”کائنات کے بیک یارڈ سے“ : کی نظمیں :چند تاثرات


صنوبر الطاف، معاصر ادبی منظرنامے میں زرخیز تخیل اور فکری ارفعیت کے حامل تخلیق کاروں کی صف اول میں شامل ایسی شاعرہ ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی تخلیقیت کے معیار کا اندازہ معاصر ادبی رسائل میں اشاعت پذیر ہونے والی ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریروں کے معیار سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی تحریریں ایسے خیالات اور احساسات کی حامل ہیں کہ ان میں حیات آفریں اقدار کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ قاری کے تخیل کو مہمیز لگا کر اسے نئے جہانوں کی تخلیق پر آمادہ کرتی ہیں۔

ان کی نظموں میں موضوعات، مواد، اسلوب اور پیرایۂ اظہار کی ندرت نے ابلاغ کو ابہام میں ڈھلنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ان کی تخلیقات خواہ وہ نثری شکل میں ہوں یا منظوم صورت میں، اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ جذبات، احساسات اور تفکرات کو اس طرح خلوص اور دردمندی سے پیش کیا جائے کہ دل پر گزرنے والی ہر واردات براہ راست اور بلاواسطہ انداز میں قارئین تک پہنچے۔ وہ الفاظ سے ایسے مرقع تخلیق کرتی ہیں کہ قاری چشم تخیل سے اس منظر کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ مشاہدہ پر بھی قدرت حاصل کر لیتا ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ان کی تازہ شائع ہونے والی کتاب ”کائنات کے بیک یارڈ سے“ میں موجود ہیں۔ مذکورہ کتاب مہردر پبلی کیشن، کوئٹہ نے 2022 ء میں شائع کی ہے۔

صنوبر الطاف کی ذہانت، شائستگی، گداز لہجہ اور نفاست، ان کے اسلوب میں کلیدی کردار یا امتیازی وصف کی حامل ہے۔ وہ اداسی کو ہنسی کے خوش رنگ پھولوں میں چھپانے کے ہنر سے آشنا دکھائی دیتی ہیں۔ وہ زیست کی تلخ حقیقتوں کو ہجوم یاس کی مسموم ہواؤں سے نجات دلانے اور اکناف عالم میں زندگی کی مسرتوں کو بکھیرنے کی خواہاں ہیں۔ زندگی کے تضادات اور بے اعتدالیوں پر طنز، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے ضبط کے آنسوؤں کا شاخسانہ ہے۔

مذکورہ مجموعے میں ان احساسات اور کیفیات کو واضح انداز میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی نظمیں جذبوں کی تمازت، خلوص کی شدت، بے لوث محبت، پیمان وفا کی اصلیت اور لہجے کی ندرت سے مالا مال ہیں۔ ان کے ہاں تصنع اور بناوٹ سے پاک لب و لہجہ ہے جو حقیقت پسندانہ انداز میں ان کے شعری تجربے کے اظہار کو سامنے لاتا ہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

ابھری چھاتیوں، بھرے کولھوں اور روشن آنکھوں والی
معصوم خانہ بدوش!
تم ابھی لڑکپن اور جوانی کی جڑواں
سرحد پر کھڑی ہو
اور سمجھتی ہو کہ کائنات تمھارے پر شور دل کی
تھاپ پر دھڑکتی ہے۔ ” (خانہ بدوش وقت سے آزاد ہیں )
تنہائی راتوں کو رونے والی کتیا ہے
جس کے بین
لمبی تنہا سڑکوں سے ٹکرا کر
لوٹ آتے ہیں ( تنہائی کا پورٹریٹ)

صنوبر الطاف نے یوں تو زندگی کے تمام موضوعات کو اپنی نظموں میں سمونے کی کوشش کی ہے لیکن فرد کی تنہائی، موت، مامتا کا بے لوث جذبہ، وقت کی شکست و ریخت، معاشرتی بے اعتدالی اور انسان دوستی ان کے خاص موضوعات ہیں۔ ان موضوعات کی پیش کش میں ان کی تخلیقیت عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ ان کی نظموں میں فرد کی تنہائی بار بار سامنے آتی ہے۔ تنہائی کا یہ بیان ان کی نظموں میں خود آگہی اور وجود کے اثبات کا دوسرا نام ہے۔ وجودیت پسند فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو تنہائی کا احساس اس وقت جنم لیتا ہے جب فرد میں بیگانگی کا احساس زور پکڑ جائے۔

بیگانگی کی جڑیں اکثر اوقات انسانی معاشرے میں پیوست ہوتی ہیں۔ جب فرد کے ارد گرد سیاسی و سماجی انتشار پھیل رہا ہو اور اخلاقی اقدار شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہی ہوں تو زندگی خوفناک سناٹے کا شکار ہوجاتی ہے۔ فرد اپنی ذات سے، اپنے ماحول سے اور ارد گرد کی اشیاء سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہے اور تنہا زندگی گزارنے کو اولیت دیتا ہے۔ وہ بے بسی، لاچارگی اور بے مقصدیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ جدید نظم نگاروں کے ہاں یہ عمل فکری، لفظی اور ہیئتی سطح پر نمایاں ہوا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ صنوبر الطاف کے ہاں اس صورت حال کے رد عمل میں بیمار وجودی رویوں نے جنم نہیں لیا بلکہ ان کے ہاں ارد گرد کے ماحول کو روشن اور تابندہ دیکھنے کی خواہش فعال اور متحرک دکھائی دیتی ہے جو ان کے اثبات ذات کی دلیل ہے۔ ان کی نظموں سے چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں :

تم نے رہنے کے لیے تنہائی چنی ہے؟
کرایہ دار بن کر رہو گے
یا مالک مکان؟
دیکھو، بہت فرق ہے
کرایہ دار تنہائی کی تنگ گھاٹیوں سے
گھبرا کر بھاگ سکتا ہے
فیصلہ بدل سکتا ہے
لیکن مالک کو سہنا پڑتی ہے
دیواروں کی سیلن
ٹپ ٹپ کرتے نل کا شور
بلب کی مسلسل پیلی روشنی
دیوار پر مصلوب کلاک کی ٹک ٹک
جون کی تپتی دوپہریں
جنوری کی یخ راتیں
اچھا تم سچ میں سہ لو گے؟ ( تنہائی کا معبد)

صنوبر الطاف نے زندگی اور کائنات کو اپنے ذاتی تجربے اور بصیرت کی روشنی میں دیکھا ہے جو ان کے روح اور باطن کی آواز ہے۔ یہ آواز کہیں نامعلوم دنیا سے وارد نہیں ہوئی بلکہ حالات اور وقت کی زائیدہ ہے۔ انھوں نے کائنات کی تفہیم کا آغاز اپنی ذات پر غور و فکر سے شروع کیا ہے۔ اس غور و فکر نے انھیں مختلف اور متنوع نتائج تک پہنچایا ہے۔ نتائج کے استنباط اور فکری اپچ نے ان کی شاعری کو بیانیہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ اثر پذیری بھی اس کے بنیادی لوازمات میں شامل ہو گئی ہے۔ یوں صنوبر الطاف کی نظمیہ شاعری تفہیم کائنات اور جذبات و احساسات کے پر اثر بیانیے کا حسین امتزاج بن کر سامنے آتی ہے۔ ان کے ہاں کائنات، وقت اور انسانی باطن کی جو تثلیث نمایاں ہوئی ہے، اس نے ان کی نظموں کو منفرد آہنگ عطا کیا ہے۔

میری میز پر کوئی گلوب نہیں ہے
اور میرا کوئی مکان نہیں ہے
میں اپنی تاریخ سے بے خبر ہوں
میرا کوئی زمان بھی نہیں ہے
لیکن ہر رات سونے سے پہلے
وقت کے ڈر سے
ٹانگیں سینے سے جوڑ لیتی ہوں (میں، وہ اور تاریخ)

صنوبر الطاف نے موت کو موضوع بنا کر زندگی کی حقیقت کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں ماں سے محبت کا جذبہ، نسائی حسیت اور معاشرتی بے اعتدالی پر نظمیں موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے خیالات کو قاری تک منتقل کرنے میں مکمل کامیاب رہی ہیں۔ ان کے ہاں کئی ایسی نظمیں موجود ہیں جہاں عورت کے وجود کا بھر پور احساس موجود ہے۔ ان کی عورت مکمل شخصیت کی حامل خوب رو دوشیزہ ہے جسے وقت کے دھارے پہ بہ نہیں جانا بلکہ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ وہ عصر حاضر کی عورت کو متحرک، فعال اور معاشرے کا کار آمد عضو خیال کرتی ہیں اور اس بات کی خواہاں ہیں کہ معاصر عہد میں عورتوں کو دنیا و مافیہا سے باخبر رہنا لازمی ہے تاکہ انھیں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے میں آسانی ہو۔

کہیں کہیں ان کے ہاں انگریزی نظموں کے اثرات بھی موجود ہیں جو اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر ان کی نظم کو انفرادیت بخشتے ہیں۔ کائنات کے بیک یارڈ سے ”کے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے روایتی انداز بیان کی کوکھ سے نیا لب و لہجہ اور آہنگ تخلیق کیا ہے جو اردو نظم نگاری کی آبرو اور عزت میں اضافے کا باعث بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments