! پانی ابھی خطرے کے نشاں تک نہیں آیا


اشکوں سے نہیں ٹوٹا ابھی ضبط کا پشتہ
پانی ابھی خطرے کے نشاں تک نہیں آیا

گزشتہ کچھ عرصہ سے والد صاحب (جناب یزدانی جالندھری) کا یہ شعر جسے جناب وجاہت مسعود بھی ضرب المثل قرار دیتے ہیں میرے گوشہ وجدان کو گھیرے ہوئے ہے۔

ادھر کینیڈا شمالی امریکا میں بیٹھا وطن عزیز کی طرف دیکھتا ہوں تو جانے کیوں ہر منظر ڈوبتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس موقع پر آپ مجھے قنوطیت پسند کہنا چاہیں تو بخوشی کہہ لیں مگر جو احباب مجھے جانتے ہیں انھیں بخوبی معلوم ہے کہ میں ایسا نہیں۔ سوچ ہمیشہ مثبت اور طبع رجائیت پسند پائی ہے۔ یہ بھی قبلہ والد صاحب کا عطیہ ہے۔ وہ جن مشکل حالات سے گزرے اور مسکراتے ہوئے گزرے ان کا تصور بھی آسان نہیں۔ کم وسائل میں ہنسی خوشی وقت گزارنا اور چہرے کی مسکان کو سلامت رکھنا کوئی ان سے سیکھتا۔

تو عرض میں یہ کر رہا تھا کہ یہاں دنیا کے شمالی کونے میں جسے محترم احمد ندیم قاسمی کرہ ارض کی پشت لکھتے تھے بیٹھا وطن عزیز کی طرف نظر کرتا ہوں تو ہر منظر ڈوبتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف پانی کے منہ زور ریلوں نے ارضی سیلاب بپا کر رکھا ہے اور طول و عرض میں اپنی تباہ کاریوں کے نشان چھوڑے جا رہے ہیں اور دوسری طرف سیاسی رہنماؤں، وہ حکومتی ہوں یا غیر حکومتی، قدرتی آبی طوفان سے بھی زیادہ بپھرے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔

میں خبروں میں، تجزیات میں، رپورٹوں میں کوئی ایسی آواز تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو اس موقع پر تحمل و تدبر کی راہ سجھانے والی ہو۔ اچھلنے کے بجائے آرام سے بیٹھ کر حالات کا جائزہ لینے اور ملک اور معاشرے کو درپیش گہرے مسائل کو ٹھیک طور سے سمجھنے کی اور باہم مل کر ان کے حل تلاش کرنے کی دعوت دینے والی ہو۔ تو نظر مایوس ہی لوٹ آتی ہے۔ ہوں گی اکا دکا آوازیں، ضرور ہوں گی مگر نفرت اور حقارت کا بے ہنگم شور انھیں ابھرنے نہیں دیتا۔

وہاں کے دوستوں سے گلہ کروں تو وہ کہتے ہیں کہ منظر تو ٹھیک ہے میں مکانی دوری اور کسی حد تک عمر رسیدگی کے باعث ٹھیک سے دیکھ سن نہیں پا رہا۔ میں احتراماً ان کی بات بات مان بھی لوں مگر جب دیکھتا ہوں کہ یہ سب ٹھیک منظر صحافیوں کی عالمی برادری کو بھی تشویش ناک لگ رہا ہے تو اپنے حواس و قویٰ کے اعتدال پر شک کم ہونے لگتا ہے۔

قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا لب و لہجہ، حکومت کے غیر حقیقی دعوے، مختلف اداروں کے اختیارات، دائرہ کار اور کارکردگی پر اعتراضات اور داخلی انتشار اور بدانتظامی اور پھر ان کا باہم تصادم۔ عدم توازن دوہرا ہے ؛ گویا مدار اور محور دونوں کج روی و کج رفتاری کا شکار ہیں۔ ایسے میں جھٹکے تو لگیں گے ہی۔ سیاسی عدم استحکام، سماجی مسائل اور قدرتی آفات کہاں نہیں آتیں۔ مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ سمجھ دار قوموں کے سرکردہ افراد ایسے میں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور قوم کو مشکل مرحلے سے نکالنے کی تدابیر کرنے لگتے ہیں۔

اپنے سیاسی اختلافات پارلیمان کے اجلاس یا متعلقہ پلیٹ فارمز پر چھوڑ آتے ہیں اور مل جل کر کام کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو حوصلہ بھی دیتے ہیں اور انھیں سراہتے بھی ہیں اور سیاسی مخالفین کو موقع بے موقع طعنوں سے اذیت نہیں دیتے بلکہ اس کی خدمات کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں رہنے والے اس پر میری تائید کریں گے۔ میں نے کینیڈا میں ایسا ہوتے دیکھا جب ہمارے صوبہ اونٹاریو کی سیاسی جماعت این ڈی پی کی رہنما اینڈریا ہورویتھ نے اپنی جماعت کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اور صوبائی پارلیمان میں بیٹھنے کے بجائے اپنے شہر ہیملٹن کی خدمت کا اعلان کیا تو صوبے کے موجودہ وزیر اعلیٰ ڈگ فورڈ نے جو اینڈریا کے نشانے پر رہتے تھے اپنی مخالف رہنما کی دل کھول کر تعریف کی کہ حکومتی اقدامات پر تنقید کرنا ان کا حق تھا اور یہ کہ اس سے جمہوری طرز عمل کو فروغ ملا۔

بات یہ ہے کہ پانی پانی کہے جانے سے پیاس نہیں بجھتی۔ اسے بجھانے کے لیے پانی پینا پڑتا ہے۔ اسی طرح محض جمہوریت جمہوریت کی تکرار کرنے سے جمہوری اقدار معاشرے میں جگہ نہیں پاتیں۔ جمہوریت کو حقیقی معنوں میں سمجھنا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا لازم ہے۔ جمہوریت انتخابات میں اپنی من پسند سیاسی جماعت کو ووٹ دینے تک محدود کوئی پنج سالہ عمل نہیں۔ یہ تو طرز فکر ہے۔ سوچ کا انداز ہے جو زندگی کرنے میں فرد اور افراد کی رہنمائی کرتا ہے اور ایک کو دوسرے کی رائے اور اس کے وجود کے احترام پر ابھارتا ہے اور اجتماعی ترقی و خوش حالی کو یقینی بنانے میں ممد ہوتا ہے۔

اب ایک ایسے معاشرے کا تصور کیجئے جہاں مذہبی منافرت زوروں پر ہے۔ صنفی امتیاز کی کوئی حد نہیں۔ شہریوں کے حقوق صرف آئین کے اوراق تک محدود ہیں۔ تعلیمی اور معاشی میدانوں میں مساوی مواقع عدم دستیاب ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ تو منظر ڈوبتا ہوا نہیں لگے گا کیا؟ یہ سوچ سوچ کر میرا تو دل بھی پاکستانی بستیوں کی طرح ڈوبنے لگتا ہے۔ پھر دل کو تسلی دینے کی غرض سے کہتا ہوں کہ یہ سیلاب کا موسمی ریلا بھی گزر ہی جائے گا۔

متاثرین رفتہ رفتہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ اور پھر سے زندگی آغاز کرنے میں کوشاں ہوجائیں گے۔ آہستہ آہستہ پانی خطرے کے نشاں سے نیچے آ جائے گا مگر یہ جو سیاسی طوفان ہے۔ یہ جو معاشی ہلچل ہے۔ یہ جو منافرت اور انا کے بپھرے ہوئے، منہ زور ریلے ہیں یہ کب نرم پڑیں گے؟ کب ارباب بست و کشاد اپنی جیبیں خالی کر کے قومی خزانہ بھریں گے اور باہمی اختلافات کو بھول کر عوام کی زندگی کو پرسکون بنانے کا سوچیں گے؟

ہو سکتا ہے یہ میرا ذاتی احساس ہو کہ ایک سے زیادہ احباب کے ساتھ رابطے کے دوران میں مجھے لگا کہ وہ اپنے موقف سے ہٹ کر کسی بات کو سچ ماننے کو تیار نہ تھے اور دوستانہ مکالمے کی کوشش کو جذباتی ”جنگ و جدل“ کی طرف دھکیل رہے تھے۔ مجھے طول کلام کو سمیٹنے ہی میں عافیت دکھائی دی۔

سیاسی قائدین اور گمبھیر مسائل نے اس معاشرے کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں اب سیاسی رہنماؤں کی نہیں بلکہ اچھے سائیکو تھیراپسٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک سائیکو تھیراپسٹ بھی کیا کرسکے گا۔ سماجی، معاشی، سیاسی ہر شعبے ہی حالت دگرگوں ہے۔ سدھار کی ایک ہمہ جہت اور منظم اجتماعی کوشش ہی شاید بارآور ہو سکے۔ یہ آغاز کیسے ہوگی؟ معلوم نہیں۔ شاید آگاہی کی کوششوں کے ذریعے، میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار کی مدد سے۔ شاید۔

تاہم اس ذہنی تناؤ اور نفسیاتی الجھاؤ سے صحت مند انداز میں نکلے بغیر چارہ نہیں۔

اور حقیقت یہ بھی ہے کہ بدنظمی اور باہم کشیدگی کا طوفان اور سیلاب بلا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں والد صاحب کا شعر بار بار ذہن میں آتا ہے مگر سمجھ یہ نہیں آتی کہ اسے ان حالات میں پڑھا کیسے جائے؟ استفہامی لہجے میں یا پھر سوالیہ انداز میں؟

اشکوں سے نہیں ٹوٹا ابھی ضبط کا پشتہ! ؟
پانی ابھی خطرے کے نشاں تک نہیں آیا! ؟
چلیے، آپ ہی بتائیے آپ کیسے پڑھیں گے اسے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments