اور ہم نے بچوں کے ساتھ زندگی کو جیا!


ہم لوگ ابھی امیگریشن سے فارغ ہو کر بورڈنگ پاس پر دیے گئے گیٹ کے سا منے آ کر بیٹھے تھے، گو کہ سارا طریقہ کار کافی تھکا دینے والا ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہم کافی جلدی ائرپورٹ پہنچ گئے تھے تو رش ہونے سے پہلے پہلے فارغ ہو کر اب سکون سے لاؤنج میں آ کر بیٹھ گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہی بچوں کی ویڈیو کال آ گئی، ان کے چہرے بھی خوشی سے تمتما رہے تھے، اور ہم بھی تروتازہ تھے، کیونکہ آج ہم اپنے بچوں کے پاس جا رہے تھے، ہماری منزل انگلینڈ کا شہر برسٹل تھا، جہاں پر ہماری پیاری بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر نامدار کے ساتھ مقیم تھی۔ بیٹا پولینڈ میں نوکری کرتا ہے، لیکن ہمارے جانے سے دو دن پہلے وہ برسٹل پہنچ چکا تھا۔ بچے ہم سے سکیورٹی اور امیگریشن کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور ہم بھی خوشی خوشی ساری روئیداد سنا رہے تھے، بس دل چاہ رہا تھا، کہ ہزاروں میل دوری کا یہ سفر چٹکی بجاتے کٹ جائے اور ہم اپنے بچوں کے پاس پہنچ جائیں۔

بے شک اولاد والدین کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔ ہم بیٹی کی شادی کے بعد پہلی دفعہ اس کے پاس جا رہے تھے، دو سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی، اور پھر ساتھ ہی کرونا کی تباہ کاریاں شروع ہو گئیں، اور سب کچھ بند ہو گیا، پھر حالات بہتر ہوئے تو ہم بھی اسی انتظار میں تھے، سو جونہی حالات بہتر ہوئے ہم نے بچوں سے ملنے کی ٹھان لی، دو سال کا عرصہ، بے تحاشا اداسی کا سبب بن گیا تھا۔ اس لئے بچے بھی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔

ہم بچوں سے باتوں میں مصروف تھے کہ بورڈنگ شروع ہو گئی، جلدی سے بچوں کو خدا حافظ کہا اور لائن میں کھڑے ہو گئے، جہاز تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ تھا، اور ہماری جان پر بنی ہوئی تھی، کیونکہ ہمارا دوحا میں ڈیڑھ گھنٹے کا قیام تھا، اور پھر ہم نے لندن جانے والی فلائٹ لینی تھی، خیر خدا خدا کر کے طیارے نے اڑان بھری، اور ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا، سفر بہت اچھا گزرا اور جونہی پائلٹ نے اعلان کیا کہ ہم دوحا کے ائرپورٹ پر اترنے والے ہیں، ہم  نے فوراً وقت دیکھا، کہ اگلی فلائٹ تک جانے میں کتنا وقت درکار ہے، شکر کا سانس لیا کہ ابھی کوئی پونا گھنٹہ ہے، بس جہاز سے نکلنے کی دیر تھی، ہم بھاگے، سکیورٹی وغیرہ سے گزرنے کے بعد بھاگم بھاگ انفارمیشن بورڈ کی طرف دوڑے، جب غور کیا۔ تو ایسے لگا جیسے سارے لوگ ادھر ہی جا رہے ہیں، بورڈ کے آگے ایک جمگھٹا سا لگا ہوا تھا اور ہر ایک اپنی فلائٹ کا وقت اور گیٹ نمبر ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ یہاں پہ احمد کے لمبے قد نے کمال دکھایا اور انہوں نے کافی پیچھے کھڑے ہو کر دیکھ لیا، اور بڑی خوشی سے مجھے بتایا، کہ یہ فلائٹ بھی لیٹ ہے اور ابھی گیٹ بھی اناؤنس نہیں ہوا، ہم نے شکر کیا کہ آرام سے جا کر کہیں بیٹھتے ہیں۔

وہیں سے نکل کر جس طرف سارے گیٹ تھے ادھر چل پڑے، رستے میں ایک انڈین لیڈی لوگوں کو گائیڈ کر رہی تھی ہم نے بھی اس کو اپنا ٹکٹ دکھایا تو اس نے کہا کہ ابھی کنفرم نہیں ہے لیکن آپ فلاں گیٹ پر چلے جائیں، ہم نے پھر چلنا شروع کر دیا، اللہ معاف کرے، ائرپورٹ بھی تو میلوں پھیلا ہوا تھا، کوئی آدھ گھنٹہ دوڑنے کے بعد گیٹ نظر آیا تو جان میں جان آئی، سامان پھینکا اور سیٹیں سنبھالیں۔ اور اپنی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کی۔

واش روم گئے، ذرا فریش ہوئے پھر بچوں سے بات کی، تو وہ بھی مطمئن ہو گئے کہ اماں، بابا خیر خیریت سے گیٹ پر پہنچ گئے ہیں، پھر سوچا، کافی وقت ہے کچھ کھا پی لیتے ہیں، ساتھ ہی ایک ریسٹورنٹ تھا وہیں چلے گئے، کافی لی اور ساتھ سینڈوچ لئے، کھا پی کر تازہ دم ہو کر پھر گیٹ کے سامنے جا کر بیٹھ گئے، ساتھ ساتھ بچوں سے واٹس اپ پر بات چیت وغیرہ ہو رہی تھی، اور وہ چاہتے تھے کہ ہم ان کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔

ہم تروتازہ ہو کر بیٹھ گئے اور ایک لمبا سانس لے کر ابھی ائرپورٹ کی بھاگتی دوڑتی، لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر غور کر ہی رہے تھے کہ کانوں میں ایک منحوس آواز گونجی کہ آپ کا گیٹ تبدیل کر دیا گیا ہے اب آپ فلاں نمبر گیٹ پر تشریف لے جائے، ہم نے بے یقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نہ چاہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر واپس بتائے گئے گیٹ کی طرف بھاگنے لگے، اور پھر کوئی آدھ گھنٹہ دوڑنے کے بعد گیٹ کے سامنے پہنچ گئے، سامنے ایک لمبی لائن تھی ہم بھی اس لائن میں کھڑے ہو گئے، اب دوبارہ سیکیورٹی سے گزرنا تھا، بیس منٹ بعد فارغ ہوئے تو لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئے۔

ساتھ ہی بورڈنگ شروع ہو گئی، جہاز میں سیٹ پر بیٹھ کر ہم نے بچوں کو خداحافظ کہا، اور سکون کا سانس لیا۔ لیکن اتنا بھاگنے دوڑنے کے بعد بھی ہم ہشاش بشاش تھے، کیونکہ بچوں سے ملنے۔ ان کو گلے سے لگانے کی تڑپ نے ہمارے جسم میں توانائی بھر دی تھی اور ہمیں صرف ایک ہی خوش کن احساس تھا کہ ہم اپنے بچوں کے پاس جا رہے ہیں۔ یہ سات گھنٹے کی فلائٹ تھی، جہاز میں بمشکل ہی کوئی سیٹ خالی تھی۔ جہاز کے اڑان بھرنے کے کوئی پونے گھنٹے بعد کھانا پیش کیا گیا، اس کے بعد ہم نے بھی تھوڑا سونے کی کوشش کی، کیونکہ آدھے سے زیادہ لوگ سو چکے تھے، لیکن کوشش بیکار ہی گئی، ہماری اگلی سیٹ پر ایک دو تین سال کا بہت پیارا بچہ اپنے باپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا، اس لئے اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے کافی اچھا وقت گزر گیا۔

پتہ نہیں کیسے تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگ گئی اور ساتھ ہی اناؤنسمنٹ ہوئی، کہ ہم لندن ہیتھرو ائرپورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔ جونہی جہاز رن وے پہ اترا، سب مسافر اترنے کے لئے پر تولنے لگے، سب خوش اور مطمئن نظر آ رہے تھے، کہ اپنی منزل پر بخیر و عافیت پہنچ چکے تھے، اس ائرپورٹ پر ہم بیس سال بعد اترے تھے تب بچے چھوٹے تھے، اور آج وہ باہر ہمارے منتظر تھے، وقت کیسے پر لگا کر گزر گیا تھا۔ ہیتھرو ائرپورٹ بھی میلوں پر پھیلا ہوا ہے، ہم بس امیگریشن کے سائن بورڈ کو دیکھتے ہوئے مسلسل تیز تیز قدموں سے چل رہے تھے بلکہ بھاگ رہے تھے، کوئی بیس پچیس منٹ بعد امیگریشن ہال میں پہنچے، وہاں سے فارغ ہو کر ہم سامان لینے کے لئے دوڑے، سامان آ چکا تھا، فوراً ٹرالیوں پہ رکھا اور باہر کی طرف دوڑے، باہر نکلتے ہی ادھر ادھر نظر دوڑائی، تو احمد ایک دم خوشی سے بولے وہ ہیں بچے، بس پھر ہم نے ادھر سے دوڑ لگائی اور بچوں نے ادھر سے اور یوں دو سال پر محیط گھڑیاں وصل کے خوبصورت لمحوں میں بدل گئیں، بچے ہمارے لئے ایک خوبصورت پھولوں کا گلدستہ لائے تھے، وہ ہمارے پیارے داماد نے ہمیں دیا، اور ساتھ ہی بیٹی نے دھڑا دھڑ سلفیاں لے لیں، اور پھر ہم پارکنگ کی طرف چل پڑے، ائرپورٹ سے سیدھے بیٹی کے سسرال گئے جہاں اس کی ساس ماں نے ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا اور پھر کوئی دو گھنٹے بعد برسٹل کے لئے روانہ ہو گئے۔ برسٹل تک کا سارا سفر انتہائی خوبصورت تھا، یوں لگتا تھا ہر طرف سبزہ بچھا دیا گیا ہو، بس ساری تھکاوٹ دور ہو گئی۔

جب برسٹل پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا، لیکن ہر طرف برقی قمقمے جگمگا رہے تھے اور بچے ہمیں ساتھ ساتھ معلومات دے رہے تھے، کہ اس سڑک کا کیا نام ہے یہ کون سا ریسٹورنٹ ہے، یہ برسٹل کی بندرگاہ ہے اور ساتھ ہی ہمارا اپارٹمنٹ ہے، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اماں بابا کو ابھی سارا برسٹل دکھا دیں، میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس نے یہ خوبصورت لمحے نصیب کیے اور اب ہم اپنے بچوں کے ساتھ ہیں انہی سوچوں میں گم تھی تو پتہ چلا، ارے ہم تو پارکنگ میں پہنچ گئے تھے اور بچے سامان نکال رہے تھے، میں بھی فٹافٹ باہر نکل آئی، اور پھر ہم اپارٹمنٹ میں جانے کے لئے لفٹ کی طرف چل پڑے۔

پانچویں فلور پر اپارٹمنٹ تھا اور یہ آخری فلور تھا۔ ہماری بیٹی کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور ہم اس کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے، نفاست سے سے سجا ہوا اپارٹمنٹ ہماری بیٹی کے سگھڑاپے کی گواہی دے رہا تھا، جوں جوں ہم تعریف کرتے وہ خوشی سے پھولی نہ سماتی، ہمارے تروتازہ ہونے کے سارے لوازمات، بیڈ۔ روم سے لے کر واش روم تک ہر چیز ایک ترتیب سے رکھی ہوئی تھی۔ ہم نے شاور لیا، تو ذرا ہوش ٹھکانے آئے، پھر گپ شپ کے دوران قہوہ پیا، چونکہ رات کافی ہو چکی تھی، اور ہمیں جاگے ہوئے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے، اس لئے سب سونے کے لئے تیار ہو گئے۔

صبح چار بجے پرندوں کی چہکار سے آنکھ کھل گئی، نماز پڑھی اور رب کی پاک ذات کا شکر ادا کیا، کہ اس نے بے شک بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، پھر لیٹنے کے باوجود نیند نہیں آئی، بچے بھی جلدی اٹھ گئے سب کو کام۔ کرنا تھا، ہمارے داماد جی تو آفس چلے گئے، اور بیٹے اور بیٹی دونوں نے گھر سے ہی کام کرنا تھا، کورونا کی وبا کے دوران سب کچھ بدل گیا تھا۔ لیکن اب بچے بھی بغیر کسی دباؤ کے کام کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔

بیٹی کا اپارٹمنٹ بالکل بندرگاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ بہت خوبصورتی تھی، دریا میں صبح سویرے بادبانی اور موٹر سے چلنے والی کشتیاں چل رہیں تھیں، اور بچوں کا بس نہیں چل رہا تھا، کہ کام چھوڑیں اور اماں بابا کو پورا برسٹل آج ہی دکھا دیں، جبکہ ہمارا ارادہ ابھی ایک دن آرام کرنے کا تھا۔ ہمیں حکم نامہ جاری کیا گیا، جلدی سے تیار ہو جائیں ہم باہر دریا کے کنارے واک کرنے جا رہے ہیں ابھی ہماری ایک گھنٹے کی لنچ بریک ہے، ہم انکار کی جرات کیسے کر سکتے تھے، جلدی سے تیار ہو کر نکل گئے، اور ٹھنڈی یخ ہوا ہونے کے باوجود بندرگاہ کی رونق، اور لوگوں کی چہل پہل، اور سب سے بڑھ کر دریا میں جگہ جگہ کھڑی دیدہ زیب کشتیاں جن میں ریستوران بنے ہوئے تھے، اور لوگ کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور ہر طرف کوکتے ہوئے بڑے بڑے بگلے، دریا کا صاف اور شفاف پانی اور نیلگوں آسمان غرض کہ ہم سب کچھ بھول کر ان دلفریب نظاروں کو دیکھنے میں محو ہو گئے، واک کرتے ہوئے ایک بڑا بگلہ میرے سر کے ساتھ آ ٹکرایا، یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے روئی سے بھرا تکیہ دے مارا ہو، ہم خوب لطف اندوز ہوئے، اور بچے ہمیں خوش دیکھ کر خوش تھے۔

ہم نے دو ماہ بچوں کے ساتھ گزارے، اور کوئی دن ایسا یاد نہیں جب ہم گھر رہے ہوں، وہ برسٹل کی دلفریب اونچی نیچی گلیوں سے گزر کر کسی پہاڑ پر چڑھنا، ٹریکنگ کر کے پہاڑ کے اوپر جا کر سورج کی آخری کرن کو دیکھنا، بے شک واپس نیچے آتے ہوئے میں اور احمد قدرت کی بے انتہا خوبصورتی دیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی کرتے، کہ قدم جما جما کر اور چھوٹے چھوٹے رکھیں اس طرح گھٹنوں میں درد نہیں ہو گا، تھوڑا سا رک کر پھر چلتے ہیں، اور پھر ہم خود ہی ہنستے کہ عمر کے ساتھ گفتگو کا انداز بھی بدل جاتا ہے، یہ ہم نے سنا تھا لیکن اب ہم اس تجربے سے گزر رہے تھے۔

اور بچے تو مانتے ہی نہیں تھے، وہ کہتے آپ لوگ بالکل ٹھیک ہیں، جوان ہیں بس اپنے ذہن سے یہ نکال دیں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں اور یہ نہیں کر سکتے، بس آپ ان خوبصورت لمحوں سے لطف اندوز ہوں۔ اور ہم واقعی تھکتے نہیں تھے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہمارے اندر ایک سکون اور طمانیت کا احساس ہے جو ہمیں تھکنے نہیں دیتا۔ اور یہ سب بچوں کی موجودگی کا خوش کن احساس تھا۔ ہم نے برسٹل کا ہر خوبصورت مقام دیکھا، برسٹل سے ویلز تک کا انتہائی دلکش سفر، کہ ایک منٹ کے لئے بھی آنکھیں بند کرنے کو دل نہ کرے، ویلز کی سرسبز چراگاہیں اور ان میں چرتی ہوئی بھیڑیں اس قدر خوبصورت لگتی ہیں، کہ دل چاہتا ہے کہ یہ دلفریب منظر دیکھتے ہی رہیں، ویلز کے انٹرنیشنل پارک کا ہی ایک حصہ جو ایک گھنے جنگل پر محیط ہے، بچوں کے پر زور اصرار پر کہ چلیں ادھر آگے جا کر ایک بہت خوبصورت آبشار ہے وہ دیکھتے ہیں، احمد نے تو جھٹ انکار کر دیا لیکن میں تو قدرت کی اس خوبصورتی کو جی بھر کے انجوائے کرنا چاہتی تھی، جونہی ہم جنگل کے اندر چلتے گئے تو ایک مہیب سناٹا تھا اور اس میں صرف اور صرف کہیں کہیں پانی چلنے کی آواز، اور چرند پرند کی۔

ملی جلی آوازوں کا جلترنگ بج رہا تھا جو میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ سنا، اور دل مچل رہا تھا کہ آنکھیں بند کر کے ادھر بیٹھ جائیں اور یہ انوکھی موسیقی کانوں میں رس گھولتی رہے۔ بے۔ شک پوری دنیا میں قدرت کے ایسے بے شمار شاہکار ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان دم بخود رہ جاتا ہے، اور انہیں بار بار دیکھنے کی تمنا کرتا ہے۔ اور ہمارے نصیب میں یہ سب دیکھنا صرف بچوں کی بدولت ممکن ہوا تھا۔ وہ ہر روز ہمیں بہانے بنا کر باہر لے جاتے، ادھر بالکل نزدیک ہی جانا ہے دس منٹ کی واک ہے اور وہ کم از کم تیس چالیس منٹ کی واک ہوتی۔

بیٹے کے پاس پولینڈ (وارسا) ہم رات کے بارہ بجے پہنچے اور وہ صبح سویرے باہر جانے کے لئے تیار تھا، اور ہم اسے انکار کیسے کرتے، وہ مجھے اس پارک میں لے گیا جدھر وہ ہر روز دوڑ لگاتا تھا اور فون پر بتاتا تھا میں پارک میں واک کر رہا ہوں، دو ہفتے ہم نے وہاں گزارے، اور ہر روز خوب سیریں کیں، وارسا بے شک ایک بہت خوبصورت اور تاریخی شہر ہے، وہاں بھی ہماری مسجدوں کی طرح ہر سڑک پر ایک چرچ موجود ہے، وہاں گھر زیادہ تر بڑے ہیں اور زیادہ تر گھروں کے بڑے گیٹ اور چاردیواری ہے، وہاں کے لوگ خوش لباس ہیں۔

اور مہذب ہیں۔ بچوں نے وہاں بھی ہمیں ہر روز خوب پیدل چلایا، ان کا دل چاہتا تھا ہم ماں باپ کو ہر اس جگہ پر لے کر جائیں جس کے بارے میں وہ ہمیں فون پر بتایا کرتے تھے، غرض کہ ہم نے ہر وہ جگہ دیکھی، اور ہم نے زندگی کو جیا اور بچوں کے ساتھ گزرے ہوئے ہر لمحے کو جی بھر کے جیا، اور ہم بھول ہی گئے کہ واپس بھی جانا ہے۔ جس دن ہماری واپسی تھی تو ایک دن پہلے شام کو جب ہم برسٹل کے ایک مشہور پل پر جو کہ lock bridge لاک برج کے نام سے مشہور ہے، وہاں کئی ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے تالے لگائے ہوئے ہیں، شاید وہ منت مان کے لگاتے ہیں، یا اپنی محبت کی یادگار کے طور پر، اس کا اندازہ نہیں، تو ہماری بیٹی نے ایک دم کہا کہ آپ لوگوں نے ادھر تالہ تو لگایا نہیں، ہم نے ہنس کر کہا کوئی بات نہیں اگلی دفعہ لگا لیں گے۔ صبح سویرے جب ہم لوگ تیار ہو کر کھڑے تھے تو بیٹی ہاتھ میں تالہ لئے کھڑی تھی، چلیں جلدی چلیں جب تک موسی بھائی تیار ہوتے ہیں ہم تالہ لگا آتے ہیں پانچ منٹ کی تو واک ہے۔ اس طرح ہم۔ نے جا کر تالہ لگایا، اس نے مارکر سے ہمارے نام اوپر لکھے ہوئے تھے، اور ساتھ ہماری ویڈیو بنائی اور فوٹو کھینچیں۔

مجھے لگتا ہے بچے ماں باپ کے لئے آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ جس طرح ایک پودے کو نشوونما کے لئے ہوا، پانی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ماں باپ کو بچوں کے محبت بھرے لمس اور پیار کی چاشنی کی ضرورت ہوتی ہے، جو گاہے بگاہے ہلکی ہلکی پھوار کی صورت والدین پر بر ستی رہے، تو یہی محبتیں والدین کی زندگی کو بڑھاوا دیتیں ہیں اور ان کو تازہ دم رکھتی ہیں۔ اور ایسے فرمانبردار اور بے لوث محبت کرنے والے بچوں کے ماں باپ کبھی بھی ناخوش نہیں ہو سکتے۔ اب بے شک ہم اپنے بچوں سے دور ہیں، لیکن ان کی سنگت میں جئے ہوئے وہ خوبصورت لمحے ہمارے دلوں میں دھڑکتے ہیں بور خوشی کا باعث ہیں۔ مجھے یہ نظم بہت پسند ہے۔

بڑھاپا خوبصورت ہے اگر
ذرا سا لڑکھڑائیں تو
سہارے دوڑ کر آہیں!
نئے اخبار لا کر دیں
پرانے گیت سنوائیں
بصارت کی رسائی میں
پسندیدہ کتابیں ہوں!
پرندے ہوں شجر ہوں تو!
بڑھاپا خوبصورت ہے!
جنہیں دیکھیں تو آنکھوں میں
ستارے جگمگا اٹھیں
جنہیں چومیں تو ہونٹوں پر
دعائیں جھلملا اٹھیں
جوان رشتوں کی دولت سے
اگر دامن بھرا ہو تو!
بڑھاپا خوبصورت ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments