میں بھی اس کی تبلیغ شروع کی

ریفارمیشن تحریک کے اثرات۔ @۔
ریفارمیشن تحریک کے یورپ پر مختلف جہت ( مذہبی، سیاسی، سماجی اور فکری ) منفی اور مثبت، اثرات پڑے

1۔ مغربی یورپ کا مذہبی اتحاد ٹوٹ گیا۔ چرچ دو بڑی شاخوں ( کیتھولک اور پروٹسٹنٹ) میں تقسیم ہو گیا اسی حساب سے یورپی ممالک کی شناخت ہوئی۔

یہاں کے تعلیمی ادارے بھی ان فرقوں کے مذہبی عقائد کے تحت آ گئے

2۔ ایک اہم نتیجہ یورپی سیاست میں ایک صدی تک مذہبی جھگڑوں کا رہا۔ فرانس میں ”کالونیسٹ“ اور ”کیھتولک“ بڑے عرصے تک باہم برسرپیکار رہے۔ جرمنی میں 1618 تا 1648 تک تیس سالہ جنگ اور 1640 تا 1660 تک انگلستان کی خانہ جنگی میں بے تحاشا قتل و غارت ہوئی۔ اور یورپ کے سیاسی توازن کو شدید متاثر کیا

3۔ یورپ کے بہت سارے بادشاہ/ حکمران پوپ کے تسلط سے آزاد ہو گئے۔ یا چرچ کے مقابلے میں طاقتور ہو گئے جس کی وجہ سے قومی ریاستوں کی ابتدا اور استحکام ہونے لگا۔

4۔ پروٹسٹنٹ ملکوں میں چرچ کی جائیداد کو معاشی ترقی کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ نیز وہاں کا تاجر طبقہ سخت پابندیوں سے چھٹکارا پا کر ترقی کرنے لگا

5۔ کیتھولک چرچ نے بھی ردعمل کے طور اپنے ہاں کئی اصلاحات اور اقدامات کیے ۔ جس کے الگ اثرات پڑے

6۔ مذہبی لٹریچر کا مختلف یورپی زبانوں میں ترجمے اور بالخصوص چھاپہ خانے کی ایجاد سے اس کے پھیلاؤ سے لوگوں کا مذہبی مطالعہ کے ساتھ نئے علوم اور افکار میں دلچسپی بڑھنے لگی۔

7۔ ریفارمیشن تحریک کا عقائد اور اتھارٹی پر تنقید اور چیلنج کرنے کی روایت سے ذہنی اور فکری آزادی بڑھ گئی۔ جس سے سائنسی انقلاب کی راہ ہموار ہو گئی

8۔ جدید سائنسی نظریات یورپ میں ”روشن خیالی“ کی فکری تحریک کی بنیاد بنے۔ 18 ویں صدی میں یہ فکری تحریک یورپ میں چھا گئی۔ (اس تحریک کو دور عقلیت بھی کہا جاتا ہے ) ۔ اس تحریک کے مفکرین کے تصورات اور نظریات نہ صرف یورپ میں کافی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا باعث ہوئے بلکہ ”انقلاب فرانس“ اور شمالی امریکہ اور لاطینی امریکہ کے سیاسی اور جمہوری انقلابات میں بھی اہم محرک رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments