سیلاب اور بے حس سیاست


رواں سال مارچ سے ہی شدید گرمی کا آغاز ہو گیا تھا موسمیاتی تبدیلی پر نظر رکھنے والے اداروں نے کم از کم دو ماہ قبل ہی پاکستان میں معمول سے کئی گنا زیادہ بارشوں اور سیلاب کی پیشگوئی کر دی تھی۔ سیلاب آنے سے قبل مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پیشگی اقدامات کی کوشش کی اور نہ ہی عوام کے جان مال اور املاک کی تباہی کی خوفناک وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے قبل قومی اخبارات اور نیوز چینلز پر اس مسئلے کو کوریج ملی۔

گزشتہ دو ماہ سے سیاسی جماعتیں تو آپس میں برسر پیکار تھیں ہی میڈیا بھی یہی طے کرنے میں مصروف رہا کہ شہباز گل کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی یا نہیں اور اگر ہوئی تو کس نوعیت کی؟ اب جتنی بار بھی اس قیامت کو موسمیاتی تبدیلی پر ڈال دیا جائے اپنی ذمہ داری سے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتیں بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔ میڈیا کی اصل ذمہ داری عوامی مسائل اجاگر کرنا ہے مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا کا کردار بھی اس ضمن میں نہایت قابل افسوس رہا۔

یہ کہنا غلط نہیں کہ اب بھی ریاست پر قابض اشرافیہ جس میں میڈیا بھی شامل ہے، اسے کوئی فکر نہیں کہ پاکستان ڈوب چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے ملنے والی داستانوں سے دل کٹ جاتا ہے۔ کس کس جگہ کا نوحہ لکھا جائے؟ دیکھتے ہی دیکھتے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان میں دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ بلوچستان میں پہلے کم بدحالی تھی اور غربت اب وہاں کیا حالات ہوں گے سوچ کر ہی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ کے پی کے بھی تباہی سے محفوظ نہیں رہا حالانکہ ابتدا میں وہاں حالات قدرے بہتر تھے۔

خصوصاً سوات، چارسدہ اور بحرین کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ نوشہرہ تو مکمل ڈوب چکا ہے۔ کراچی کے علاوہ تقریباً پورا سندھ ہی زیر آب ہے۔ سکھر لاڑکانہ اور خیرپور میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے مگر ان بڑے شہروں کے علاوہ بھی سندھ میں اکثر علاقے مکمل برباد ہیں۔ سیلاب میں ڈوبے ان چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں پر مگر زیادہ توجہ اب بھی کوئی نہیں دے رہا۔ خیرپور ناتھن شاہ جھڈو میہڑ جوہی اور نوشہرو فیروز میں سنگین المیہ برپا ہے۔ ہمارا شہر سانگھڑ بھی بلا مبالغہ مکمل سیلاب برد ہو چکا ہے۔

پورے ملک میں کئی لاکھ مکانات گر چکے ہیں اور کئی لاکھ مویشی بہہ چکے ہیں۔ بھینس اور بکریوں کے سوا غریبوں کا کوئی معاشی سہارا نہیں ہوتا، جو مویشی کسی طرح ڈوبنے سے بچ بھی گئے ہیں ان کو کھلانے کے لیے چارہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ اندازہ لگائیں جس غریب کے سر کی چھت بھی چھن چکی ہو اور معاشی سہارا بھی ہاتھ سے نکل گیا ہو اس کا کیا حال ہو گا؟ سیلاب متاثرہ علاقوں میں سڑکوں اور نہروں کے کنارے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان کے نیچے موجود ہیں۔

اگرچہ بڑی حد تک ریلیف کا کام شروع ہو چکا ہے مگر اصل مستحقین کو کوئی امداد اب تک نہیں ملی۔ بہت سے علاقوں میں سیلابی پانی میں پھنسے لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں بچا۔ چاروں طرف سے گندے پانی میں گھرے لوگوں کو پیاس بجھانے کے لیے پینے کے قابل صاف پانی بھی میسر نہیں اور آلودہ پانی پینے کے سبب وبائی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہر دوسرا شخص ملیریا، ڈینگی، پیٹ یا جلد کی بیماری کا شکار ہو چکا ہے۔ خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو بڑی تعداد میں انسانی اموات ہونے کا خدشہ ہے۔

پہلے ہی حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کے لیے اپنے پیاروں کو دفن کرنا مشکل ہے کیونکہ قبرستان بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سندھ کی نوے فیصد فصلیں مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔ جن جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے ان تمام علاقوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت سے حاصل ہوئی آمدن پر ہے۔ سیلاب سے محفوظ بڑے شہروں میں رہنے والے تصور نہیں کر سکتے کہ کاشتکار طبقے کی اس وقت کیا حالت ہے اور وہ کن مصائب میں مبتلا ہے۔ زرعی پیداوار متاثر ہونے سے ان علاقوں میں صرف کسان ہی نہیں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔

سیلاب سے متاثرہ عوام اسی وجہ سے پانی اترنے کے بعد بھی مستقبل سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں۔ جس وسیع رقبے پر سیلاب کا پانی موجود ہے اور جس رفتار سے سیلابی پانی کے لیے راستہ بنانے کا کام ہو رہا ہے لگتا نہیں دو ماہ میں پانی اتر جائے گا۔ کپاس اور گنے کی فصل نقد آور تصور ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں سارے سال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لوگ ان فصلوں کی آمدن پر تکیہ کرتے ہیں۔ پانی میں ڈوبنے سے کپاس کی فصل مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور گنے میں بھی کیڑا لگنا شروع ہو چکا ہے۔

دس سے پندرہ روز مزید گنے کی فصل ڈوبی رہی تو وہ بھی خراب ہو جائے گی۔ نومبر کے مہینے میں گندم کی بوائی ہوتی ہے۔ اکتوبر تک تک اگر زرعی زمینوں سے پانی مکمل طور پر نہیں نکل سکا تو گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکے گی۔ یعنی جو خوش قسمت سیلاب میں ڈوب کر مرنے سے بچ جائیں گے لا محالہ اگلے سال بھی قحط اور بھوک میں ہی وہ مبتلا رہیں گے۔

دو ہزار دس کے سیلاب کے نقصانات کا تخمینہ چالیس ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔ رواں سال سیلاب کی شدت بھی زیادہ ہے اور اب کی بار دو ہزار دس کی نسبت ملک کا زیادہ علاقہ متاثر ہوا ہے۔ حالیہ سیلاب کے بعد بحالی کے لیے لہذا کثیر رقم درکار ہوگی۔ ملکی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے، ان حالات میں سیاسی استحکام یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس نازک وقت میں بھی ہمارے سیاست دان باہم دست و گریبان ہیں۔

سب سے زیادہ شرمناک اور قابل مذمت کردار اس وقت عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا ہے۔ ساڑھے تین سال کی گورننس کے دوران اور حکومت جاتے وقت ملکی معیشت کے ساتھ عمران خان نے جو کیا ہے سب کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف خود بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہ ہوا تو وطن عزیز دیوالیہ ہو جائے اور عام آدمی پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ اس کے باوجود اپنے مکروہ عزائم اور کوتاہ سیاست کے لیے تحریک انصاف سے وابستہ ہر شخص آخر وقت تک اس کوشش میں لگا رہا کہ کسی طرح یہ ڈیل نہ طے ہو اور پاکستان دیوالیہ ہو جائے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں شامل نہ رہے تو ان حالات میں سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام نہیں ہو پائے گا۔ اس کے باوجود کے پی کے حکومت کا آئی ایم ایف کی سرپلس شرط سے دستبردار ہونے کے اعلان کو ملک اور عوام سے دشمنی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments