سیلاب زدگان کی امداد – بڑھ کر ساحل ہو جاتے ہیں


اپنے پیارے ساتھ چلیں تو
رستے منزل ہو جاتے ہیں
چھوڑو مے اور مے خانوں کو
ہم تم محفل ہو جاتے ہیں
وقت پہ گر نہ آنکھ کھلے تو
سپنے قاتل ہو جاتے ہیں
ڈوب رہا ہے دیکھو کوئی
بڑھ کر ساحل ہو جاتے ہیں
دیکھیں جب وہ پیار سے صاحب
شکوے مشکل ہو جاتے ہیں

صرف اپنے لئے جینا کوئی کمال نہیں، کمال یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی سوچے، ان کا دکھ درد محسوس کرے اور اپنی بساط کے مطابق یا اس سے بھی بڑھ کر دوسروں کی مدد کرے۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں ان میں یہ قدر مشترک تھی کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں جیے بلکہ اپنے سے زیادہ دوسروں کی فکر کی، دوسروں کی بہتری اور بھلائی کے لئے جدوجہد کی، تکالیف اور مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں۔ اسی بنیاد پر وہ عظیم کہلائے اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔

دنیا میں کروڑوں ایسے لوگ بھی گزرے ہوں گے جنہوں نے بہت مال و دولت کمائی ہوگی، اچھی اور خوشحال زندگی بسر کی ہوگی لیکن آج ان کا نام و نشان باقی نہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے لئے جیتے رہے، اس لئے مرنے کے بعد دنیا نے ان کو فراموش کرنے میں دیر نہیں کی۔ یہ فارمولا آج بھی روبہ عمل ہے اور رہتی دنیا تک روبہ عمل رہے گا۔ اس تمہید کا مقصد آپ کو موجودہ مشکل اور بحرانی صورتحال میں دوسروں کی مدد کی طرف راغب کرنا اور انہیں ریلیف مہیا کرنا ہے۔

ریلیف کیا ہے؟ ریلیف یہ ہے کہ مصیبت زدہ انسانوں کی زندگی کو پرسکون بنایا جائے اور ان کے دکھ درد دور کیے جائیں۔ صحابہؓ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانوں کا دکھ درد دور کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ نے اپنے گھر کے ایک حصے کو کلینک بنا دیا تھا۔ حضرت عمرؓ راتوں کو ضرورت مندوں کی خبر گیری کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ ایک گھر کے پاس پہنچے ’بچے رو رہے تھے‘ چولہے پر ہانڈی تھی۔

آپؓ نے بچوں کی رونے کی وجہ دریافت کی۔ جواب میں ماں نے بتایا کہ یہ بھوک سے رو رہے ہیں۔ میں نے دیگچی میں پانی بھر کر چولہے پر رکھا ہے تاکہ یہ سمجھیں کھانا تیار ہو رہا ہے اور اس کے انتظار میں سو جائیں۔ حضرت عمرؓ خود سامان اٹھا کر لائے اور کھانا تیار کرنے کا کہا۔ عورت نے سامان لے کر شکریہ ادا کیا اور تاثر دیا کہ آپ جائیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ”میں نے ان بچوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے ’اب یہ کھانا کھالیں تو ان کو ہنستا ہوا بھی دیکھ لوں تو دلی خوشی ہوگی۔

“ ریلیف کے کام کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہی اصل خوشی ہے کہ ڈاکٹر کا مریض ٹھیک ہو جائے ’بھوکے کھانا کھا کر خوش ہو جائیں۔ مستحقین کو آرام پہنچا کر جو اطمینان اور خوشی کا احساس ہوتا ہے یہی ریلیف کا کام کرنے والوں کا سرمایہ افتخار ہوتا ہے۔ ریلیف کے کام کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے ”کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کے وسائل کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ان میں سے کچھ لو گوں کو دوسروں سے زیادہ دیا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے کے کام آئیں اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔

“ ( الزحزف‘ آیت 32 ) پرسکون زندگی کا فارمولا یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی سے دکھ ’درد‘ خوف کم کرو۔ آپ کے خوف و غم دور ہوں گے۔ زندگی پرسکون ہوگی ’کسی کو آرام دے کر اس کے چہرے کو دیکھو جو اس پر اطمینان ہوتا ہے اسے دیکھ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی اصل خوشی ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب نے ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آفات سے نمٹنے کے لئے حکومتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہزاروں گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد عارضی طور پر لگائے گئے خیموں میں مقیم ہے یا کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جنم لینے والی فوری ضروریات کے پیش نظر حکومت نے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے۔ فوج کو ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔ اب مختلف تنظیموں کی طرف سے امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ اس وقت سیلاب زدگان کو بڑے پیمانے پر اشیائے خورد و نوش، ادویات اور خیموں وغیرہ کی ضرورت ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے عوام سے متاثرہ افراد کی امداد کرنے کی اپیل کی ہے۔ حکومت کے مطابق عوام براہ راست یا حکومتی اداروں کے ذریعے یہ امداد متاثرین تک پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم امداد کرنے کے خواہش مند بہت سے افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ عام افراد اگر سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کار کیا ہو کہ وہ آسانی سے متاثرین کی مدد کرسکیں۔ متاثرین کو نقد امداد، پکا پکایا کھانا یا کھانے پینے کی خشک اشیاء اور خیمے وغیرہ دیے جائیں۔

امداد متاثرین پہنچائے کے لیے خود جائیں یا پھر کسی ادارے کی مدد لیں۔ ان سوالات کا مختصر جواب یہ ہے۔ »سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد ضرور کی جائے البتہ پکا پکایا کھانا زیادہ مفید نہیں۔ ایک پہنچانا مشکل اور دوسرا موسم گرما کی وجہ سے جلد خراب ہو جانے سے بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں عام طور پر لوگ حکومت یا تنظیموں کو نقد امداد دینے سے اس لیے ہچکچاتے ہیں کہ رقوم متاثرہ افراد تک پہنچ پائیں گی یا نہیں۔

اس لیے وہ نقد کے بجائے امدادی سامان خود لے کر ان لوگوں کے پاس جانا چاہتے ہیں۔ چونکہ عالمی سطح پر آفات میں حکومتی ہدایات کے مطابق لوگ نقد عطیات سرکاری اداروں یا غیر سرکاری تنظیموں کو دیتے ہیں۔ وہ متاثرین تک امداد پہنچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں رقوم کے غلط استعمال کا رجحان عام ہے اس لیے لوگ اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس لیے وہ متاثرین تک خود امداد پہنچانا چاہتے ہیں۔ آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والوں کا خود جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔

اس وقت متاثرین کو ان چیزوں کی فوری ضرورت ہے۔ » ترپال یا چار میٹر سکوائر سائز کے خیمے جن میں آٹھ سے دس افراد زمین پر جب کہ چار سے چھ افراد چارپائیوں پر باآسانی سو سکتے ہیں۔ »ایسی خوراک کی ضرورت ہے جو جلد خراب نہ ہو۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ بسکٹس، چنے وغیرہ خشک خوراک، کچے چاول، دالیں، کوکنگ آئل، چینی اور خشک دودھ وغیرہ اچھی طرح پیک کر کے بھجوائیں۔ چولہے، پلیٹیں، گلاس وغیرہ بھی ان کے کام کی اشیاء ہیں۔

اس طرح وہ لوگ خود اپنا کھانا تیار کر سکیں گے۔ » پینے کا صاف پانی سیلاب متاثرین کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے۔ منرل واٹر کی سپلائی برقرار رکھنا ایسے علاقوں میں ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے بجائے پانی کو صاف کرنے والا میٹریل بھجوانا مثلاً پانی صاف کرنے والی گولیاں وغیرہ بہتر ہے تاکہ سیلاب متاثرین پانی میں استعمال کر کے بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ »امدادی سامان میں بنیادی ادویات بھجوائی جائیں جن کی متاثرین کو فوری ضرورت ہے۔

ایسے علاقوں میں بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے ہیضے، پیچش، بخار وغیرہ کی ادویات ان کو بھجوائی جائیں۔ جو لوگ خود جانے کے خواہاں ہوں اس کے لیے قابل اعتماد، تجربہ کار اور علاقے کی واقفیت کے حامل افراد، سرکاری اداروں یا قابل اعتماد تنظیم کی مدد حاصل کر کے منصوبہ بندی کریں۔ تاکہ ریلیف کا کام منظم انداز میں ہو اور راستے منزل بن جائیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments